Description
اسلام اللہ رب العزت کے نزدیک سب سے پسندیدہ دین ہے،یہ اپنے کمالات ومحاسن کے اعتبار سے تمام ادیان سے ممتازہے، ضرورت ہے کہ اس دین کی اچھائیوں اور خصوصیات کو غیروں تک عام کیا جائے تاکہ اسلام کے متعلق لوگوں کے دلوں میں پائی جانے والی غلط فہمیوں اور شکوک وشبہات کاازالہ ہوسکے۔ زیرمطالعہ کتاب علامہ عبد الرحمن بن ناصرسعدیؒ کی نہایت عمدہ شاہکار ہے جس میں اسلام کی محاسن اور خوبیوں کو نہایت ہی جامع ومانع انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
تالیف: شیخ عبد الرحمن بن ناصر سعدی۔رحمۃ اللہ علیہ۔
عزیزالرحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ ترجمہ:
مراجعہ: شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی
ناشر: دفتر تعاون برائے دعوت وارشاد وتوعیۃ الجالیات،ربوہ،ریاض
مملکتِ سعودی عرب
الحمد لله وكفىٰ وسلامٌ على عباده الذين اصطفىٰ، أمابعد:
اسلام اللہ رب العزت کے نزدیک سب سے پسندیدہ دین ہے،یہ اپنے کمالات ومحاسن کے اعتبار سے تمام ادیان سے ممتازہے، ضرورت ہے کہ اس دین کی اچھائیوں اور خصوصیات کو غیروں تک عام کیا جائے تاکہ اسلام کے متعلق لوگوں کے دلوں میں پائی جانے والی غلط فہمیوں اور شکوک وشبہات کاازالہ ہوسکے۔
زیرمطالعہ کتاب علامہ عبد الرحمن بن ناصرسعدیؒ کی نہایت عمدہ شاہکار ہے جس میں اسلام کی محاسن اور خوبیوں کو نہایت ہی جامع ومانع انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
اسلام ہاؤس ڈاٹ کام کے شعبہ ٔ ترجمہ وتالیف نے افادۂ عام کی خاطراسےاردو قالب میں ڈھالاہے،حتیٰ الامکان ترجمہ کو درست ومعیاری بنانے کی کوشش کی گئی ہے،اور مؤلّف کے مقصود کا خاص خیال رکھا گیا ہے،اور آسان عام فہم زبان اور شُستہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے تاکہ عام قارئین کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہو،مگرکمال صرف اللہ عزوجل کی ذات کا خاصہ ہے، لہذا کسی مقام پر اگر کوئی سَقم نظر آئے تو ازراہ کرم خاکسار کو مطلع فرمائیں تاکہ آئندہ اس کی اصلاح کی جاسکے۔
ربّ کریم سے دعا ہے کہ اس کتاب کو لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنائے،اس کے نفع کو عام کرے، والدین اور جملہ اساتذۂ کرام کے لئے مغفرت وسامانِ آخرت بنائے، اور کتاب کے مولّف، مترجم،مراجع ،ناشراور تمام معاونین کی خدمات کو قبول کرکے ان سب کے حق میں صدقۂ جاریہ بنائے۔آمین۔
وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمام تعریفیں صرف اللہ کے لئے ہیں،ہم اس کی حمد وثنابیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں اور اسی سے بخشش چاہتے ہیں،اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں،اور ہم اپنی نفس اور برے اعمال کی شرارتوں سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔
اللہ جسے ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا،اوروہ جسے گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں،اور اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں،آپ پررب کی بہت زیادہ رحمتیں،برکتیں اورسلامتیں نازل ہوں۔
حمد وصلاۃ کے بعد:
بلا شبہ محمد ﷺ کو جس دین کے ساتھ مبعوث کیا گیا ، وہ تمام ادیان میں سب سے زیادہ مکمل،بلند وبرتر،معزّز ومکرّم، اور افضل ترین دین ہے۔جومتعدد محاسن و کمالات، صلح وآشتی، رحمت و شفقت، عدل و انصاف اور حکمت و دانائی پر مشتمل ہے، جواللہ تعالیٰ کے کمال مطلق اور علم وحکمت کے وسیع ہونے کی گواہی دیتا ہے۔نیز اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے نبی محمد ﷺ اس کے برحق اور سچے رسول ہیں، اور آپ صادق و مصدوق ہیں، کوئی بات آپ اپنے ہوائے نفس کی اتباع میں نہیں کرتے تھے، (جیسا کہ اللہ تعالیٰٰ کا ارشاد ہے:)
''وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے''۔[سورہ نجم:4]
لہذا معلوم ہوا کہ اسلامی دین اللہ تعالیٰ کے منفرد ویکتا ہونے، اور تمام امور میں اس کے کمالِ مطلق ہونے کی سب سے عظیم دلیل اور نشانی ہے، اسی طرح اس کے نبی محمد ﷺکی رسالت اور آپ کے صدق و صفا کی واضح دلیل ہے۔
اس مختصر خامہ فرسائی کے پس پردہ میرا مقصد یہ ہے کہ میں اپنے علم کے مطابق اس عظیم دین کے محاسن اور خوبیوں کے اصول و ضوابط کو بیان کروں، اگر چہ میری جانکاری اور معرفت اس عظیم دین کے بعض اہم مشتملات جیسے: عظمت و جمال اور کمال اسلام کو کما حقہ واضح کرنے سے قاصر ہے۔
نیز میرے الفاظ اور عبارت بھی اس عظیم دین کی مختصر و جامع تشریح کرنے سے عاجز ہیں، چہ جائے کہ میں تفصیلی طور پر اس کی شرح اور وضاحت کروں۔
اورجس کی تمام چیزوں کا جاننا ممکن نہ ہو،اورنہ اس کی غایت اوراس کی اکثرچیزوں تک پہنچا جاسکتا ہو،توان میں سےجن چیزوں کی آدمی معرفت رکھتا ہے ان کا ان چیزوں کی وجہ سے بھی چھوڑدینا مناسب نہیں ہے جن چیزوں کی معرفت سے وہ عاجز ہے۔(ارشاد باری تعالیٰ ہے:)''اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیاده تکلیف نہیں دیتا''۔[سورہ بقرہ:286]
''جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو''۔[سورہ تغابن:16]
اس علم کی معرفت اور جانکاری کے متعدد فوائد ہیں، (ذیل کے سطور میں چند اہم فوائد کواختصار کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے:)
اِس موضوع کے بارے میں مشغول ومصروف ہونا جو سب سےاشرف وعظیم تر ین موضوعات میں سے ہے بہترین نیکی کا کام ہے۔
چنانچہ اس کی معرفت حاصل کرنا، اس کے بارے میں کھوج کرنا ،،اس کے بارے میں غورو فکر کرنا،اور ہر اس طریقہ کو اختیار کرنا جس سے اسکی معرفت حاصل ہوسکے ایسا بہتر کام ہے جس سے بندہ اپنے نفس کو مشغول رکھتا ہے، اوراس میں لگنے والا وقت ایسا وقت ہے جو بندہ کے حق میں حجّت اور کارآمد ثابت ہوتا ہے، نہ کہ اس کے خلاف حجّت وزحمت بنتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ٰاوراس کے رسول محمد ﷺ نے نعمتوں کی معرفت اوراس کے بارے میں گفتگو کرنے کا حکم دیا ہے،اوریہ نیک اعمال میں سےعظیم ترعمل ہے اوربلا شبہ اس موضوع کے بارے میں بحث کرنا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اس کے بندوں پرعظیم ترین نعمت کا اعتراف کرنا،اوراس کے بارے میں گفتگو کرنا اورغوروفکرکرنا ہے۔
اور وہ:اسلامی دین ہے جس کے سوا اللہ تعالیٰ کسی سے کوئی دین ہرگز قبول نہیں کرے گا۔
چنانچہ (اس نعمت کے بارے میں) گفتگو کرنا اللہ کا شکر کرنا ہے، اور اس نعمت میں سے مزید کا سوال کرنا ہے۔
بلا شبہ لوگوں کے درمیان ایمان اور کمالِ ایمان میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے، اور بندہ جتنا زیادہ اس دین کو جاننے والا ہوگا،اوراس کی زیادہ تعظیم کرنے والا ہوگا اوراس سے خوشی ومسرّت محسوس کرنے والا ہوگا تو وہ ایمان میں سب سے زیادہ کامل ہوگا،اورسب سے زیادہ صحیح یقین والا ہوگا۔
کیونکہ یقین ہی ایمان کے تمام اصول وقواعد کی دلیل وحجّت ہے۔
دین اسلام کی سب سے بڑی دعوت و تبلیغ یہ ہے کہ اسلام کے ان محاسن کی تشریح اور وضاحت کی جائےجن کو ہرصاحب عقل اور سلیم الفطرت انسان قبول وتسلیم کرتا ہے۔ پس اگر کچھ لوگ اس دین کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دے کر، اس کے حقائق کی تشریح اور وضاحت کریں، اور لوگوں کے لیے اسلام کے منافع اور مفاد کو بیان کریں، تو یہ لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے میں بہت ہی زیادہ مفید اور کفایت کرے گا،یہ اس لئے کہ وہ لوگ اسلام کو دینی ودنیوی مصالح کے موافق اور ظاہری وباطنی طور پر درست پائیں گے۔ اورمخالفین کے شبہات کے دفاع اور ان کے ادیان کے بارے میں طعن وتشنیع سے تعرّض نہ کیا جائے۔کیونکہ یہ بذات خود اپنے ہرمخالف شبہہ کا دفاع کرے گا،اس لئے کہ یہ ایسا حق ہے جو واضح بیاناور یقین تک پہنچانے والی دلیل پر مشتمل ہے۔
پس جب اس دین کے بعض حقائق سے پردہ ہٹادیا جائےتویہ اس دین کے قبول کرنے اور دیگر(ادیان) پر غالب ہونے کا سب سے بڑا سبب بن جائے گا۔
اور اس بات کو جان لو کہ اسلامی دین کی محاسن واچھائیاں اس دین کے تمام مسائل ودلائل،اس کے اصول وفروع،اس پر دلالت کرنے والی شرعی علوم واحکام،اسی طرح اس پر دلالت کرنے والی سماجی وکائناتی علوم کو شامل ہے۔
یہاں پران تمام چیزوں کا استیعاب وتتبع مقصود نہیں ہے، کیونکہ یہ بہت زیادہ تفصیل طلب ہیں۔
یہاں پر مقصد صرف ان مفید مثالوں کاتذکرہ کرنا ہے جن سے ان کے علاوہ پر استدلال کیا جاتا ہے، اورجن کے ذریعہ داخل ہونے والے کے لئے دروازہ کھلتا ہے، اوریہ اصول وفروع ،اور عبادات ومعاملات میں بکھری چند مثالیں (ونمونے) ہیں۔
چنانچہ ہم اللہ سے مددطلب کرتے ہوئے (کہتے) ہیں،اوراس سے ہدایت کی امید کرتے ہیں،اور علم کی (دولت ) طلب کرتے ہیں، اور اس بات کا سوال کرتے ہیں کہ ہمارے لئے اپنی جود وسخاوت کے خزانے کھول دے ،جس سے ہمارے احوال کی اصلاح ہو سکے، اور ہمارے اقوال و اعمال میں استقامت پیدا ہو سکے۔
''اے مسلمانو! تم سب کہو کہ ہم اللہ پر ایمان ﻻئے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف اتاری گئی اور جو چیز ابراہیم اسماعیل اسحاق یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد پر اتاری گئی اور جو کچھ اللہ کی جانب سے موسیٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) اور دوسرے انبیا (علیہم السلام) دیئے گئے۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے، ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں''۔[ سورہ بقرہ:136]
یہ عظیم اصول جن کا اللہ تعالیٰٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیاہےیہ ایسے اصول وضابطے ہیں جن پر تمام نبیوں اور رسولوں کا اتفاق ہے،اور یہ بہت ہی عظیم اور جلیل معارف واعتقادات پر مشتمل ہیں، جیسے: ان تمام چیزوں پر ایمان لانا جس سے اللہ تعالیٰٰ نے اپنے آپ کو اپنےرسولوں کے زبانی مّتصف کیا ہے، اوراس کی پسندیدہ چیزوں کواختیار کرنےکے لئے( کافی) جہد ومشقت کرنا۔
یہ ایسا دین ہے جس کی اصل اللہ تعالیٰ پرایمان لانا ہے، اوراس کا فائدہ ان تمام چیزوں کو کرنے کی کوشش کرنا جس کواللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اوراس سے خوش ہوتا ہے،اوراسےاللہ تعالیٰ کے لیے خالص طورسےانجام دینا ہے۔تو کیا یہ تصوّر کیا جاسکتا ہے کہ دین اسلام سے بھی بہتر،افضل اورعظیم ترکوئی دین ہے؟۔
دین اسلام ایک ایسا دین ہے جو نبیوں کو عطاکردہ تمام چیزوں پر ایمان لانے، اور ان کی رسالت کی تصدیق کرنے، اور اس حق اور سچائی کا اعتراف کرنے جس کو وہ اپنے رب کی جانب سے لے کرآئے، اور ان کے درمیان تفریقسے بچنے کا حکم دیتا ہے ، اور یہ کہ وہ سب کے سب اللہ تعالیٰٰ کے سچے رسول اور اس کے مخلص امناء ہیں، لہذا اس (دین ) کی طرف کسی بھی اعتراض وطعن کا منسوب کرنا محال ہے۔
یہ دین تمام برحق باتوں کا حکم دیتا ہے، اور ہر سچائی کا اعتراف کرتا ہے، اوران دینی حقائق کو ثابت کرتا ہے جن کی استناد رسولوں کی طرف کی جانے والی وحی الٰہی پر ہوتی ہے،اور نفع بخش فطری عقلی حقائق کے ساتھ قائم رہتا ہے،اور حق کا کسی بھی پہلو سے تردید نہیں کرتا، اور نہ ہی کسی جھوٹ کی تصدیق کرتا ہے، اور نہ ہی کسی باطل چیز کی ترویج کرتا ہے، بلکہ یہ تمام ادیان پرنگراں ونگہبان ہے۔
یہ دین اچھے اعمال،مکارم اخلاق،اور بندوں کے مصالح ومفاد کے(خیال رکھنے کا) حکم دیتا ہے، اور خیرو بھلائی، رحمت و شفقت، اور عدل وانصاف کو قائم کرنے پر ابھارتا ہے، اور بغاوت، ظلم و زیادتی اور بُرے اخلاق سےمنع کرتا ہے۔
اور کمالِ خصلت کی جتنی بھی چیزیں نبیوں اور رسولوں نے ثابت کیں ہیں، وہ انہیں ثابت وتسلیم کرتا ہے، اورجتنی دینی اور دنیوی مفاد اور منافع ہیں ، جن کی طرف شریعت نے دعوت دی ہے اسکی ترغیب دیتا ہے، اور شریعت نے جن مفاسد سےروکا ہے ، وہ ان سے روکتا ہے اوراس سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔
مقصودیہ کہ: اس دین کے عقائد سے دلوں کی تزکیہ اور روحوں کی اصلاح ہوتی ہے، اور اسی سے مکارمِ اخلاق اور محاسنِ اعمال کو استحکام ومضبوطی حاصل ہوتی ہے۔
اور وہ یہ ہیں:1ـ نماز قائم کرنا۔ 2 زکوۃ دینا۔ 3ـ رمضان کا روزہ رکھنا۔ 4ـبیت اللہ الحرام کا(استطاعت ہونے پر) حج کرنا۔
دین اسلام کے ان عظیم شرائع،ان کے عظیم فوائد ومنافع،اورخوشنودیٔ الٰہی کی حصول میں واجب کرنے والی سعی وکوشش ،اور فوری وتاخیر طور پر اس کے ثواب سے کامیاب ہونے کے بارے میں غور کرو۔
اورنماز میں اخلاص الٰہی، مکمل توجہ و عنایت،حمد وثنا، دعا واستغفار اور خشوع وخضوع کے بارے میں غور کرو،اور یہ ایمانی درخت سےہے جو باغیچہ وگلستان کے لئے نگرانی وسیرابی کے درجے میں ہے۔
پس اگردن ورات میں نماز کی تکرار نہ ہوتی تو ایمانی درخت سوکھ جاتے، اور اس کے تنے مرجھاجاتے،مگر اس کی نشوونما اور تجدید عباداتِ نماز سے ہوتی رہتی ہے۔
اور نماز کے بارے میں غور وفکر کریں جو ذکرِ الہی پر مشتمل ہوتی ہے جو کہ ہر چیز سے بڑھ کر ہے،اوریہ فواحشات ومنکرات سے روکتی ہے ۔
اسی طرح زکوٰۃ کی حکمتوں اوراس کے اندر پائی جانے والی اخلاقی مکارم کے بارے میں غورفرمائیں ،جیسے:جود وسخا،برے اخلاق سے دوری، اللہ کی عطاکردہ انعامات پر شکر، حسّی اور معنوی خرابیوں سے مال کی حفاظت، مخلوق کے ساتھ احسان و بھلائی، محتاجوں سے ہمدردی وغمخواری، ضروری مصالح کی تکمیلوبھرپائی وغیرہ۔
کیونکہ زکوۃ کی ادائیگی سے محتاجوں اور پریشان حال لوگوں کی ضرورت کی تکمیل ہوتی ہے،اوراس سے جہاد اوران کُلّی مصالح میں مدد ملتی ہے جن سے مسلمان بے نیاز نہیں ہوسکتے،اوراس میں فقروفقراء کی ضرورت کو پورا کیا جاتا ہے،اوراس میں اللہ کی طرف سے نعم البدل ملنے کا بھروسہ پایاجاتا ہے،اوراس کے ثواب کی امید ہوتی ہے،اوراس کے وعدے کی تصدیق کی جاتی ہے۔
روزہ میں اللہ کی محبت کی خاطر اور اس کےتقرّبکو چاہتے ہوئے نفوس کو ان کی مرغوب وپسندیدہ چیزوں کے ترک کرنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے،اور نفوس کو پختہ عزیمت وصبر کا عادی بنایا جاتا ہے ۔
اور اس کے اندر اخلاصکے اسباب کو تقویت ملتی ہے، اور اللہ کی محبت کو نفس کی محبت پر فوقیت دی جاتی ہے، اسی لئے روزہ صرف اللہ کے لیے خاص ہے،اس نے روزہ کو تمام اعمال کے درمیان اپنے لئے خاص کررکھا ہے۔
حج میں اللہ کی رضا طلب کرنے،اللہ کا مہمان بننے، اور خانۂ کعبہ اور اس کے صحن میں اللہ سے عجزوانکساری کا اظہار کرنے،اور ان مشاعر(مقدّسہ) میں اللہ کی عبادات میں تنوّع اختیار کرنے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے اور اپنے گھر کی زیارت کرنے والوں کے لئے بطور دسترخوان بچھا رکھا ہے، مال کو خرچ کیا جاتا ہے،پریشانیاں برداشت کی جاتی ہیں،اور مشکلات وخطرات سے دو چار ہوا جاتا ہے۔اس میں اللہ کی تعظیم وتوقیر اور اس کے لئےکمال تواضع وانکساری پائی جاتی ہے،نبیوں ،رسولوں، مخلصین اور اصفیاء (چنیدہ وبرگزیدہ ہستیوں) کے احوال کو یا د کیا جاتا ہے،اوران کے ذریعہ ایمان کو تقویت دی جاتی ہے، اور ان سے محبّت قائم کرکے رشتہ کومضبوط کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس میں مسلمانوں کا آپس میں ایک دوسرے سے تعارف ہوتا ہے،اور ان کے کلمہ کو جمع کرنے کی کوشش پائی جاتی ہے،اور ان کے مابین بے شمار عام وخاص مفادات پر اتفاق ہوتا ہے،لہذا حج دین کے عظیم ترین محاسن میں سے ہے، اور اس کے ذریعہ مومنوں کو بہت بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔
اور یہ باتیں بوجہ تنبیہ اور اختصار کے ہیں۔
اور ہر معمولی عقل وشعور رکھنے والا شخص اس حکم کی منفعت، اور جو اس پر دینی و دنیوی مصالح اور مفادات مرتّب ہوتے ہیں ، اورجواس سے مفاسد ومضرّات دور ہوتے ہیں وہ اس کا علم رکھتا ہے۔
اور یہ بات بھی مخفی نہیں ہونی چاہئے کہ وہ معنوی قوّت وطاقت جو حق وصداقت پر مبنی ہے، یہ(اتحاد واتفاق )اس کی وہ اصل ہے جس پروہ گردش کرتی ہے۔اسی طرح آغازِاسلام میں مسلمانوں کے دینی استقامت،احوال کی درستی،اورایسی عزّت وبلندی پرفائزہونے کے بارے میں جانی گئی ہے جہاں تک ان کے علاوہ کسی کی رسائی نہ ہوسکی ،تویہ اس وجہ سے تھی کہ وہ لوگ اس اصل کو(مضبوطی سے) پکڑےہوئے تھے،اوراس کو مکمل طورسےقائم کئےہوئے تھے،اورپختہ یقین رکھتے تھے کہ یہی ان کے دین کی روح ہے۔
اس کی مزید وضاحت آنے والی مثال سے ہوتی ہے:
اس دین کی رحمت وشفقت،حسن معاملہ، نیکی اوربھلائی کی طرف بلانےاورتمام نقصان دہ چیزوں سے روکنے نے ہی اس کو ظلم و زیادتی،بدسلوکی،اورمقدسّات کی پامالی کی گھٹاٹوپ تاریکیوں کے درمیان نوروروشنی (بکھیرنے)والا بنادیا۔ یہی وہ دین ہے جس کی معرفت سے پہلے لوگ اس کے سخت دشمن تھے، لیکن کس طرح ان کے دلوں کو اپنے جانب موڑدیا،یہاں تک کہ اس کے گھنے دارسایہ میں آگئے۔ یہی وہ دین ہے جس نے اپنے ماننے والوں پرشفقت ومہربانی کی، یہاں تک کہ رحمت و شفقت،عفو و درگزر،احسان و بھلائی ان کے دلوں سے نکل کر ان کے اعمال واقوال میں ظاہر ہونے لگا،اوران کے دشمنوں تک تجاوز کرگیا،یہاں تک کہ وہ لوگ اسلام کے سب سے بڑے دوست وحامی بن گئے۔
ان میں سے کچھ لوگ نہایت بصیرت ، جوش وجذبہ اور دل سے اسلام میں داخل ہوئے،اوران میں سے کچھ لوگ اس کے تابع وفرمانبردارہوگئے، اوراسلام کے احکام و مسائل سے کافی دلچسپی لینے لگے، اور انہوں اس کے احکام کو اپنے دین کے احکام پر فوقیت دی، کیونکہ وہ عدل و انصاف اور رحمت وشفقت پر قائم ہے۔
اس اصل کی وضاحت اس بات سے ہوتی ہے کہ :
یہ جن اصولی اور فروعی احکام پر مشتمل ہے، اسے فطرتیں اور عقلیں قبول کرتی ہیں،اور سچائی ودرستی کے طور پر اس کی منقاد ہیں،نیز یہ(احکام) پختگی اور اور حُسن انتظام پر مشتمل ہیں ، اور ہر زمان و مکان کے لیے موزوں اور مناسب ہیں۔
چنانچہ اس کی تمام خبریں برحق اور صداقت پر مبنی ہیں۔ اوریہ محال ہے کہ کوئی بھی علم خواہ اس کا تعلق پہلے سے ہو یا بعد سے، اس کی مخالفت کرے،یا اس کی تکذیب کرے، بلکہ تمام برحق علوم اسکی مدد اور تائید کرتے ہیں، جو کہ اس کی صداقت اور حقانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
اورانصاف پسند محققین نے ثابت کیا ہے کہ ہرنفع بخشعلم چاہےاس کا تعلق دین سے ہو،یا دنیا سے ہو،یا سیاست سے ہو،تو قرآن اس پرایسی دلالت کرتا ہے جس کے اندر کوئی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔
لہذا شریعت اسلامیہ میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو عقل سے پرے(محال) ہو، بلکہ شریعت اسلامیہمیں جو کچھ بھی پائی جاتی ہیں روشن عقول اس کی صداقت اور سچائی، اور اس کے مفادو منفعت اور اصلاح و درستی کی گواہی دیتی ہیں۔
اسی طرح اس کے تمام اوامر اور نواہی عدل و انصاف پر مبنی ہیں، اس میں ذرہ برابر بھی ظلم و زیادتی کا کوئی شائبہ بھی نہیں موجود ہے، لہذا جن چیزوں کا حکم دیا گیا ہےاس میں خالص خیر و بھلائی ہی ہے ، یا ان میں بھلائی کا پہلو راجح ہے،اور جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے وہ سراپا شر ہیں، یا اسکے مفاسد اس کے مصالح سے زیادہ ہیں۔
اور عقلمند اور صحیح سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص جس قدر اس کے احکام پر غورو فکر کرتا ہے،تو اس اصل کے بارے میں اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے، نیز اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ یہ صرف اور صرف اللہ حکیم اور حمید کی طرف سے نازل کردہ ہے۔
بلاشبہ جہاد کا مقصد دینِ اسلام کے حقوق کے مطابق ظالموں کی سرکشی کو روکنا اور ان کی دعوت کو ٹھکرانا ہے۔اور یہ جہاد کے اقسام میں سب سے افضل ہے۔
جہاد میں نہ تو کوئی لالچ اور حرص پائی جاتی ہے اور نہ ہی کوئی نفسانی خواہش اور مقصد کا ر فرما ہوتی ہے۔
اور جو شخص اساصل کے دلیلوں،اور دشمنوں کے ساتھ آپﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کی سیرت پر غور کرے گا تو بلاشبہ اس بات کو جان لے گا کہ جہاد ضروریات میں اور ظالموں کے ظلم کا دفاع کرنے میں داخل ہے۔
اسی طرح اچھی باتوں کا حکم دینا، اور برائیوں اور منکرات سے روکنا، کیونکہ یہ دین اس وقت تکدرست نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس دین کے ماننے والے نہ درست ہوجائیں،اس طور سے کہ اس دین کے اصول وشرائع پر کار بند ہوجائیں،اور اس کے ان اوامر کو بجالائیں جو اصلاح ودرستی کی اصل ہیں،اور اس کے ان منہیات سے باز آجائیں جو سراپا شر وفساد ہیں۔
اور اس (دین )کے ماننے والےان امور کا اہتمام کر تےتھے، اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ان میں سے بعض کے لئے ان کے ظالم نفوس بعض محرّمات کے ارتکاب کی جسارت کرنے ،اور واجبات پر قدرت رکھنے کے باوجود ان کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے کو مزین کردیں۔
اور اس چیز کی (روک تھام یا اس پرکنٹرول) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو انجام دیئے بغیر ممکن نہیں۔
اسی لئے یہ دین اسلام کےعظیم ترین محاسن میں سے ہے،اور دین کے قیام کی عظیم ترین ضروریات میں سے ہے۔
اسی طرح اس کے ذریعہ ہی اس (دین) کے ماننے والے کج رو اشخاص کی سدھار اور ان کی تہذیب و اصلاح ،اور گھٹیا امور سے باز رکھنا،اورانہیں بلند امور پر ابھارنا ممکن ہے۔
جہاں تک رہی بات انہیں کھلی چھوٹ ومکمل آزادی دینے کی۔حالانکہ وہ لوگ اس (دین) کی پابندی کرتے ہیں،اور اس کے حکم کو مانتے ہیں ،اور اس کے شرائع پر کاربند ہیں،تو ایسا کرنا ان کے حق میں سب سے بڑا ظلم اور سب سے زیادہ ضرر رساں بات ہے، اور خاص طور سے وہ واجب حقوق جو شرعی ،عقلی اور عرفی طور پر مطلوب ہے۔
چنانچہ شریعتِ کاملہ اس نوع کو حلال کرنے اور بندوں کے لئے اس کی چھوٹ دینے آئی ہے،اس لئے کہ یہ ضروریات وحاجات اور کمالیات کے اندر پائی جانے والی مفادات پر مشتمل ہے،اور شریعت نے بندوں کے لئے اس قدر کشادگی رکھی ہے جس سے ان کے امور وحالات درست ہوسکیں،اور ان کی معیشتوں میں سدھار آجائے۔
اسی طرح شریعتِ (اسلامیہ) نے اِن چیزوں کو حلال کرنے کے لئے طرفین کی رضامندی، عقود کا علم پرمشتمل ہونے، معقود علیہ ،موضوع عقد اور اس پرمرتّب شروط کی معرفت رکھنےکی شرط لگائی ہے۔
اور جہالت ،سود اور جوا کے اقسام وغیرہ میں سے ہراس چیز سے منع کیا ہے جس میں کسی نقصان اور ظلم کا پہلو پایا جائے۔
لہذا جو شخص شرعی معاملات پر غورو فکر کرے گا تو وہ اسے دین ودنیا کی صلاح وبہتری سے مرتبط پائے گا، اوروہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ اوروسعت رحمت کی گواہی دے گا،کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے کمائی،کھانے،پینے،اورمنظم ومحکم منافع کے راستوں میں سے تمام پاکیزہ چیزوں کو مباح قراردیا ہے۔
چنانچہ شریعت نے غلّوں اور پھلوں کے اقسام میں سے،مطلق بحری جانوروں کے گوشتوں اور بری جانوروں میں سے ہر پاکیزہ اور فائدےمند چیزکو مباح قراردیا ہے۔اور ان میں سے صرف انہی چیزوں کو منع کیا ہے جو خبیث وبیہودہ ہیں اور دین،یا عقل ،یا جسم،یامال کے اعتبار سے نقصان دہ ہیں۔
اور جن جن چیزوں کو مباح قرار دیا ہے، تو یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے، اور یہ دین اسلام کے محاسن میںسےہے۔
اور جن چیزوں سے منع کیا ہے ، اس میں بھی اس کا احسان ہے، کیونکہ بندوں کو انہیں چیزوں سے منع کیا ہے جو ان کے حق میں نقصان دہ ہیں،اور یہ دین اسلام کے محاسن میں سے ہے، کیونکہ حسن و اچھائی حکمت اور مصلحت کے تابع ہے، اور تکلیف دہ چیزوں کا خیال رکھنے والی ہے۔
اسی طرح شریعت اسلامیہ نے جن نکاحوں کو مباح قرار دیا ہے،اور ان میں سے انسان کو جو عورت بھی پسند آئے ، تو وہ ان میں سے دو، تین، اور چار عورتوں تک شادی کرسکتا ہے، تواس میں طرفین (میاں بیوی) کی مصلحت کا خیال رکھا گیا ہے،اور ان دونوں کی طرف سے نقصان کا دفاع کیا گیا ہے۔
لیکن انسان کو چار آزادعورتوں سے زیادہ کو (ایک ساتھ)نکاح میں جمع کرنے سے منع کیا ہے، کیونکہ اس پرظلم مترتب ہوتا ہے،اور عدل کا دامن چھوڑدیا جاتا ہے۔ مزید برآں شریعتِ اسلامیہ نے اس بات پرابھارا ہے کہ اگر(بیویوں پر)ظلم و زیادتی کرنے کا خدشہ ہو،اور حقِ زوجیت کے بارے میں اللہ کے حدود کو قائم کرنے کی طاقت نہ ہو تو ایسی صورت میں ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا بہتر ہے، تاکہ نکاح کے مقاصد کا حصول ہوسکے۔اورجس طرح شادی بڑی نعمتوںاور ضروریات میں سے ہے،اسی طرح طلاق کا جائز کرنا بھی ہےاور یہ ایسی صورت میں ہے جب انسان کا اپنی شریکِ حیات کے ساتھ زندگی گزارنا دشوار ہوجائے،اوران دونوں کے درمیان موافقت وملائمت کا جذبہ ختم ہوجائے،اورشوہربیوی کےساتھ سخت تنگی وبے چینی کے ساتھ رہنے پر مجبور ہو۔
(ارشاد باری تعالیٰ ہے:) ''اور اگر میاں بیوی جدا ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنی وسعت سے ہر ایک کو بے نیاز کر دے گا۔''[سورہ نساء: 130]
جیسے وہ حقوق جنہیں اللہ تعالیٰ نے والدین،اولاد، رشتہ داروں، پڑوسیوں، ساتھیوں اور دوستوں اور دومعاملہ کرنے والوں اور زوجین (شوہر وبیوی) کے لیے واجب اور مشروع کیا ہے ۔
اور یہ تمام کے تمام حقوق ضروریات اور کمالیات میں سے ہیں،زود فہم عقلیں اور فطرت جنہیں اچھا سمجھتی ہیں،اوران کے ذریعہ مخالطت کی تکمیل ہوتی ہے،اور صاحب حق کی حالت اور اس کے مرتبہ کے مطابق ان میں مصالح ومفاد کا تبادلہ ہوتا ہے۔
جب بھی تو اس میں غور وفکر کرے گا تو تجھے اس میں خیر کا پہلو،اور شر کا خاتمہ نظر آئے گا،اور اس میں عمومی وخصوصی فوائد،الفت ومحبت،انسیت اور کامل معاشرت پائے گا جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شریعت سعادتِ دارین(دنیا وآخرت) کی ضامن وکفیل ہے۔
اسی طرح تو دیکھے گا کہ یہ حقوق زمان ومکان اور حالات وظروف اور عُرف کے مطابق جاری وساری ہیں، مصالح کو حاصل کرنے والی ہیں،ان میں دین ودنیا کے امور پر مکمل تعاو ن حاصل ہے،جاذب قلب ہیں،اور بغض وکینہ کو دور کرنے والی ہیں۔
ان باتوں کو ان کے مصادر وموارد میں تتبع واستقراء کے ذریعہ جانا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰٰ نے اس ترکہ اور میراث کو تقسیم کرنے کی حکمت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
''تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہچانے میں زیاده قریب ہے''۔سورہ نساء: 11
چنانچہ اللہ تعالیٰٰ نے اس عظیم فریضہ (کے ترتیب ) کی ذمہ داری بذات خود لے رکھی ہے، کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ نفع پہنچانےکے اعتبار سے سب سے زیادہ قریب کون ہیں اور عام طور پر بندہ کس کی طرف مال کو منتقل کرنا پسند کرتا ہے،اوراس کے فضل وبھلائی کی کیا چیز زیادہ مستحق ہے،اللہ نے ان چیزوں کی ایسی ترتیب دی ہے جس کے بہتری کی عقل صحیح گواہی دیتی ہے،اور اگر ان چیزوں کی ترتیب کا معاملہ لوگوں کی آراء ،خواہشات اور ان کے ارادوں کے حوالے کردیا جاتا تو اس کے سبب کافی بگاڑ وگڑبڑی،بد نظمی،بد اختیاری پیدا ہوتی جو انارکی ولاقانونیت کے مشابہ ہوتی۔
شریعتِ اسلامیہ نے بندوں کو یہ اختیار دیا ہے،کہ وہ نیکی اور تقوی کی جگہوں میں اپنے مال کے کچھ حصّہ کی آخرت میں نفع پہنچانے والے امور میں وصیّت کرسکتے ہیں،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ مال تہائی یا اس سے کم ہو،اورغیر وارث کے لئے ہو،تاکہ وہ امورجس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے،کھلواڑ نہ بن جائے جس سے دین کی کم فہم اور معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے ان کے دنیا سے منتقل ہوتے وقت کھیلتے پھریں۔
جہاں تک رہی بات جسم وعقل کی صحت کی ،اور وہ فقر وافلاس سے خوفزدہ ہو تو ایسی صورت میں اس کا ان چیزوں میں مال صرف کرنا منع ہے جو عمومی طور سے اسے نفع پہنچاتے ہیں۔
اوریہ اس لئے کیونکہ جرائم کا ارتکاب،اوراللہ کے حقوق اوراس کے بندوں کے حقوق پر زیادتی کرنا ایسا بڑا ظلم ہے جس سے پورا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے،اوراس سے دین اوردنیا میں بگاڑ پیدا ہوجاتی ہے۔
اسی لیے شارع حکیم نے جرائم وبدامنی کے سد باب کے لیےچند ایسےحدود بنائے ہیں، جو اس کے وقوع پذیر ہونے سے روکتی ہیں ،اور اس میں تخفیف پیدا کرتی ہیں ،جیسے قتل کرنا،ہاتھ کاٹنا،کوڑا لگانا اور دیگر تعزیرات کی قسمیں۔
اوران میں سے ہرایک حدود میں عام و خاص مفاد اورمصالح مو جود ہیں،جس کے ذریعہ عقل مند شخص شریعت کے حُسن کوجانتا ہے۔اوران برائیوں کا کامل طور سے مقابلہ اوردفاع کرنا صرف ان شرعی حدود کے ذریعہ ہی ممکن ہے جن کو شریعت نے جرائم کی قلت و کثرت اورشدّت وضُعف کے مطابق مرتّب کیا ہے۔
جیسے: مجنوں، پاگل، نابالغ، بیوقوف وغیرہ کو مال خرچ کرنے پر پابندی لگائی ہے، اور اسی طرح قرضدار پر مال میں تصرّف کرنے پر پابندی عائد کی ہے اس کے قرض خواہوں کی مصلحت کا خیال کرتے ہوئے۔
اوریہ تمام چیزیں دین اسلام کے محاسن اور خوبیوں میں سے ہیں، کیونکہ اس نے انسان کو اپنے اس مال میں تصرّف کرنے سے منع کیا ہے،جس کے اندراصل میں اس کو تصرّف کرنے کی آزادی تھی، لیکن جب اس کا اپنے مال میں تصرف کرنے کا نقصان اس کے فائدہ سے زیادہ ہوگیا،اوراس کا شراس کے بھلائی سے بڑھ گیا،تو ایسی صورت میں شارع نےاس پرپابندی عائد کردی کہ وہ مصالح کے میدان میں اپنے مال کوخرچ کرے، اوربندوں کواس بات کی رہنمائ فرمائی کہ وہ ہر فائدہ مند چیز میں مال کو خرچ کرنے کی کوشس کریں۔
شہادت اور گواہی جس کے ذریعہ پورے طور سے حقوق کو وصول کیا جائے، اور انکار اور تکذیب کا تیاپاچہ ہو، اور شکوک وشبہات کا ازالہ ہو۔ اورجیسے: گروی، ضمانت اور کفالت،جب حق چکانے والے سےپوراحق وصول کرنا مشکل ہوجائےتو حقدار شخص اس دستاویز کی طرف رجوع کرے گا جس کے ذریعہ پورا حق وصول کیا جاتا ہے۔
اوربلاشبہ دستاویزوں کے جو مختلف فوائد ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہے جیسے: حقوق کی حفاظت اور پاسداری، معاملات کی کشادگی، اور عدل و انصاف کی بالادستی، حالات کی درستی اور معاملات کی ثبات قدمی وغیرہ۔
اگر دستاویز کا نظام نہ ہوتا تو معاملات(لین دین) کا بہت بڑا حصہ بیکار ہوجاتا،کیونکہ یہ دستاویز کا نظام عہد و پیمان کرنے والے دونوں فریقوں (صاحبِ حق اور متوثق) کے لیے متعدد وجوہات سے فائدہ مند اور معروف ہیں۔
( چودہویں مثال) شریعتِ اسلامیہ نے حُسن سلوک اور احسان کرنے پر(کافی) ابھارا ہے، کیونکہ ایسا شخص اللہ کے نزدیک اجروثواب سے نوازاجاتا ہے،اور بندوں کے نزدیک اس کی ایک اچھی شناخت بن جاتی ہے،اور اس کا مال بعینہ یا اس کا بدل اس کی طرف واپس لوٹ جاتا ہے، لہذا اس نوع کی کمائی عظیم ترین کمائیوں میں سے مانی جاتی ہے جس میں اس کے کرنے والے کو کوئی تکلیف لاحق نہیں ہوتی ہے۔ جیسے: قرض،ادھار،وغیرہ۔
کیونکہ اس میں اس قدرمصالح اور مفاد ہیں جس کو شمار نہیں کیا جاسکتا ہے، جیسے: ضرورت مند لوگوں کی ضروتوں کی تکمیل، پریشان اور مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبت اور پریشانی سے نجات، اور ساتھ ہی ساتھ خیر و برکت کاحصول،نیز قرض دینے والے کو اس کے مال کی واپسی، مزید اس کے بدلے میں اس کے رب سے بہت زیادہ ثواب کا حصول۔ اور اپنے بھائی کے نزدیک اس کا ذکر جمیل،انشراحِ صدر، اور الفت و محبت کا حاصل ہونا وغیرہ۔۔
جہاں تک رہی بات اس شخص کہ جو محض احسان جتلانے کے لیے اپنے کسی ساتھی کو مفت میں کچھ دیتا ہے، تواس کوکچھ نہیں واپس ملتا ہے۔اس کی حکمت کا اشارہ زکوٰۃ اورصدقہ کے باب میں گزر چکا ہے۔
کیونکہ یہ ایسے اصول ہیں جوعرفِ عام اورفطرت کے موافق وہم آہنگ ہیں اورعدل وانصاف اور دلیل وبرہان پر مبنی ہیں۔
لہذا ہروہ شخص جو کسی چیز یا حقوق میں سے کسی حق کے بارے میں دعویٰ کرتا ہے تو اس کے لئے دلیل کو پیش کرنا ضروری ہے،پس جب وہ ایسی دلیل پیش کرے جس سے اس کے موقف کو ترجیح وتقویت حاصل ہو،تو اس کے لئےاس کا دعویٰ کیا ہوا حق ثابت ہوگا،اورجب مدعی بغیر دلیل کے صرف دعویٰ پیش کرے گا تو مدعی علیہ سے اس دعویٰ کی نفی کے بارے میں قسم دلایا جائے گا،اور مدعی کو اس سے کوئی حق نہیں ملے گا۔
اور شارع نے چیزوں کے مراتب کے حساب سے دلیلوں اور حجتوں کو مشروع کیا ہے۔اور واضح قرائن اور لوگوں کے مابین رائج عُرف عام کو دلیلوں میں سے بنایا ہے۔
حُجّت: نام ہے ہر اس چیز کا جو حق کی وضاحت کرے اوراس پر دلالت کرے۔اور (معاملہ) مشتبہ ہونےاورفریقین کے(دلائل) مساوی ہونے کی صورت میں انصاف پر مبنی اورہر قضیہ کے لئے مناسب طریقۂ صلح کو ، مشکلات واختلافات کے حل کا راستہ قراردیا ہے۔
لہذا ہر وہ طریقہ جو ظلم سے خالی ہو اور بندوں کے حق میں نفع بخش ہو اور اس میں بندے اللہ کی معصیت کے مرتکب نہ ہوں اور وہ اختلافات اورجھگڑوں کے ختم کرنےاورمٹانے کا ذریعہ بنے تو شارع نے اس پر ابھارا ہے۔
اور اس سلسلہ میں طاقت ور اور کمزور،حاکم و رعایا کے درمیان تمام حقوق میں مساوات قائم کیا ہے۔اور عدل کے راستوں کو اپناکر ،اور ظلم سے دور رہ کر مخالفین کو راضی وخوش کیا ہے۔
اور یہ اتنی عظیم اصل ہے کہ تمام دانشمندوں نے اس کو مستحسن اور اچھا قرار دیا ہے،اور یہ کہ یہی عدل وانصاف کے راستہ پر چلنے، اصابت رائےاور مقاصد کے حصول اور حالات کی اصلاح کا بہترین واحد ذریعہ اور سبب ہے۔ اور یہ ان قوموں کی بلندی کا ذریعہ ہے جو خیر وبھلائی کےطلب میں اس پر عمل پیرا ہیں۔
اور جس قدر لوگوں کی معرفت اور ادراک میں اضافہ ہوگا، اوران کے افکار و خیالات وسیع ہوں گے،تو لوگ اس کی شدتِ ضرورت اور اس کی قدرو منزلت سے واقف ہو جائیں گے۔
جب آغازِ اسلام میں مسلمانوں نے اس اصل کو اپنے دینی اور دنیاوی معاملات میں نافذ کیا،تو ان کے سارے معاملات درست ہو گئے، اور ان کے حالات میں دن بدن ترقی اور بڑھوتری آتی گئی،لیکن جب انہوں نے اس اصل سے انحراف کیا تو مسلسل دینی اور دنیاوی انحطاط وزوال سے دوچار ہیں، یہاں تک کہ ان کی حالت اس حدتک پہنچ گئی جسے آج ہم اپنی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔
پس اگروہ اس اصل وغیرہ میں اپنے دین کی طرف لوٹ آئیں تو وہ کامیاب ہوجائیں گے،اور کامیابی وکامرانی ان کی قدم بوس ہوگی۔
(سترہویں مثال) شریعتِ اسلامیہ دین اور دنیا کی اصلاح کرنے،اور جسم وروح کی مصلحت کے مابین جمع کرنے کے لئے آئی ہے،قرآنِ کریم اور سنتِ نبوی میں اس اصل کے بارے میں بہت ساری (دلیلیں) موجود ہیں، اور اللہ تعالیٰٰ اور اس کے رسول ﷺنے ان دونوں چیزوں کے قیام پر کافی ابھاراہے، اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے ممدّ اور معاون ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو اپنی عبادت اور اس کے حقوق کو انجام دینے کے لیے پیدا کیا ہے، اور ان پر رزق کی بارش فرمائی ہے، اور ان کے لیے اسبابِ رزق اور طرزِ معیشت کی متعدد صورتیں بنائی ہے،تاکہ اس کے ذریعہ اللہ کی عبادت میں مدد حاصل کریں،اور یہ(عبادت) ان کے داخلی وخارجی امور میں نگراں ہو۔
اور اس ذات باری تعالیٰ نے جسم کو چھوڑ کرصرف روح کی پرورش کا حکم نہیں دیا ہے۔ اسی طرح اس نے خواہشات اور لذّات میں منہمک ہونے سے منع کیا ہے، اور روح اوردل کو تقویت پہنچانے کا حکم دیا ہے۔
اوراس کی وضاحت ایک دوسرے اصل میں ہوگی۔اور وہ یہ ہے:
چنانچہ علم اور دین سے حکومتیں درست ہوتی ہیں،اور اسی پر اختیارات واحکام مبنی ہوتے ہیں۔اور تمام حکومتیں علم اور اس دین سے مقیّد ہوتی ہیں جو حکمت ہے،اور وہی صراط مستقیم ہے،اور وہی صلاح اور کامیابی وکامرانی ہے، لہذا جب دین اور حکومت آپس میں ایک دوسرے سے متصل اور باہم مدگار ہوں گے تو تمام امور کی اصلاح ہوگی، اور حالات درست اور صحیح ہوں گے۔ اور جب ان میں سے ایک، دوسرے سے الگ ہو گا تو پورا نظام درہم برہم ہوجائے گا، اورصلح و آشتی اور اصلاح کا خاتمہ ہو جائے گا،اوراختلافات رونما ہوں گے،دلوں میں دوریاں پیدا ہوں گی،اور لوگوں کے معاملہ میں زوال آنا شروع ہو جائے گا۔
اس کی تائید اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ: جب بھی علوم وفنون کی وسعت ہوئی، معارف متعدد ہوئیں، اور ایجادات اور اختراعات کی کثرت وعظمت ہوئی، تو ان میں سے کوئی ایسی چیز رونما نہیں ہوئی، جو قرآن کی دلالت کے منافی اور اسلامی شریعت کے مخالف ومعارض ہو۔
چنانچہ شریعت کوئی ایسی چیز نہیں لاتی جوعقلاً محال ہو،بلکہ ایسی چیزلاتی ہے جس کے حُسن کی عقل سلیم گواہی دیتی ہے،یاایسی چیز نہیں لاتی جس کی اجمالی وتفصیلی معرفت عقل کو نہیں ہوپاتی۔
اور مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دوسری مثال میں اس موضوع کی وضاحت کی جائے۔
اور یہ سب سے بڑی دلیلوں میں سے ایک ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ ہے وہ محکم اور ثابت ہے،اور ہرزمان و مکان کے لیے موزوں ومناسب ہے۔
ان مختصر باتوں کی تفصیلی معرفت تمام کائناتی حادثات،اور معاشرتی علوم کے حادثات کی تتبعاوراستقراءکے ذریعے ہوتی ہے۔اور اس کی عملی شکل یہ ہے کہ جب یہ استقراء وتتبع صحیح حقائق پر ہوگی تو شریعت کے مطابق ہوگی،اور اس (استقراء )سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ شرع تمام چیزوں کی وضاحت کرتی ہے،اوریہ چھوٹے بڑے گناہ میں سے کسی کو نہیں چھوڑتی مگراسے شمار کرلیتی ہے۔
اور یہ اس لئے کہ جو شخص اس دین کے منبعِ صافی پر غور کرے گا،اوریہ کہ کس طرح جزیرۂ عرب کے لوگوں کو ان کے دل جدا ہونے،اور ان کے درمیان شدید بغض وحسد،اور عداوت ودشمنی ہونے کےباوجود اسلام نے انہیں آپس میں جوڑدیا،اور ان کے دور اور قریب اشخاص کو جمع کردیا ،اور ان کی عداوتوں کا خاتمہ کرکے ان کی جگہ ایمانی بھائی چارہ کو قائم کردیا۔
پھر وہ بڑی سرعت و رفتار سے زمین کے مختلف گوشوں اور اقطار میں نکل پڑے، اور ملک پے ملک فتح کرتے چلے گئے، اور ان ملکوں میں سب سے پہلے انہوں نے روم اور فارس کی قوم پر اپنی فتح کا پرچم لہرایا،جو کہ اپنے وقت کی سب سے طاقتور قومیں تھیں،سب سے عظیم بادشاہت کی مالک،اور سب سے زیادہ قوّت وتعدادوالی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے دین کی فضیلت ، اور اپنے ایمانی قوت ،اور اللہ کی مدد و معاونت کے سبب ان دونوں قوموں اور ان کےما سوا پر فتح وکامرانی حاصل کیا،یہاں تک کہ اسلام روئے زمین کی مشرق ومغرب تک پہنچ گیا۔
لہذا اس کو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں، اور اس کے دین کی براہین، اور اس کے نبی کے معجزات میں شمار کیا جانے لگا، اور اسی سبب مخلوق اسلام کے اندر بغیر کسی ظلم ومجبوری کے، بصیرت وطمانینت سے فوج درفوج داخل ہوگئیں۔
چنانچہ جو شخص اس امر کے بارے میں سرسری نظر ڈالے گا، تو اس بات کو جان لے گا کہ یہی وہ حق ہے جس کے سامنے باطل کبھی ٹک نہ سکا، چاہے اس کی قوّت وسطوت کتنی ہی عظیم کیوں نہ رہی ہو۔
اور یہ چیز معمولی عقل رکھنے والا جانتا ہے،اور اس کے بارے میں کوئی بھی انصاف پرور شک نہیں کرسکتا، اور اس کا شمار ضروریات میں سے ہوتاہے۔ برخلاف موجودہ دور کے کچھ انشاء پرداز قائلین کے کہ جنہیں فکری عاجزی نے دشمنانِ اسلام کی حمایت کرنے پر آمادہ کیا ہے،جو یہ گمان کر بیٹھے ہیں کہ اسلام کا انتشار اور اس کی خارقِ عادت فتوحات صرف مادّی امور پر مبنی ہے،یہ تجزیہ انہوں نے اپنے باطل گمان سے کیا ہے۔
اور یہ تجزیہ کسریٰ ورومان کی حکومت کی کمزوری ،اور عرب میں مادّی قوّت کے ظہور کی طرف لوٹتا ہے۔لیکن محض اس طرح کا تصوّر کرنا ہی اس کے باطل ہونے کے لئے کافی ہے۔
(بھلا بتلائیے)عرب میں اس وقت کون سی طاقت تھی جو اسےاس وقت کی ادنیٰ سے ادنیٰحکومت کے خلاف بر سرِ پیکار ہونے کی اہلیت بناتی؟ چہ جائے کہ ضخیم وبڑی حکومتوں سے،اور چہ جائیکہ اس وقت کی مطلق طور پر سب سے بڑی قوم،سب سے طاقتور ،اور ایک ہی وقت میں تعداد وسامان کے اعتبار سے سب سے عظیم تھیں۔لیکن ان تمام تر امتیازات کے باوجود عربوں کی حقیر سی تعداد نے مکمل طور سے انہیں مسل کر رکھ دیا اور ٹکڑے ٹکڑے کردیا، اور ان جابر و ظالم بادشاہوں کے ظلم و جور پر مبنی احکام کی جگہ قرآنِ کریم اور دین کے عدل و انصاف پر مبنی احکام کو قائم کردیا،جس کو تمام انصاف پر ور اور حق کے شیدائیوں نےقبول وتسلیم کیا۔
تو کیا ایسی تاریخی فتح جو پورے عالم میں منتشر ووسیع ہو،اس کو عربوں کے محض مادّی امور میں غلبہ وبرتریسے تفسیر کرنا ممکن ہے؟اس طرح کی باتیں وہی شخص کرتا ہے جو دینِ اسلام پرطعن و تشنیع کرنا چاہتا ہے، یا جن پردشمنوں کی باتیں حقائق کی معرفت حاصل کئے بغیرگھر کر گئی ہوں۔
پھراس دین کا مسلسل مصائب وآلام سے دوچار ہونے،اس کو مٹانے اوراسے مکمل طور سے باطل قراردینے کیلئے دشمنوں کے ٹوٹ پڑنے کے باوجود باقی رہنا،یہ اس دین کا معجزہ ہے، اوریہی اللہ تعالیٰ کا سچا دین ہے۔ پس اگر اس کی مدد ایسی طاقت کرتی جو اس سےدشمنوں کی دشمنی، اور سرکشوں کی زیادتی سے روکنے کے لئے کافی ہوتی، تو اس روئے زمین پراسلام کے سوا کوئی دین باقی نہیں رہتا،اور مخلوقات اس کو بغیرکسی جبر واکراہ کے قبول کرتی؛ کیونکہ یہی برحق دین ،دینِ فطرت، صلح وآشتی اور خیرخواہی کا دین ہے۔ لیکن اس کے ماننے والوں کی کوتاہی وکمزوری، ان کے اختلاف و انتشار، اوران پر دشمنوں کے دباؤ وغیرہ نے ہی اسلام کی رفتار کو روک دیا ہے۔ فلا حول ولا قوۃ الا باللہ۔
(اکیسویں مثال) ''جو تمام سابقہ مثالوں کی جامع ہےیعنی دین اسلام شامل وکامل دین ہے''دین اسلام نفع بخش صحیح عقائد، عقلوں اور روحوں کو مہذب بنانے والے کریمانہ اخلاق، احوال وکوائف کی اصلاح اور سدھار کرنے والے اعمال، اصول و فروع پر مبنی دلائل و براہین، بت پرستی کو دور پھینکنےاور مخلوقاتِ مرد و زن سے تعلّقات ووابستگی کو ترک کرنے، اللہ رب العالمین کے لیے دین کو خالص کرنے، عقل وحس کے منافی اور فکر کو حیرت میں ڈالنے والی خرافات وفرضی کہانیوں سےکنارہ کشی اختیار کرنے، مطلق اصلاح ودرستی، ہر طرح کے شر وفساد کو ختم کرنے، عدل وانصاف کو قائم کرنے، ظلم و جور کے تمام طریقوں کا خاتمہ کرنے، اور کمالات کے تما م اقسام کی ترقی کی جانب ابھارنے پر مبنی ہے۔
ان باتوں کی تفصیل بہت لمبی ہے،اور ہر وہ شخص جس کو (دین کی ادنیٰ سی ) معرفت حاصل ہے وہ ان کی تفصیلات کو بغیر کسی اشکال کے واضح طور پر جان سکتا ہے۔
ہم اختصا ر کے ساتھ انہی چند باتوں پر اکتفا کرتے ہیں، کیونکہ یہ ایسے اصول وقواعد اورضابطوں پر مشتمل ہیں، جن سے اسلام کی عظمت و کمال اورہرچیز کےحقیقی اصلاح اور درستی کا علم ہو تا ہے۔
اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے۔
جمادی الاولیٰ سن1364ھ کے آغاز میں اس کتاب پر تبصرہ مکمل ہوا۔
اوراللہ کی رحمت وسلامتی نازل ہو محمد پراور آپ کے خاندان پر۔