الوصف
مجھے کس نے پیدا کیا؟ اور کیوں؟ہر ایک چیز خالق کے وجود پر دلالت کرتی ہے
ترجمات أخرى 37
المحاور
آسمان وزمین اور ان دونوں کے اندر جو نا قابل احاطہ عظیم مخلوقات ہیں، انہیں کس نے پیدا کیا؟
کس نے آسمان وزمین کے اس پختہ اور باریک نظام کو تخلیق کیا؟
کس نے انسان کو پیدا کیا، اسے کان، آنکھ اور عقل سے نوازا اور اسے اس قابل بنایا کہ وہ علوم ومعارف حاصل کر سکے اور حقائق کی تہہ تک پہنچ سکے؟
تمہارے جسم اور دیگر زندہ مخلوقات کے جسموں کے نظام میں جو باریک کاری گری ہے، اس کو تم کیا معنى دے سکتے ہو؟ کس نے اس انوکھے نظام کو وجود بخشا؟
یہ عظیم کائنات اپنے ان قوانین کے ساتھ کس طرح منظم اور مستحکم ہے جن قوانین نے سالہا سال سے اسے نہایت باریکی کے ساتھ منظم کر رکھا ہے۔
کس نے یہ سارے نظام وضع کیے جو اس کائنات کو کنٹرول کر رہے ہیں (موت وحیات، زندوں کی نسلی افزائش، شب وروز کی گردش، موسم کی تبدیلی اور دیگر نظامہائے عالم)؟
کیا اس کائنات نے خود کى تخلیق کى ہے؟ یا لا شیء سے وجود میں آئى ہے؟ یا اچانک سے اس کا وجود رونما ہوگیا؟
انسان آخر کیوں بہت سی ان دیکھی چیزوں کے وجود پر ایمان رکھتا ہے؟ جیسے (حس واداراک، عقل، روح، جذبات اور محبت) کیا اس لیے نہیں کہ وہ ان کے اثرات اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے؟ بھلا پھر انسان اس عظیم کائنات کے خالق کا انکار کیوں کرتا ہے جب کہ وہ اس کی مخلوقات کے آثار اور اس کی کاری گری ورحمت کے آثار ہر جگہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوتا ہے؟!
کوئی انسان یہ بات قبول نہیں کرے گا کہ یہ عمارت بغیر کسی کے بنائے ہوئے وجود میں آگئی؟ یا یہ کہ عدم نے اس عمارت کو وجود میں لایا! تو بھلا کچھ لوگ کیوں کر اس شخص کی تصدیق کرتے ہیں جو کہتا ہے کہ یہ عظیم کائنات بغیر کسی خالق کے وجود میں آگئی؟ کوئی عقل مند انسان کیسے یہ قبول کر سکتا ہے کہ کائنات کا یہ دقیق نظام اچانک سے وجود میں آگیا؟
اللہ تعالی کا فرمان ہے:(أَمۡ خُلِقُواْ مِنۡ غَيۡرِ شَيۡءٍ أَمۡ هُمُ ٱلۡخَٰلِقُونَ، أَمۡ خَلَقُواْ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضَۚ بَل لَّا يُوقِنُونَ). کیا یہ بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟ کیا انہوں نے ہی آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں۔[52 : 32]۔
ایک رب اور ایک ہی خالق ہے، اس کے بہت سے اسما اور بڑی عظیم صفات ہیں جو اس کے کمال پر دلالت کرتے ہیں، اس کے اسما میں یہ نام بھی ہیں: الخالق (پیدا کرنے والا)، الرحیم (رحم کرنے والا)، الرزاق (رزق دینے والا) اور الکریم (نوازش کرنے والا)، اور "اللہ" پاک وبرتر رب کا سب سے معروف ومشہور نام ہے، جس کے معنی ہیں: تن تنہا تمام تر عبادتوں کا مستحق جس کا کوئی شریک وساجھی نہیں۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا([1]):﴿قُلۡ هُوَ ٱللَّهُ أَحَدٌ آپ کہہ دیجیے کہ وہ اللہ تعالی ایک ہی ہے۔* ٱللَّهُ ٱلصَّمَدُ اللہ تعالی بے نیاز اور ہر طرح کى عظمت میں کمال والا ہے۔*لَمۡ یَلِدۡ وَلَمۡ یُولَدۡ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا*وَلَمۡ یَكُن لَّهُۥ كُفُوًا أَحَدُۢ﴾ اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔[112: 1-4].
نیز فرمان باری تعالی ہے:﴿اللَّهُ لا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ وَلا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ﴾ اللہ تعالی ہی ہے کہ جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے، جسے نہ اونگھ آئے نہ نیند، اس کی ملکیت میں زمین اور آسمانوں کی تمام چیزیں ہیں۔ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کر سکے، وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے، اس کی کرسی کی وسعت نے زمین وآسمان کو گھیر رکھا ہے اور اللہ تعالی ان کی حفاظت سے نہ تھکتا اور نہ اکتاتا ہے، وہ تو بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔[2 : 255].
رب وہ ہے جس نے زمین کو پیدا کیا، اسے ہموار کیا اور مخلوقات کے لیے سازگار بنادیا، اسی نے آسمانوں اور ان کے درمیان کی عظیم مخلوقات کو پیدا فرمایا، اسی نے سورج اور چاند، دن اور رات کا یہ باریک نظام پیدا کیا جو اس کی عظمت پر دلالت کرتا ہے۔
رب وہی ہے جس نے ہمارے لیے ہوا کو مسخر کیا جس کے بغیر ہماری زندگی کا تصور نہیں، وہی ہے جو ہم پر بارش برساتا ہے، اسی نے سمندروں اور نہروں کو ہمارے لیے مسخر فرمایا، وہی ہے جو ہمیں ہماری ماؤں کے شکم میں غذا فراہم کرتا تھا جب کہ ہم بے بس اور لا چار تھے، وہی ہے جو ہماری رگوں میں خون دوڑاتا ہے، اسی نے پیدائش سے لے کر موت تک ہمارے دلوں کو پیہم دھڑکنے کی صلاحیت دی ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ "اللہ تعالی نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ہے کہ اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے، اسی نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے کہ تم شکر گزاری کرو"۔(16: 78)
ہمارے خالق نے ہمیں عقلوں سے نوازا جو اس کی عظمت کو سمجھتی ہیں، اور ہمارے اندر ایسی فطرت ودیعت فرمائی جو اس کے کمال پر اور اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ رب نقص اور کمی سے متصف نہیں ہوسکتا۔
ساری عبادتیں صرف ایک اللہ تعالی کے لیے ہونی چاہیے کیوں کہ وہی کامل ہے اور تمام تر عبادت کا مستحق بھی وہی ہے، اس کے علاوہ جس کی بھی عبادت کی جاتی ہے وہ باطل وناقص ہے اور موت وفنا سے دوچار ہونے والا ہے۔
معبود کوئی انسان یا صنم یا درخت یا حیوان نہیں ہو سکتا!
عقل مند شخص کو یہ زیب نہیں دیتا کہ کامل ذات کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرے، تو بھلا وہ اپنے سے ادنی وکمتر مخلوق کی عبادت کیسے کرتا ہے!
ممکن نہیں کہ رب کسی عورت کے شکم میں جنین بن کر رہے اور بچوں کی طرح اس کی پیدائش ہو!
رب وہ ہے جس نے ساری مخلوقات کو پیدا کیا، مخلوقات اس کی گرفت میں اور اس کے سامنے زیر دست ہیں، انسان اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا اور نہ کوئی شخص اسے سولی پر چڑھا سکتا اور عذاب وذلت سے دوچار کر سکتا ہے!
رب کو موت نہیں آسکتی!
رب وہ ہے جو نہ بھولتا ہے، نہ سوتا ہے اور نہ کھاتا ہے، وہ عظیم ہے، نہ کوئی اس کی بیوی ہو سکتی ہے اور نہ کوئی اولاد، خالق کے اندر عظیم صفات پائی جاتی ہیں، وہ کبھی بھی حاجت وضرورت اور نقص وخلل سے متصف نہیں ہوسکتا، انبیاء کی طرف منسوب کیے جانے والے وہ تمام نصوص جن میں خالق کی عظمت کی مخالفت پائی جاتی ہے، وہ تحریف شدہ نصوص ہیں، اس صحیح اور برحق وحی سے ان کا کوئى واسطہ نہیں ہے جس کے ساتھ موسی وعیسی اور دیگر انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام مبعوث کیے گئے تھے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ (73) "لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کر سکتے، گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بودا ہے طلب کرنے والا اور بڑا بودا ہے وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے۔مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (74) انہوں نے اللہ کے مرتبہ کے مطابق اس کی قدر جانی ہی نہیں، اللہ تعالی بڑا ہی زور وقوت والا اور غالب وزبردست ہے"۔[22: 73، 74].
کیا یہ معقول بات ہے کہ اللہ نے ان تمام مخلوقات کو بے مقصد اور بیکار پیدا کیا ہے، حالاں کہ وہ حکمت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے؟
کیا یہ معقول بات ہے کہ جس نے ہمیں اتنی درستگی اور مہارت کے ساتھ پیدا کیا اور زمین و آسمان کی ہر چیز کو ہمارے تابع کر دیا وہ ہمیں بغیر کسی مقصد کے پیدا کر دے یا ہمیں ان اہم ترین سوالوں کے جواب کے بغیر چھوڑ دے جو ہمیں پریشان کر رہے ہیں، جیسے: ہم یہاں کیوں ہیں؟ موت کے بعد کیا ہوگا؟ ہماری تخلیق کا مقصد کیا ہے؟
بلکہ اللہ تعالی نے رسول بھیجے تاکہ ہم اپنے وجود کا مقصد اور اپنے رب کی منشا جان سکیں!
اور اللہ تعالی نے رسول اس لیے بھی بھیجے تاکہ وہ ہمیں بتائیں کہ وہی تن تنہا تمام تر عبادتوں کا مستحق ہے، اور ہم یہ جان سکیں کہ کس طرح اس کی عبادت کرنی ہے، اور اس لیے کہ وہ اللہ کے اوامر ونواہی ہم تک پہنچا دیں اور ہمیں ان فاضلانہ اقدار کی تعلیم دیں کہ اگر ہم ان پر عمل پیرا ہوجائیں تو ہماری زندگی خوش گوار ہوجائے اور ان میں ہر طرف خیرات وبرکات کا دور دورہ ہو۔
اللہ تعالیٰ نے بہت سے رسول بھیجے، جیسے: (نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم الصلاۃ و السلام) اور اللہ تعالیٰ نے ایسی نشانیوں اور معجزات سے ان کی تائید فرمائی جن سے ان کی سچائی کی تصدیق ہوتی ہے اور اس بات کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔
اور ان کی آخری کڑی محمد ﷺ ہیں، اللہ نے آپ پر قرآن مجید نازل فرمایا۔
رسولوں نے ہمیں واضح طور پر یہ بتایا کہ یہ زندگی ایک امتحان ہے اور حقیقی زندگی تو موت کے بعد ہوگی۔
اور یہ کہ ان مومنوں کے لیے جنت ہے جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور تمام رسولوں پر ایمان لاتے ہیں، اور ایک آگ ہے جو اللہ نے ان کافروں کے لیے تیار کیا ہے جو اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی پرستش کرتے ہیں یا اللہ کے رسولوں میں سے کسی کا انکار کرتے ہیں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يَابَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (35) "اے اوﻻد آدم! اگر تمھارے پاس تم ہی میں سے رسول آئیں جو میرے احکام تم سے بیان کریں تو جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور (اپنی) اصلاح کرے تو ان لوگوں پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ وه غمگین ہوں گے(35)۔وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (36) اور جو لوگ ہمارے ان احکام کو جھٹلائیں اور ان سے تکبر کریں وہ لوگ دوزخ والے ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے"(36)[7 : 36، 35]
اللہ پاک کا فرمان ہے:﴿ أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ ﴾ "کیا تم یہ گمان کیے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے"۔[23: 115].
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے جو اس نے سب سے آخری رسول محمد ﷺ پر نازل کیا اور یہ سب سے بڑا معجزہ ہے جو آپ ﷺ کی نبوت کی سچائی پر دلالت کرتا ہے۔ قرآن کریم کے احکام میں حقانیت اور معلومات میں صداقت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے منکرین کو چیلنج کیا کہ وہ اس جیسی ایک سورت لے آئیں لیکن وہ ایسا کرنے سے قاصر رہے كيوں کہ اس کا اسلوب نہایت عمدہ اور اس کے الفاظ بے حد بلیغ ہیں۔ وہ بہت سارے عقلی شواہد اور سائنسی حقائق پر مشتمل ہے جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ کتاب انسانوں کی طرف سے نہیں بنائی جا سکتی ہے، بلکہ یہ انسانوں کے رب کا کلام ہے۔
زمین پر انسانوں کے وجود سے ہی اللہ تعالی نے رسولوں کی بعثت کا سلسلہ شروع کر دیا تاکہ وہ لوگوں کو ان کے رب کی دعوت دیں اور ان تک اللہ کے اوامر ونواہی پہنچائیں، ان تمام رسولوں کی ایک ہی دعوت تھی: صرف اللہ عز وجل کی عبادت، اور جب بھی کوئی قوم ایک اللہ کی وحدانیت کے سلسلے میں اس کے رسول کی لائی ہوئی باتوں کو ترک کرنا یا ان کی تحریف کرنا شروع کر دیتی تو اللہ کسی دوسرے رسول کو مبعوث کرتا تاکہ وہ درست رہنمائی کریں اور لوگوں کو توحید اور اللہ کی اطاعت کے ذریعہ فطرت سلیمہ کی طرف لوٹائیں۔یہاں تک کہ اللہ نے رسولوں کا یہ سلسلہ محمد ﷺ پر ختم کیا، جو قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے مکمل دین اور ابدی عمومی رسالت لیکر آئے، جو اس سے پہلے کی تمام شریعتوں کی تکمیل اور منسوخی کرتی ہے، اللہ تعالیٰ نے قیامت تک اس دین کی بقا اور تسلسل کی ضمانت دی ہے۔
لہذا، ہم مسلمان -فرمان الہی کے مطابق- تمام رسولوں اور سابقہ کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ءَامَنَ ٱلرَّسُولُ بِمَاۤ أُنزِلَ إِلَیۡهِ مِن رَّبِّهِۦ وَٱلۡمُؤۡمِنُونَۚ كُلٌّ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَمَلَـٰۤىِٕكَتِهِۦ وَكُتُبِهِۦ وَرُسُلِهِۦ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ أَحَدࣲ مِّن رُّسُلِهِۦۚ وَقَالُوا۟ سَمِعۡنَا وَأَطَعۡنَاۖ غُفۡرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَیۡكَ ٱلۡمَصِیرُ﴾ رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالی کی جانب سے اتری اور مومن بھی ایمان لائے، یہ سب اللہ تعالی اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے، انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب ! اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔[2: 285]. [2: 285].
جس نے رسولوں کو مبعوث فرمایا وہ اللہ ہے، اور جس شخص نے ان میں سے کسی بھی رسول کی رسالت کا انکار کیا تو اس نے تمام رسولوں کا انکار کیا، اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں کہ انسان اللہ کی وحی کا انکار کرے، جنت میں جانے کے لیے تمام رسولوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔
اس زمانے میں ہر انسان پر واجب ہے کہ اللہ کے تمام رسولوں پر ایمان لائے، اس کا واحد طریقہ یہی ہے کہ وہ آخری اور خاتم الرسل محمد ﷺ پر ایمان لائے اور آپ کی پیروی کرے۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ کے کسی بھی رسول پر ایمان لانے سے انکار کرتا ہے وہ اللہ اور اس کی وحی کا منکر ہے:
یہ آیت پڑھیں:"إنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ ورُسُلِهِ ويُرِيدُونَ أنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ ورُسُلِهِ ويَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ ونَكْفُرُ بِبَعْضٍ ويُرِيدُونَ أنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا "جو لوگ اللہ کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق رکھیں اور جو لوگ کہتے ہیں کہ بعض نبیوں پر تو ہمارا ایمان ہے اور بعض پر نہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے اور اس کے بین بین کوئی راہ نکالیں۔أُولَئِكَ هُمُ الكافِرُونَ حَقًّا وأعْتَدْنا لِلْكَفَرَيْنِ عَذابًا مُهِينًا﴾". یقین مانو کہ یہ سب لوگ اصلی کافر ہیں اور کافروں کے لیے ہم نے اہانت آمیز سزا اختیار کر رکھی ہے۔[4: 150، 151].
اسلام کہتے ہیں: توحيد كو اپناتے ہوئے اللہ کے حضور سرِ تسلیم خم کردینا، اس کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے اس کی فرماں برداری کرنا اور خوشی خوشی اس کی شریعت پر عمل پیرا ہونا۔
اللہ تعالی نے تمام رسولوں کو ایک ہی پیغام کی خاطر مبعوث فرمایا اور وہ ہے: صرف ایک اللہ کی عبادت کى دعوت دینا جس کا کوئی شریک نہیں۔
اسلام تمام انبیاء کا دین ہے اس لیے ان کی دعوت ایک ہے اور ان کی شریعتیں الگ الگ ہیں۔ آج صرف مسلمان ہی اس سچے مذہب پر کاربند ہیں جسے تمام انبیاء لیکر آئے تھے۔ اور اس دور میں اسلام کا پیغام ہی حق ہے۔ وہ رب جس نے ابراہیم، موسی اور عیسی کو مبعوث فرمایا ، اسی رب نے خاتم الرسل محمد کو بھی مبعوث فرمایا، اور اسلامی شریعت اپنے ماقبل کی تمام شریعتوں کو منسوخ کرنے والی ہے۔
تمام مذاہب جن کی لوگ آج پیروی کرتے ہیں- سوائے اسلام کے- وہ مذاہب انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں، یا وہ مذاہب ہیں جو الہی تھے اور پھر انسانوں نے ان میں چھیڑ چھاڑ کیا تو وہ خرافات، وراثت میں ملنے والی داستانوں اور انسانی اجتہادات کا مرکب بن گئے۔ لیکن مسلمانوں کا عقیدہ ایک واضح عقیدہ ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، آپ قرآن مجید کو دیکھ لیں، وہ تمام اسلامی ممالک میں ایک ہی شکل میں ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
قُلْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَالنَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (84) "آپ کہہ دیجیے کہ ہم اللہ تعالی پر اور جو کچھ ہم پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد پر اتارا گیا اور جو کچھ موسی وعیسی (علیہما السلام) اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) اللہ تعالی کی طرف سے دیے گئے، ان سب پر ایمان لائے، ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ تعالی کے فرمانبردار ہیں۔(84)وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ 85). جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا"۔ 85[3: 84، 85].
کیا آپ جانتے ہیں کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام پر ایمان لائیں، ان سے محبت رکھیں اور ان کا احترام کریں اور ان کے پیغام پر ایمان لائیں جو کہ صرف ایک اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کی دعوت ہے! مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ عیسی علیہ السلام اور محمد ﷺ اللہ کے نبی ہیں اور انہیں اس لیے مبعوث کیا گیا تاکہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائیں اور جنت کی راہ دکھائیں
ہمارا عقیدہ ہے کہ عیسی علیہ السلام اللہ کے مبعوث کردہ عظیم ترین رسولوں میں سے تھے، ہم یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کی پیدائش معجزانہ انداز میں ہوئی، اللہ نے قرآن میں ہمیں بتایا ہے کہ عیسی علیہ السلام کی ولادت بغیر باپ کے ہوئی، جس طرح آدم علیہ السلام کی ولادت بغیر ماں باپ کے ہوئی، اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔
ہم یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ عیسی معبود نہیں ہیں اور نہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں، اور نہ انہیں سولی پر چڑھایا، بلکہ وہ زندہ ہیں، اللہ نے ان کو اپنے پاس اٹھا لیا تاکہ آخری زمانے میں ان کو منصف حاکم بناکر بھیجے، وہ اس وقت مسلمانوں کے ساتھ ہوں گے کیوں کہ مسلمان ہی اس توحید پر ایمان رکھتے ہیں جس کے ساتھ عیسی اور تمام انبیاء مبعوث کیے گئے۔
اللہ تعالی نے ہمیں قرآن مجید میں یہ خبر دی ہے کہ عیسی علیہ السلام کے پیغام میں نصرانیوں نے تحریف کردی اور کچھ گمراہ تحریف کاروں نے انجیل میں تحریف کردی اور اس میں ایسی عبارتوں کا اضافہ کر دیا جو عیسی علیہ السلام نے نہیں کہے، اس کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ انجیل کے مختلف نسخے ہیں اور ان کے درمیان بہت سارا تضاد پایا جاتا ہے۔
اللہ تعالی نے ہمیں یہ خبر دی ہے کہ عیسی اپنے رب کی عبادت کرتے تھے اور آپ نے کسی سے یہ نہیں کہا کہ وہ ان کی عبادت کریں، بلکہ وہ اپنی قوم کو یہی حکم دیا کرتے تھے کہ وہ اپنے خالق کی عبادت کریں، لیکن شیطان نے نصرانیوں کو عیسی کا پجاری بنا دیا، اللہ نے ہمیں قرآن میں یہ بھی خبر دی ہے کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کو معاف نہیں کرے گا جس نے غیر اللہ کی عبادت کی، عیسی علیہ السلام ان تمام لوگوں سے قیامت کے دن براءت ظاہر کریں گے جنہوں نے ان کی عبادت کی اور ان سے کہیں گے کہ میں نے تمہیں خالق کی عبادت کا حکم دیا تھا اور میں نے یہ نہیں کہا کہ تم میری عبادت کروں اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
﴿یَـٰۤأَهۡلَ ٱلۡكِتَـٰبِ لَا تَغۡلُوا۟ فِی دِینِكُمۡ وَلَا تَقُولُوا۟ عَلَى ٱللَّهِ إِلَّا ٱلۡحَقَّۚ إِنَّمَا ٱلۡمَسِیحُ عِیسَى ٱبۡنُ مَرۡیَمَ رَسُولُ ٱللَّهِ وَكَلِمَتُهُۥۤ أَلۡقَىٰهَاۤ إِلَىٰ مَرۡیَمَ وَرُوحࣱ مِّنۡهُۖ فَـَٔامِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرُسُلِهِۦۖ وَلَا تَقُولُوا۟ ثَلَـٰثَةٌۚ ٱنتَهُوا۟ خَیۡرࣰا لَّكُمۡۚ إِنَّمَا ٱللَّهُ إِلَـٰهࣱ وَ ٰحِدࣱۖ سُبۡحَـٰنَهُۥۤ أَن یَكُونَ لَهُۥ وَلَدࣱۘ لَّهُۥ مَا فِی ٱلسَّمَـٰوَ ٰتِ وَمَا فِی ٱلۡأَرۡضِۗ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ وَكِیلࣰا﴾ "اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو، مسیح عیسی بن مریم تو صرف اللہ تعالی کے رسول اور اس کے کلمہ (سے پیدا شدہ) ہیں، جسے مریم کی طرف ڈال دیا تھا اور اس کے پاس کی ایک روح ہیں، اس لیے تم اللہ کو اور اس کے سب رسولوں کو مانو اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں، اس سے باز آجاؤ کہ تمہارے لیے بہتری ہے، اللہ عبادت کے لائق تو صرف ایک ہی ہے اور اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو، اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ کافی ہے کام بنانے والا"۔[4 : 171].
اللہ تعالی کا فرمان ہے:(وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ "اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالی فرمائے گا کہ اے عیسی ابن مریم! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو! عیسی عرض کریں گے کہ میں تیرى پاکی بیان کرتا ہوں، مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھ کو کوئ حق نہیں، اگر میں نے کہا ہوگا تو تجھ کو اس کا علم ہوگا، تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا۔ تمام غیبوں کا جاننے والا تو ہی ہے"۔(5 :116)
جو شخص آخرت میں نجات حاصل کرنا چاہتا ہو اسے چاہیے کہ اسلام میں داخل ہوجائے اور نبی محمد ﷺ کا پیروکار بن جائے۔
ایک حقیقت جس پر انبیاء و رسل علیہم السلام کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ صرف وہی مسلمان آخرت میں نجات پائیں گے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرتے اور تمام انبیاء اور رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ چنانچہ جو لوگ موسی علیہ السلام کے زمانے میں تھے اور انہوں نے ان پر ایمان لایا اور ان کی تعلیمات کی پیروی کی تو وہ مسلمان، مومن اور نیک وصالح ہیں، لیکن عیسی علیہ السلام کی بعثت کے بعد موسی کے پیروکاروں پر بھی یہ واجب ہوگیا کہ وہ عیسی پر ایمان لائیں اور ان کی اتباع کریں، چنانچہ جنہوں نے عیسی پر ایمان لایا وہ مسلمان اور نیک تھے اور جنہوں نے ان پر ایمان لانے سے انکار کیا اور کہا کہ ہم موسی کے دین پر ہی قائم رہیں گے تو یہ مومن نہیں تھے، کیوں کہ انہوں نے ایک ایسے نبی پر ایمان لانے سے انکار کیا جن کو اللہ نے بھیجا تھا، اس کے بعد جب اللہ نے آخری رسول محمد ﷺ کو بھیجا تو تمام لوگوں پر واجب ہوگیا کہ وہ آپ پر ایمان لائیں، کیوں کہ وہ رب جس نے موسی اور عیسی کو مبعوث فرمایا، اسی رب نے آخری رسول محمد کو بھی مبعوث فرمایا، چنانچہ جس نے محمد ﷺ کی رسالت کا انکار کیا اور کہا کہ میں موسی یا عیسی کے دین پر ہی قائم رہوں گا تو وہ مومن نہیں ہے۔
کسی شخص کے لیے یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کا احترام کرتا ہے اور نہ ہی اس کی آخرت کی نجات کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ صدقہ دے اور غریبوں کی مدد کرے۔ بلکہ اللہ، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لانا واجب ہے۔ تاکہ اللہ اس کے اعمال قبول فرمائے! شرک، اللہ سے کفر، اللہ کی نازل کردہ وحی کو جھٹلانے یا اس کے آخری نبی محمد ﷺ کی نبوت کو جھٹلانے سے بڑا کوئی گناہ نہیں۔ یہود ونصاری جنہوں نے محمد ﷺ کی بعثت کی خبر سنی اور آپ پر ایمان لانے سے انکار کیا اور دین اسلام میں داخل ہونے سے بھی انکار کیا وہ جہنم کی آگ میں داخل ہوں گے جہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ أُولَـٰئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ} "بے شک جو لوگ اہل کتاب میں کافر ہوئے اور مشرکین سب دوزخ کی آگ میں (جائیں گے) جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، یہ لوگ بدترین خلائق ہیں"۔[98: 6].
چوں کہ اللہ کی طرف سے انسانیت کے لیے آخری پیغام نازل ہو چکا ہے، اس لیے ہر وہ انسان جو اسلام کے بارے میں سنتا ہے اور آخری نبی محمد ﷺ کے پیغام کو سنتا ہے، اس کے لیے لازم ہے کہ وہ آپ پر ایمان لائے، آپ کی شریعت پر عمل کرے اور آپ کے اوامر و نواہی کی پیروی کرے۔ اور جو اس آخری پیغام کے بارے میں سنتا ہے اور اس کا انکار کرتا ہے تو اللہ اس سے کچھ بھی قبول نہیں کرے گا اور اسے آخرت میں عذاب دے گا۔ اس كی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَن یَبۡتَغِ غَیۡرَ ٱلۡإِسۡلَـٰمِ دِینࣰا فَلَن یُقۡبَلَ مِنۡهُ وَهُوَ فِی ٱلۡـَٔاخِرَةِ مِنَ ٱلۡخَـٰسِرِینَ﴾ "جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا"۔[3 : 85].
اللہ تعالی کا فرمان ہے:(قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ) ''آپ کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں اور تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں، نہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں۔ پس اگر وه منھ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواه رہو ہم تو مسلمان ہیں۔''(3: 64).
اسلام میں داخل ہونے کے لیے ان چھ ارکان پر ایمان لانا ضروری ہے :
اللہ تعالی پر ایمان لانا اور اس بات پر کہ وہی خالق ورازق، مدبر اور مالک ہے، اس کے جیسی کوئی چیز نہیں، نہ اس کے پاس بیوی ہے اور نہ اولاد، وہ اکیلا ہی تمام تر عبادتوں کا تنہا مستحق ہے۔
فرشتوں پر ایمان لانا اور یہ کہ وہ اللہ تعالی کے بندے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے نور سے پیدا کیا ہے اور انہیں اس بات کا مکلف کیا ہے کہ وہ انبیائے کرام پر وحی نازل کریں۔
ان تمام کتابوں پر ایمان لانا جنہیں اللہ نے اپنے نبیوں پر نازل کیا (جیسے توریت اور انجیل) اور آخری کتاب قرآن مجید پر ۔
تمام رسولوں پر ایمان لانا جیسے نوح، ابراہیم، موسی، عیسی اور آخری رسول محمد، وہ تمام کے تمام انسان تھے، اللہ نے وحی کے ذریعہ ان کی تائید کی اور ان کی سچائی پر دلالت کرنے والی آیات ومعجزات سے انہیں سرفراز فرمایا۔
آخرت کے دن پر ایمان لانا جب اللہ تعالی تمام پہلے اور بعد والوں کو جمع کرے گا اور اپنی مخلوق کے درمیان فیصلہ کرے گا اور مومنوں کو جنت میں اور کافروں کو جہنم میں داخل کرے گا۔
تقدیر پر ایمان لانا اور اس بات پر کہ اللہ تعالی ہر اس چیز کو جانتا ہے جو ماضی میں تھا اور جو مستقبل میں ہونے والا ہے، اور اللہ تعالی نے یہ چیز لکھ رکھی تھی اور اس کی مشیت سے ہی یہ رونما ہوا اور اللہ نے ہی اسے پیدا کیا۔
اسلام تمام انبیاء کا دین ہے اور یہ عربوں کے لیے مخصوص دین نہیں ہے۔
اسلام اس دنیا میں حقیقی خوشی اور آخرت میں ابدی سعادت کا راستہ ہے۔
اسلام وہ واحد مذہب ہے جو روح اور جسم کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور تمام انسانی مسائل کا حل کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقَى "فرمایا : تم دونوں یہاں سےاتر جاؤ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو، اب تمھارے پاس جب کبھی میری طرف سے ہدایت پہنچے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وه بہکے گا نہ شقی ہوگا"۔وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى اور (ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے"۔[20: 123، 124].
اسلام میں داخل ہونے کے بہت سے فائدے ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں :
- اس دنیا میں کامیابی اور عزت حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اللہ کا بندہ ہوجائے، ورنہ وہ شیطان اور خواہشات کا غلام ہوجاتا ہے۔
- آخرت میں سب سے بڑی کامیابی یہ ہوگی کہ وہ جہنم سے نجات حاصل کرکے جنت میں داخل ہوجائے اور اللہ کی رضا مندی سے بہرہ ور ہوکر دخول جنت کی ابدی زندگی سے سرفراز ہو۔
- جن لوگوں کو اللہ جنت میں داخل کرے گا وہ موت، بیماری، درد، بڑھاپے یا غم کے بغیر دائمی خوشیوں میں رہیں گے، اور وہ اپنی خواہشات کے مطابق ہر چیز سے لطف اندوز ہوں گے۔
جنت میں ایسی نعمتیں ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہے، نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے حاشیہ خیال میں وہ آیا ہے۔
اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:﴿مَنۡ عَمِلَ صَـٰلِحࣰا مِّن ذَكَرٍ أَوۡ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤۡمِنࣱ فَلَنُحۡیِیَنَّهُۥ حَیَوٰةࣰ طَیِّبَةࣰۖ وَلَنَجۡزِیَنَّهُمۡ أَجۡرَهُم بِأَحۡسَنِ مَا كَانُوا۟ یَعۡمَلُونَ﴾ "جو شخص نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت لیکن با ایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انھیں ضرور ضرور دیں گے"۔[16 : 97].
انسان سب سے بڑے علم اور معرفت سے محروم ہو جائے گا، وہ ہے اللہ کا علم اور معرفت، اور وہ اللہ پر ایمان لانے سے محروم رہے گا، جو کہ اس کو دنیا میں سلامتی و سکون اور آخرت میں ابدی خوشی دیتا ہے۔
انسان سب سے عظیم کتاب تک رسائی سے محروم ہو جائے گا جسے اللہ نے لوگوں پر نازل کیا ہے، اور اس عظیم کتاب پر ایمان لانے سے محروم رہے گا۔
وہ عظیم انبیاء پر ایمان لانے سے محروم رہے گا، اسی طرح وہ قیامت کے دن جنت میں ان کی صحبت سے بھی محروم ہو جائے گا۔ وہ جہنم کی آگ میں شیطانوں، مجرموں اور ظالموں کے ساتھ ہو گا اور یہ بہت برا ٹھکانہ اور بہت بری صحبت ہوگی۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَلا ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ (15) "کہہ دیجیے کہ حقیقی زیاں کار وہ ہیں جو اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو قیامت کے دن نقصان میں ڈال دیں گے یاد رکھو کہ کھلم کھلا نقصان یہی ہے۔ (15)لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ ذَلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ يَا عِبَادِ فَاتَّقُونِ } . انہیں نیچے اوپر سے آگ کے (شعلے مثل) سائبان (کے) ڈھانک رہے ہوں گے۔ یہی (عذاب) ہے جن سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرا رہا ہے، اے میرے بندو! پس مجھ سے ڈرتے رہو"۔[39: 15، 16].
دنیا ہمیشگی کا گھر نہیں ہے...
دنیا سے ہر خوبصورتی اور ساری شہوت زائل ہو جائے گی...
عنقریب وہ دن آئے گا جس میں آپ کے ہر عمل کا حساب لیا جائے گا، وہ قیامت کا دن ہوگا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:{وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لاَ يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلاَ كَبِيرَةً إِلاَّ أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلاَ يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا} "اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیے جائیں گے۔ پس تو دیکھے گا کہ گنہگار اس کی تحریر سے خوف زدہ ہو رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے ہائے ہماری خرابی، یہ کیسی کتاب ہے جس نے کوئی چھوٹا بڑا بغیر گھیرے کے باقی ہی نہیں چھوڑا، اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم وستم نہ کرے گا"۔[18 : 49].
اللہ عز وجل نے یہ خبر دی ہے کہ جو شخص اسلام نہیں قبول کرتا اس کا ٹھکانہ ہمیشہ کے لیے جہنم ہوگا۔
یہ خسارہ کوئی معمولی بات نہیں، بلکہ یہ ایک بڑا خسارہ ہے:{وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ } "جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا"۔[3 : 85].
اسلام ہی وہ دین ہے جس کے علاوہ کوئی اور دین اللہ کو قبول نہیں۔
اللہ نے ہی ہمیں پیدا کیا اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے، یہ دنیا فقط ہمارے امتحان کی جگہ ہے۔
آپ یقین رکھیں: یہ زندگی خواب کی طرح مختصر ہے...اور کوئی نہیں جانتا کہ کب اسے موت آجائے۔
جب قیامت کے دن آپ کا خالق آپ سے سوال کرے گا تو آپ کیا جواب دیں گے: تم نے حق کی پیروی کیوں نہیں کی؟ تم نے آخری رسول کی پیروی کیوں نہیں کی؟
قیامت کے دن آپ اپنے رب کو کیا جواب دیں گے، جب کہ اس نے آپ کو اسلام کا انکار کرنے کی ہلاکتوں سے متنبہ کر دیا تھا اور آپ کو بتا دیا تھا کہ کافروں کا ٹھکانہ دائمی جہنم ہے؟
اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ "اور جو انکار کرکے ہماری آیتوں کو جھٹلائیں، وہ جہنمی ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے"۔[2: 39]. [2: 39].
اللہ نے ہمیں خبردی ہے کہ بہت سے لوگ اپنے ماحول کے ڈر سے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
اور بہت سے لوگ اس لیے اسلام کا انکار کرتے ہیں کہ انہیں اپنے باپ دادا سے جو عقائد ملے ہیں اور جن کے وہ عادی رہے ہیں، ان سے وہ پھرنا نہیں چاہتے، اور بہت سے لوگ تو وراثت میں ملے باطل عقیدہ کی حمایت اور تعصب میں حق قبول کرنے سے باز رہتے ہیں۔
یہ تمام لوگ معذور نہیں ہیں اور اللہ کے سامنے جب کھڑے ہوں گے تو ان کی بولتی بند ہوگی اور کوئی دلیل نظر نہیں آئے گی۔
ملحد کا عذر مقبول نہیں کہ وہ کہے میں الحاد پر اس لیے قائم رہوں گا کیوں کہ میں ایک ملحد گھرانے میں پیدا ہوا! بلکہ اس پر لازم ہے کہ اللہ نے اسے جو عقل دی ہے اس کا استعمال کرے اور آسمان وزمین کی عظمت پر غور کرے، اور اللہ کی دی ہوئی عقل کو استعمال کرے تاکہ یہ جان سکے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے، اسی طرح جو لوگ پتھروں اور اصنام کی پرستش کرتے ہیں وہ بھی اپنے باپ دادا کی تقلید میں معذور نہیں ہیں، بلکہ ان پر لازم ہے کہ حق کی تلاش کریں اور اپنے آپ سے سوال کریں: میں کیوں کر ایسے جمادات کی پرستش کرتا ہوں جو نہ مجھے سن سکتے ہیں، نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ مجھے کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں؟!
اسی طرح وہ نصرانی جو ایسی باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو فطرت اور عقل کے منافی ہیں، اسے ضرور اپنے نفس سے یہ سوال کرنا چاہیے: رب اپنے بے گناہ اور معصوم بیٹے کو دوسروں کے گناہ کی وجہ سے کیوں کر قتل کر سکتا ہے! یہ تو ظلم ہے! انسان رب کے بیٹے کو کیسے سولی پر چڑھا سکتے اور قتل کر سکتے ہیں! کیا رب اس بات پر قادر نہیں کہ انسانوں کے گناہ معاف کرے، بغیر اس کے کہ ان کی معافی کے لیے اپنے بیٹے کو قتل کرے؟ کیا رب اپنے بیٹے کا دفاع کرنے پر قادر نہیں؟
عقل مند انسان پر واجب ہے کہ حق کی اتباع کرے اور باطل پر اپنے آبا واجداد کی پیروی نہ کرے۔
فرمان باری تعالی ہے:﴿وَإِذَا قِیلَ لَهُمۡ تَعَالَوۡا۟ إِلَىٰ مَاۤ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَإِلَى ٱلرَّسُولِ قَالُوا۟ حَسۡبُنَا مَا وَجَدۡنَا عَلَیۡهِ ءَابَاۤءَنَاۤۚ أَوَلَوۡ كَانَ ءَابَاۤؤُهُمۡ لَا یَعۡلَمُونَ شَیۡـࣰٔا وَلَا یَهۡتَدُونَ﴾ "اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اور رسول کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم کو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے بڑوں کو پایا، کیا اگرچہ ان کے بڑے نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں اور نہ ہدایت رکھتے ہوں"۔[5 :104].
جو شخص اسلام قبول کرنا چاہے لیکن اسے اپنے ماحول کا خوف ہو، تو ممکن ہے کہ وہ اسلام قبول کرلے لیکن اپنا معاملہ پوشیدہ رکھے یہاں تک کہ اللہ تعالی اس کے لیے خیر کا راستہ آسان کردے جس میں وہ آزادانہ طور پر اسلام پر عمل کرنے کے قابل ہوجائے۔
سو آپ پر واجب ہے کہ آپ فورا اسلام قبول کر لیں، لیکن اگر آپ کو کسی نقصان کا خدشہ ہو تو یہ واجب نہیں کہ آپ اپنے گرد کے لوگوں کو اپنے اسلام لانے کی خبر دیں یا اس کو مشہور کریں۔
اور جان لیں کہ اگر آپ اسلام قبول کرتے ہیں تو لاکھوں مسلمانوں کے آپ بھائی بن جاتے ہیں اور آپ اپنے ملک میں کسی مسجد یا اسلامی مرکز سے رابطہ کرکے ان سے مشورہ اور تعاون کی درخواست کر سکتے ہیں اور وہ اس بات سے خوش بھی ہوں گے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِب} "اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو"۔[65 : 2، 3]
کیا اللہ کو راضی کرنا جو آپ کا خالق ہے، جس نے آپ کو ہر قسم کے انعام واکرام سے نوازا، جو آپ کو ماں کے شکم میں بھی غذا فراہم کرتا تھا جب کہ آپ جنین تھے اور جو آپ کو ہوا سے نوازتا ہے جس میں آپ ابھی سانس لے رہے ہیں، کیا اس کو خوش کرنا لوگوں کو خوش کرنے سے زیادہ اہم نہیں ھے؟
کیا دنیا وآخرت کی کامیابی حاصل کرنا اس بات کا مستحق نہیں ہے کہ اس کی خاطر دنیا کی زائل ہونے والی معمولی لذتوں کی قربانی دی جائی؟ یقینا ، اللہ کی قسم!
اپنی ماضی کی وجہ سے اپنی غلطی کو سدھارنے اور درست راہ پر آنے میں جھجھک محسوس نہ کریں۔
آج ہی حقیقی مومن بن جائیں! شیطان کو اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کو حق کی پیروی سے باز رکھے!
فرمان باری تعالی ہے:
{يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَأَنزلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا (174) "اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے سند اور دلیل آپہنچی اور ہم نے تمہاری جانب واضح اور صاف نور اتار دیا ہے۔فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا (175) } پس جو لوگ اللہ تعالی پر ایمان لائے اور اسے مضبوط پکڑ لیا، انہیں تو وہ عنقریب اپنی رحمت اور فضل میں لے لے گا اور انہیں اپنی طرف کی راہ راست دکھا دے گا"۔[4: 174، 175].
اگر پیش کردہ باتیں آپ کے لیے منطقی اور عقل کو اپیل کرنے والی ہیں اور آپ نے اپنے دل میں حق کا اعتراف کر لیا ہے، تو آپ کو چاہیے کہ اسلام لانے کی طرف اپنا پہلا قدم بڑھائیں۔ کیا آپ اپنی زندگی کا سب سے افضل فیصلہ لینے کے لیے میرا تعاون چاہتے ہیں اور یہ رہنمائی چاہتے ہیں کہ آپ مسلمان کیسے بن سکتے ہیں؟
اپنے گناہوں کو اسلام لانے میں مانع نہ بننے دیں، اللہ تعالی نے قرآن میں ہمیں خبر دی ہے کہ جب انسان اسلام لاتا ہے اور اپنے خالق کے حضور توبہ کرتا ہے تو اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، حتی کہ اسلام لانے کے بعد بھی فطری طور پر آپ سے کچھ گناہ سر زد ہوں گے کیوں کہ ہم انسان ہیں، ہم کوئی معصوم فرشتہ نہیں، لیکن ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ سے مغفرت طلب کریں اور اس کے حضور توبہ کریں، اگر اللہ دیکھے گا کہ آپ نے حق کو قبول کرنے میں جلدی کی، اسلام میں داخل ہوگئے اور آپ نے کلمہ شہادت بھی ادا کر لیا تو وہ گناہوں سے باز رہنے میں آپ کی مدد کرے گا، کیوں کہ جو شخص اللہ کی طرف بڑھتا ہے اور حق کی پیروی کرتا ہے، اللہ اسے مزید بھلائی کی توفیق دیتا ہے، اس لیے اسلام قبول کرنے میں تردد نہ کریں۔
اس کی دلیل فرمان باری تعالی ہے:﴿قُل لِّلَّذِینَ كَفَرُوۤا۟ إِن یَنتَهُوا۟ یُغۡفَرۡ لَهُم مَّا قَدۡ سَلَفَ﴾ "آپ ان کافروں سے کہہ دیجیے کہ اگر یہ لوگ باز آجائیں تو ان کے سارے گناہ جو پہلے ہو چکے ہیں سب معاف کر دیے جائیں گے"۔[8 : 38].
اسلام میں داخل ہونا بہت آسان ہے، اس کے لیے رسم ورواج کی اور کسی کے پاس جانے کی کوئی ضرورت نہیں، صرف انسان پر یہ لازم ہے کہ وہ شہادتین کے معانی کو جانتے ہوئے اور ان پر ایمان لاتے ہوئے اپنی زبان سے کلمہ شہادتین ادا کرے، وہ اس طرح کہ یوں کہے: (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں)، اگر آپ عربی میں کہہ سکتے ہیں تو اچھی بات ہے اور اگر آپ کو دقت ہو تو آپ اپنی زبان میں بھی اسے ادا کر سکتے ہیں اور اس طرح آپ مسلمان ہو جائیں گے، اس کے بعد آپ پر لازم ہوگا کہ آپ اس دین کو سیکھیں جو دنیا میں آپ کی خوش بختی کا مصدر اور آخرت میں آپ کی نجات کا ذریعہ ہے۔
اسلام کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے میرا مشورہ ہے کہ آپ درج ذیل ویب سائٹ وزٹ کریں:
اردو زبان میں قرآن کریم کے معانی کے ترجمہ کا (لنک)
اسلام پر عمل کرنے کا طریقہ جاننے کے لیے، ہمارا مشورہ ہے کہ آپ اس ویب سائٹ کو وزٹ کریں:
مجھے کس نے پیدا کیا؟ اور کیوں؟ہر ایک چیز خالق کے وجود پر دلالت کرتی ہے
وہ رب جو معبود حقیقی ہے، ضروری ہے کہ وہ صفات کاملہ سے متصف ہو۔
کیا یہ معقول بات ہے کہ ہمیں ہمارا خالق بغیر وحی کے یوں ہی چھوڑ دے؟
کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ تمام رسولوں پر ایمان نہ لے آئے۔
عیسی علیہ السلام کے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ کیا ہے؟
مجھے اسلام قبول کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
اسلام سعادت وخوش بختی کا راستہ ہے
اسلام میں داخل ہونے سے مجھے کیا فائدہ ہوگا؟
اگر میں اسلام سے روگردانی کروں تو مجھے کیا نقصان ہوگا؟
فیصلہ لینے میں تاخیر نہ کریں!
جس نے باپ دادا کی تقلید کرتے ہوئے حق کا انکار کیا اس کا کوئی عذر نہیں۔
جو شخص اسلام قبول کرنا چاہے اور اپنے رشتہ داروں کی اذیت سے خوفزدہ ہو، وہ کیا کرے؟