Description
اولاد کی تربیت صالح ہوتو ایک نعمت ہے وگرنہ یہ ایک فتنہ اور وبال بن جاتی ہے ۔ دین وشریعت میں اولاد کی تربیت ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔ان کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے اورانکو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور خیانت ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے ۔ ان کی امانت کوادا کیا جائے ، ان کوآزاد چھوڑنے اوران کےحقوق میں کتاہیوں سے بچا جائے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے ۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے ۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے ۔اپنی اولاد کی تربیت کے معاملہ میں سردمہری کامظاہرہ کرنے والوں کو کل قیامت کے روز جوکربناک صورت حال پیش آسکتی ہے۔ اس سے اہل ایمان کومحفوظ رکھنےکےلیے اللہ تعالیٰ نے پہلے سےآگاہ کردیا ہے۔ تاکہ وہ اپنی فکر کےساتھ ساتھ اپنے اہل عیال اوراپنی آل اولاد کوعذاب الٰہی میں گرفتار ہونے اور دوزخ کا ایندھن بننے سے بچانے کی بھی فکرکریں۔ زیر تبصرہ کتاب’’تربیت اطفال کے اسلامی اصول ‘‘سعودی عرب کے معروف عالم دین شیخ محمد بن جمیل زینو ﷾ کاتربیت اولاد کے موضوع پر ایک عربی رسالے ’’کیف نربی اولانا‘‘ کا ترجمہ ہے۔اس کتابچہ میں شیخ موصوف نے تقریباً ان تمام باتوں کا احاطہ کر نےکی کوشش کی ہے جن سے معلوم ہوسکے کہ مسلمان بچوں کی تربیت کےلیے کون سے امور ضروری ہیں اوران کی مکمل تہذیب کے لیے کن باتوں سے پرہیز لازم ہے۔یہ کتاب اپنےبچوں کے مستقبل کوسنوارنے او راسلامی منہج پر صحیح تربیت کرنےکے لیےبہترین کتاب ہے۔نوٹ:واضح رہے کہ یہی کتاب دارالسلام لاہورسے بھی ’’ تربیت اولاد‘‘ کےنام سے چھپ چکی ہے۔
دیگر ترجمے 2
[الأُردية –اُردو Urdu–]
-شیخ ؍محمد بن جمیل زینو- رحمۃاللہ علیہ
ترجمہ: حافظ خالد حیات محمود-حفظہ اللہ-
مراجعہ :شفیق الرّحمن ضیاء اللہ مدنی
ناشر:دفترتعاون برائے دعوت وارشاد،ربوہ،ریاض
مملکتِ سعودی عرب
حدیث نبوی ہے :
’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل وانصا ف سے کام لو‘‘۔(متفق علیہ)
· میں یہ کتابچہ ایسے والدین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جو اپنے بچوں کو سعادت مند بنانا چاہتے ہیں۔
· ایسے اساتذہ ومعلّمات کے نام ہدیہ کرتا ہوں جو اپنے شاگردوں کے لئے بہترین نمونہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
· ایسے طلباء وطالبات کے لئے خاص کرتا ہوں جو کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہتے ہیں۔
· یہ کتابچہ والدین اور ان کے بچوں میں سے ہرایک کی خدمت میں اس خواہش کے ساتھ پیش کرتا ہوں کہ اللہ رب العزّت میری اس حقیر سی کاوش کو اپنی رضا کا ذریعہ بنائے اور پڑھنے والوں کو اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے،آمین۔
محمد بن جمیل زینو
دار الحدیث الخیریہ،مکّہ مکرّمہ
بسم اللہ الرّحمن الرحیم
اسلام نے تربیت اولاد کےسلسلے میں جو زرّیں اصول وضوابط پیش کئے ہیں اور والدین کو کتاب وسنت میں اسلامی تربیت کے سلسلے میں جورہنمائی پیش کی گئی ہے وہ کسی بھی مذہب میں موجود نہیں ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہم ان اسلامی اصول وضوابط،اور ارشادات کو تربیتِ اولاد کے سلسلے میں اپنانے میں کہاں تک کامیاب ہیں اور کہاں تک ناکام ہیں۔
پیش نظررسالہ ’’کیف نربّي أولادنا‘‘ عالم اسلام کی مشہور علمی شخصیت شیخ محمد بن جمیل زینوؒ کی تالیف لطیف ہے جس میں تربیتِ اولاد کے سلسلے میں صحیح اسلامی خطوط کو پیش کیا گیا ہے، کتاب کی اہمیت کےپیش نظر اس کے متعدد تراجم ہوچکے ہیں،لیکن زیر نظرترجمہ حافظ خالد حیات محمود۔ حفظہ اللہ۔ کا ہے جنہوں نے اسے سلیس وآسان اُرود قالَب میں ڈھالا ہے۔
جامعہ تعلیم القرآن والحدیث للبنات، گلشن آباد،گوجرانوالہ کے ناظم محمد صدیق کھوکھر حفظہ اللہ نے اس کتاب کو چند سال پہلے نشر کیا تھا،لیکن کتاب میں آیاتِ قرآنی کا مکمل حوالہ نہیں تھا،اسی طرح بعض املائی اور طباعتی غلطیاں تھیں،جس کی وجہ سے قارئین کو مطالعہ میں کافی مشقّت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اور چونکہ تربیتِ اولاد کے سلسلہ میں نہایت ہی اہم کتاب ہے،اور موجودہ دور میں اولاد کی بے راہ روی اور دین سے بیزاری عام ہے،لہذا بچوں کی دینی تربیت اور ان کو صحیح اسلامی خطوط پر لانے کے لئے اسلام ہاؤس ڈاٹ کام کے شعبۂ ترجمہ وتالیف نےاردو ترجمہ کا مراجعہ وتصحیح کرکے دوبارہ بہترین زیورِ طباعت سے آراستہ کرکے ہدیہ قارئین کیا ہے۔
ربّ کریم سے دعا ہے کہ اس کتاب کو لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنائے،اس کے نفع کو عام کرے،والدین اور جملہ اساتذۂ کرام کے لئے مغفر ت وسامانِ آخرت بنائے،اورکتاب کے مولّف،مترجم،مراجع،ناشر،اور تمام معاونین کی خدمات کو قبول کرکے ان سب کے حق میں صدقۂ جاریہ بنائے۔آمین۔
وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم۔
بسم اللہ الرّحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصّلوۃ والسلام علی سیّد الانبیاء والمرسلین سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین،وبعد!
چونکہ نیک اولاد کسی بھی انسان کے لئے بیش بہا قیمتی سرمایہ اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے گراں قدر عطیّہ ہوتا ہے، اس لئے والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جہاں اپنے بچوں کی بہتر نشوونما کے لئے صحیح نگہداشت وپرورش کا سوچتے ہیں وہیں ان کو چاہئے کہ وہ بچوں کی درست خطوط پر تعلیم وتربیت کے سلسلہ میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کریں ،کیونکہ اگرآج ان پیارے اور لاڈلے بچوں کو پاکیزہ اخلاق اور نیک خصال سے آراستہ کردیا جائے گا تویقیناً آج کی یہ معصوم کلیاں مستقبل میں گلستانِ حیات کی خوبصورتی اور اس کی رونق کو دوبالا کرنے کا باعث ہوں گی، اور اگر خدانخواستہ اپنے عیش کی دنیا کی فکر میں بدمست ہوکر ان کی تربیت کا معاملہ لااُبالی پن کی نذر ہوگیا تو آنے والادن یقیناًوالدین کے لئے بڑا اذیّت ناک اور سوہانِ روح ہوگا۔
اپنی اولاد کی تربیت کے معاملہ میں سردمہری کا مظاہرہ کرنے والوں کو کل قیامت کے روز جو کربناک صورت حال پیش آسکتی ہے اس سے اہل ایمان کو محفوظ رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے سے آگا ہ کردیا ہے تاکہ وہ اپنی فکر کے ساتھ ساتھ اپنے اہل وعیال اور اپنی آل اولاد کو عذاب الہی میں گرفتا ر ہونے اور دوزخ کا ایندھن بننے سے بچانے کی بھی فکر کرسکیں،ارشاد باری ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ﴾[التحريم:6]
’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر ‘‘[سورہ تحریم:۶]
اور اہل ایمان کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کے بارے میں ایک لمحہ کے لئے بھی کسی طور پر غفلت کا شکار نہیں ہوتے ،بلکہ وہ ہمیشہ اپنے متعلقین کی آخرت کی فکر میں لگے رہتے ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک بھی شیطان کی راہ کو اختیار نہ کرنے پائے۔سورہ طور میں ہے کہ:
﴿قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ ﴾[الطّور:26]
’’کہیں گے کہ اس سے پہلے ہم اپنے گھر والوں کے درمیان بہت ڈرا کرتے تھے‘‘۔[سورہ طور:۲۶]
اولاد کے بارے میں ان کی اسی بے قراری اور ان کے فکر واندیشہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
جناب فضیلۃ الشیخ محمد بن جمیل زینو رحمۃ اللہ علیہ کا بچوں کی تربیت کے سلسلے میں ’’کیف نربّي أولادنا‘‘ نامی کتابچہ گو کہ بہت مختصر ہے لیکن اپنی افادیت کے اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔اسی جذبہ کے تحت ہم اس کا ترجمہ کرکے قارئین کرام کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ان شاء اللہ العزیز! یہ کتابچہ جہاں اسلامی لٹریچر میں گراں قدر اضافہ کا باعث ہوگا وہیں بچوں کی اسلامی خطوط پر تربیت کے ضمن میں بھی اہم کردار اداکرے گا۔
مُترجم
حافظ خالد حیات محمود
مدیر عام :جامعہ تعلیم القرآن والحدیث للبنات،گوجرانوالہ
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
إن الحمد لله ،نحمده ،ونستعينه ،ونستغفره ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا ، من يهده الله فلا مضل له ، ومن يضلل فلا هادي له . أما بعد :
بچّوں کی تربیت کا مسئلہ اس لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ اس پر نہ صرف یہ کہ والدین اور بچّوں میں سے ہر ایک کی تمام تر مصلحتوں اور منفعتوں کا انحصار ہے،بلکہ قوم وملّت کے لئے درخشاں مستقبل کے حصول کا بھی یہی ایک واحد ومنفرد ذریعہ ہے۔ تربیت اولاد کے انہی بے شمار مصالح کے پیش نظر جہاں اسلام نے اس کا خصوصیت کے ساتھ اہتمام کیا ہے وہاں یہ مسئلہ ان تمام علما ئے تربیت اور معماران اقوام کی خصوصی دلچسپی کا بھی موضوع رہا ہے جن کے آقا وسردار،مربّی کبیر محمد کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس ہے۔ اللہ بزرگ وبرتر کی طرف سے آپ کی بعثت کا مقصد ہی یہی تھا کہ آپ ہردو والدین اور بچّوں کو علم وعرفان کی دولت سے مالا مال کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اس طور پر رہنمائی فرمائیں کہ وہ دنیا وآخرت میں سعادت مندی وکامرانی سے بہرہ ور ہوسکیں۔
تربیت کے ضمن میں اسلام نے جس گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے اسی کا یہ اثر ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم(جس میں ہماری اصلاح ودرستگی او ر فلاح وکامیابی کے تمام اصول وضوابط رکھ دیئے گئے ہیں) میں اللہ تعالیٰ نے ایسے قصص وواقعات کو بیان فرمایا ہے جن پر اگر غور کیا جائے تو وہ بچّوں کی تربیت کے حوالہ سے نہایت مفید وکار آمد ثابت ہوسکتے ہیں۔
قرآن حکیم کے بیان کردہ ان واقعات میں سے لقمانِ حکیم کا واقعہ ہے جس میں وہ اپنے بیٹے کو ایسی پر مغز اور نفع بخش نصیحتوں سے نوازتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جو بچوں کی تربیت کے ضمن میں نہایت اہم اور ان کے لئے دنیا وآخرت میں کامیابی وکامرانی کی بنیاد فراہم کرنے میں نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔
دوسری جانب رسولﷺ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہوئے آپ دیکھیں گے کہ آپ بھی تربیت اولاد کی اہمیت کا گہرا احساس رکھنے کی وجہ سے اپنے چچازاد بھائی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے د ل میں عقیدۂ توحید کی جڑوں کو ان کے عہد طفولیت سے ہی مضبوط ومستحکم کرنے کے لئے کوشاں نظرآتے ہیں۔
زیر نظر کتاب میں قاری کویہ تمام چیزیں نہایت تفصیل کے ساتھ دیکھنے کا موقع ملے گا۔اس کے علاوہ اس کتاب میں والدین اور بچوں میں سے ہرایک کے دوسرے پرعائد ہونے والے ان حقوق وفرائض کو بھی مفصّل طور پربیان کردیا گیا ہےجن کا ادا کرنا ان میں سے ہر ایک کے لئے ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہوں کہ وہ اس کتابچہ کو قارئین کے لئے نفع بخش اور کارآمد ہونے کا اعزاز بخشنے کے علاوہ اسے محض اپنی رضا جوئی وخوشنودی کا بھی باعث بنائے۔ آمین
محمد بن جمیل زینو
مکّہ مکرّمہ،سعودی عرب
سورہ لقمان میں حق باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّـهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾[لقمان:13]
’’اور جب کہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے‘‘۔[سورہ لقمان:۱۳]
اسکے بعد اللہ بزرگ وبرتر نے لقمان حکیم کے الفاظ میں ان مفید ونفع بخش پند ونصائح کو یوں بیان فرمایا ہے:
۱۔﴿ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّـهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾[لقمان:13]
’’اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹہراؤ،بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘۔[سورہ لقمان:۱۳]
یعنی اللہ تعالیٰ کی بندگی بجالانے میں کسی کو بھی اس کا ساتھی اور ساجھی بنانے سے بچو،اور اللہ کے سوا مردہ یا آنکھوں سے اوجھل وپوشیدہ لوگوں سے دعائیں کرنا،ان کو پکارنا اور ان سے فریادکناں ہونا عبادت میں شرک کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ اور نبی کریمﷺ نے :
(الدُّعَاءُ هُوَ العِبَادَةِ) ’’یعنی دعا ہی عبادت ہے‘‘(اسے ترمذی نے روایت کرکے حسن صحیح کہا ہے) کہہ کر اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
اور جب یہ آیت نازل ہوئی:
﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ﴾[الأنعام:82]
’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ مخلوط نہیں کیا‘‘[سورہ انعام:۸۲]
تو اس وقت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اس آیت کا نزول نہایت شاق وگراں گذرا، چنانچہ انہوں نے رسولﷺ کے سامنے پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: (أَيُّنَا لَا يَظْلِمُ نَفْسَهُ؟) ’’یعنی ہم میں سے کون ہے جو اپنے آپ پر ظلم نہ کرتا‘‘،تو اس کے جواب میں رسولِ دوجہاں ﷺ نے فرمایا:
(لَيْسَ ذَلِكَ، إِنَّمَا هُوَ الشِّرْكُ ،أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ: يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ، إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ )
’’یعنی یہ وہ عام ظلم نہیں ہے بلکہ اس (آیت میں مذکور لفظ ظلم) سے مراد تو صرف شرک ہی ہے،کیا تم نے لقمان کا وہ قول نہیں سنا جس میں وہ اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے کہتے ہیں: اے میرے بیٹے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرانا،یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘۔ (بخاری ومسلم)
۲۔﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ ﴾[لقمان:14]
’’ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے‘‘[سورہ لقمان:۱۴]
دیکھئے تو ماں اپنے بچے کو کس قدر مشقّت کے ساتھ اپنے پیٹ میں اٹھائے رکھتی ہے،جب کہ باپ بچے کے تمام اخراجات برداشت کرنے کی ذمہ داری کو نبھانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا۔ اس وجہ سے والدین کا اپنے بچے پر یہ حق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے ساتھ اپنے محسن والدین کے احسانات کا بھی شکر گذارہو۔
۳۔﴿وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾[لقمان:15]
’’اور اگر وه دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راه چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو، تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے، تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کروں گا ‘‘[سورہ لقمان:۱۵]
امام حافظ ابن کثیر اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(أَيْ : إِنْ حَرَصَا عَلَيْكَ كُلَّ الْحِرْصِ عَلَى أَنْ تُتَابِعَهُمَا عَلَى دِينِهِمَا ، فَلَا تَقْبَلْ مِنْهُمَا ذَلِكَ ، وَلَا يَمْنَعَنَّكَ ذَلِكَ مِنْ أَنْ تُصَاحِبَهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ، أَيْ : مُحْسِنًا إِلَيْهِمَا ،(وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ) يَعْنِي : الْمُؤْمِنِينَ)
یعنی وہ تجھ کو اپنے دین کی اتّباع پر مجبور کرنے کی غرض سے چاہے جس قدر بھی اصرار کریں ان کی اس بات کو کسی بھی صورت میں قبول نہ کر،اور یہ بات تجھ کو ان کے ساتھ دنیا میں اچھا برتاؤ کرنے سے کسی طور بھی مانع نہیں ہونی چاہیے،اور اہل ایمان کے طریقہ کی پیروی واتباع برابر کرتے رہو۔
ہمارے خیال کے مطابق اس بات کی تائید تو نبیﷺ کے مندرجہ ذیل فرمان سے بھی ہوتی ہے:
(لَا طَاعَةَ لأَحَدٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ , إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ)(متفق عليه)
’’جس کام میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو اس میں کسی شخص کی بھی اطاعت جائز نہیں ہے،کیونکہ اطاعت وفرمانبرداری تو صرف نیکی کے کاموں میں ہی ہونی چاہئے‘‘۔(متفق علیہ)
۴۔﴿يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّـهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ﴾[لقمان:16]
’’اور اگر وه دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راه چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کروں گا‘‘[سورہ لقمان:۱۶]
(أَيْ : إِنَّ الْمَظْلَمَةَ أَوِ الْخَطِيئَةَ لَوْ كَانَتْ مِثْقَالَ حَبَّةٍ [ مِنْ] خَرْدَلٍ أَحْضَرَهَا اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِينَ يَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ ، وَجَازَى عَلَيْهَا إِنْ خَيْرًا فَخَيْرٌ ، وَإِنَّ شَرًّا فَشَرٌّ)
’’یعنی کوئی ظلم وزیادتی یا گناہ ولغزش خواہ وہ رائی کے دانے کے برابر ہی کیوں نہ ہواللہ تعالیٰ قیامت کے روز جس وقت عدل وانصاف کے ترازو قائم کرے گا اس کو حاضر کرے گا، پھر قوانین عدل کے عین مطابق جزا وسزا کا اہتمام فرمائے گا‘‘۔
۵۔﴿يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ ﴾[لقمان:17]
’’اے میرے بیٹے نماز قائم کرو‘‘۔
اقامت نماز سے مراد نماز کے ارکان وواجبات کو پورے خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرنا ہے۔
۶۔﴿وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ ﴾[لقمان:17]
’’اور نیکی کا حکم دو،اور برائی سے روکو‘‘۔
اس کا حکیمانہ انداز میں نہایت پیار اور نرمی کے ساتھ سَر انجام دینا ضروری ہے۔
۷۔﴿وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ﴾[لقمان:17]
’’اور جو مصیبت تمہیں پہنچے اس پر صبر کرو‘‘[سورہ لقمان:۱۷]
لقمان حکیم نے اس وصیّت سے پہلے اپنے بیٹے کوچونکہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی ہدایت کی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی بخوبی علم رکھتے تھے کہ جو شخص بھی نیکی کو پھیلانے کے لئے جدوجہد کرے گا، یا برائی کے خلاف برسرپیکار رہے گا اس کو مصائب وآلام سے ہرصورت میں نبردآزما ہونا ہی پڑے گا،اس لئے انہوں نے موقع کی مناسبت سے پہلی وصیّت کے ساتھ ہی صبروتحمّل سے کام لینے کی تلقین بھی فرمادی۔
نبیﷺ کا بھی اس سلسلہ میں ارشاد ہے:
(اَلْمُؤْمِنُ اَلَّذِي يُخَالِطُ اَلنَّاسَ, وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ خَيْرٌ مِنْ اَلَّذِي لَا يُخَالِطُ اَلنَّاسَ وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ )(أَخْرَجَهُ اِبْنُ مَاجَهْ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ)
’’یعنی وہ مومن جو لوگوں کے ساھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی جانب سے پہنچنے والی تکالیف وپریشانیوں پر کبیدہ خاطر ہونے کی بجائے صبروتحمّل کا مظاہرہ کرتا ہےوہ اس مومن سے بہتر ہے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے اور ان کی جانب سے پہنچنے والے رنج والم پر صبروتحمل کا مظاہرہ نہیں کرتا‘‘(ابن ماجہ نے اسےحسن سند سے روایت کیا ہے)۔
8۔﴿وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ﴾[لقمان:18]
’’ لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا‘‘[سورہ لقمان:۱۸]
آیت کے اس حصّہ کی تفسیر کرتے ہوئے امام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
(لَا تُعْرِضْ بِوَجْهِكَ عَنِ النَّاسِ إِذَا كَلَّمْتَهُمْ أَوْ كَلَّمُوكَ ، احْتِقَارًا مِنْكَ لَهُمْ ، وَاسْتِكْبَارًا عَلَيْهِمْ وَلَكِنْ أَلِنْ جَانِبَكَ ، وَابْسُطْ وَجْهَكَ إِلَيْهِمْ)
’’یعنی ایسے وقت میں جب تم لوگوں کے ساتھ گفتگو کررہے ہو یا وہ تمہارے ساتھ ہم کلام ہو رہے ہوں تو ان کو اپنے سے کم مرتبہ اور اپنے آپ کو ان سے اعلیٰ وارفع تصوّر کرتے ہوئے ان سے روگردانی مت کیجئے،بلکہ ان کے لئے ہمیشہ اپنے دل میں نرم گوشہ اختیار کئے رکھئے،اور ان کے ساتھ خندہ پیشانی وکشادہ روئی سے پیش آتے رہئیے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: (تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ) (صحیح،رواہ الترمذی وغیرہ)۔
’’یعنی تمہارا اپنے بھائی کے سامنے مسکرادینا بھی تمہاری طرف سےصدقہ ہی ہے‘‘۔
۹۔﴿وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا﴾[لقمان:18]
’’ اور زمین پر اترا کر نہ چل ‘‘[سورہ لقمان:۱۸]
یعنی اتراتے،ڈینگیں مارتے،شیخیاں بگھارتے او ر غروروسرکشی کے عالم میں حق وصداقت سے منہ پھیرتے ہوئے زمین پر مت چلو،اس قسم کا طرز عمل اختیار کرنےسے تمہیں باز رہنا چاہئیے،کیونکہ اگر تم اس قسم کے رویّہ سے باز نہیں آؤگے تو یہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدگی ونفرت کا باعث بن جائے گا،اس قسم کے طرزِ عمل میں پائی جانے والی برائیوں اور قباحتوں سے اپنے دامن کو بچائے رکھنے کی مزید تاکید کے لئے لقمان حکیم نے ساتھ ہی فرمایا:
﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ﴾ [لقمان:19]
’’بے شک اللہ تعالیٰ کسی تکبر کرنے والے اور فخرکرنے والے کو کبھی پسند نہیں کرتا‘‘۔
امام حافظ ابن کثیرؒ اس آیت کے معانی کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مختال‘‘سےمراد ہر وہ شخص ہے جو غرور ،تکبراور گھمنڈ میں مبتلا ہو۔
اور (فخور) ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنے آپ کو دوسروں پر فخر میں فوقیت وفضیلت دیتا ہو۔
۱۰۔﴿وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ﴾[لقمان:19]
’’اوراپنی چال میں میانہ روی اختیار کر ‘‘[سورہ لقمان:۱۹]
یعنی چلتے ہوئے میانہ اور اوسط درجہ کی ایسی رفتار اختیار کیجئے جس میں قدم نہ تو آہستہ آہستہ ،رُک رک کر اٹھ رہے ہوں اور نہ ہی ان کے اٹھنے میں ضرورت سے زیادہ عجلت وتیزی کا مظاہرہ کیا جارہا ہو،بلکہ اس میں حد درجہ توازن واعتدال ہونا چاہئے۔
۱۱۔﴿ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ﴾[لقمان:19]
’’اور اپنی آواز کو پست رکھو‘‘۔
یعنی گفتگو کرتے وقت مبالغہ آرائی سے کام مت لو،اور بلاضرورت کڑک کڑک کرباتیں نہ کرو،اس کردار کی برائی وقباحت کو بیان کرنے کے لئے لقمان علیہ السلام نے مزید کہا:
﴿إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ﴾[لقمان:19]
’’بے شک سب سے زیادہ نا پسندیدہ اور مکروہ آواز گدھے کی آواز ہے‘‘۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں مذکورہ آیت کی تشریح کرتے ہوئے امام مجاہدؒ کا یہ قول نقل کیا ہے:
(إِنَّ أَقْبَحَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ ، أَيْ : غَايَةُ مَنْ رَفَعَ صَوْتَهُ أَنَّهُ يُشَبَّهُ بِالْحَمِيرِ فِي عُلُوِّهِ وَرَفْعِهِ ، وَمَعَ هَذَا هُوَ بَغِيضٌ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى . وَهَذَا التَّشْبِيهُ فِي هَذَا بِالْحَمِيرِ يَقْتَضِي تَحْرِيمَهُ وَذَمَّهُ غَايَةَ الذَّمِّ)
’’بے شک سب سے بھدّی اور بری آواز گدھوں کی آواز ہے،اوراپنی آواز کو بلاضرورت بلند کرنے والے شخص سے متعلق زیادہ سے زیادہ جوبات کہی جا سکتی ہے وہ یہی ہے کہ اس کو آواز کے بلند اور اونچا کرنے کی وجہ سے گدھوں سے تشبیہ دے دی جائے۔اور اس کے ساتھ ساتھ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہایت مبغوض اورغیر پسندیدہ انسان بھی ہے،اورگدھوں کے ساتھ ایسے شخص کو دی گئی تشبیہ کا تقاضا تو بہرحال یہی ہے کہ بلا ضرورت آواز کے بلند کرنے کو حرام او رانتہائی قابل مذمّت طرز عمل کیا جائے‘‘۔
اس کے علاوہ اس سلسلہ میں نبی کریمﷺکے اس ارشادات گرامی بھی نہایت واضح ہیں:
(لَيْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْءِ, الَّذِي يَعُودُ فِي هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ يَرْجِعُ فِي قَيْئِهِ)) صحيح البخاري، رقم (2622:
’’ہم مسلمان بری مثالوں کے مصداق نہیں ہیں،اپنے ہبہ کی طرف لوٹنے والا(کسی چیز کو عنایت کرکے پھراس کی واپسی میں دلچسپی لینے والا)بالکل اس کتّے کی طرح ہے جو اپنی قے کی طرف لوٹتا ہے(یعنی قے کرنے کے بعد اسے کھا لیتا ہے)۔
ب۔)إِذَا سَمِعْتُمْ صِيَاحَ الدِّيَكَةِ ،فَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ ، وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَهِيقَ الْحَمِيرِ فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ ، فَإِنَّهَا رَأَتْ شَيْطَانًا ) (متفق عليه)
’’جب مرغ کی بانگ سنو تو اللہ سے اس کے فضل کا سوال کیا کرو، کیونکہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے اور جب گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے “۔(دیکھئے تفسیرابن کثیر،ج۳؍۴۶۶)۔([1])
۱۔باپ کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اپنے بیٹے کو ایسی نصیحتوں سے نوازتا رہے جو اس کے لئے دنیا وآخرت میں نفع بخش،سود مند اور کار آمد ثابت ہوسکتی ہوں۔
۲۔نصیحت کی ابتدا تو حید پر قائم رہنے کی تلقین اور شرک سے بچنے کی تنبیہ سے ہونی چاہیے،کیونکہ اللہ کے ساتھ شرک اتنا بڑا ظلم ہے کہ وہ تمام اعمال کو غارت کرکے رکھ دیتا ہے۔
۳۔اللہ رب العزّت کی عطا کی ہوئی نعمتوں پر جس طرح اس کا شکر ادا کرنا ضروری ہے اسی طرح والدین کے احسانات اور ان کی جانب سے ملنے والے پیارومحبّت کے مقابلے میں اظہارِ تشکّر کے طور پر ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا اور ان سے خوشگوار تعلّقات کو قائم ودائم رکھنا بھی ضروری ہے۔
۴۔لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئیے کہ سرورِ دو عالَم ﷺ کے مندرجہ ذیل ارشاد گرامی کی روشنی میں والدین کی اطاعت وفرمانبرداری ہر اس کام میں واجب ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا احتمال نہ ہو چنانچہ اس سلسلہ میں فرمانِ نبوی ہے:
(لَا طَاعَةَ لأحدٍ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ)
’’اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت حلال نہیں ہے اطاعت صرف نیک کاموں میں ہے‘‘۔(صحیح بخاری)
۵۔توحید پرست اہل ایمان کے طریقہ کی پیروی ضروری ہے،جب کہ بدعتیوں کے آثار اور ان کے طور طریقوں کی اتباع ناجائز وحرام ہے۔
۶۔پوشیدہ اور ظاہر ،ہرحالت میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہئیے۔ نیکی چاہے کتنی معمولی ہی کیوں نہ ہو اسے کسی صورت میں بھی ہلکا خیال کرکے چھوڑنا نہیں چاہیے،اسی طرح کسی برائی کو چھوٹی برائی تصوّر کرکے اس کے اجتناب سے کوتاہی ہرگز نہیں برتنی چاہیے۔
۷۔نماز کو مکمّل یکسوئی کے ساتھ اس کے جملہ ارکان وواجبات سمیت ادا کرنا چاہیے۔
۸۔دوسروں کو نیکی کی دعوت دینے اور انہیں برائی سے باز رکھنے کی کوشش نہایت ضروری ہے، اس کا م کو جس قدر بھی علمی روشنی کی مدد سے اور لطف وپیار سے انجام دیا جائے گا اتنا ہی بہتر ہوگا۔ اس مسئلہ کی اہمیت کو سرکارِ دو عالم ﷺ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
(مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا،فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ،فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ)۔(مسلم)
’’تم میں سے جو شخص کوئی بات خلاف شرع دیکھے، تو اسے اپنے ہاتھ سے روک دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے روکے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اس کو دل سے برا جانے، اور یہ ایمان کا سب سے معمولی درجہ ہے“۔(صحیح مسلم)
۹۔نیکی کا پرچار کرنے اور برائی سے دوسروں کو باز رکھنے والے شخص کو اپنے اس ر استے میں جس قدر بھی نامساعد حالات اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے اسے اس پر صبر کرنا چاہیے،اور یہ بات یقیناً عزیمت کے کاموں میں سے ہے۔
۱۰۔چال میں تکبّر ،فخر اور غرور کے انداز کو اختیار کرنا حرام ہے۔
۱۱۔رفتار میں اعتدال ومیانہ روی کا پایا جانا ضروری ہے، کیونکہ اسلامی نقطۂ نگاہ سے رفتار نہ توبہت زیادہ تیز ہونی چاہیے اور نہ ہی اسے حد درجہ سست روی کی وجہ سے مریل بنادینا چاہیے۔
۱۲۔ضرورت سے زیادہ آواز کو بلند کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے،کیونکہ ایسا طرز عمل انسانوں کی عادات سے ملنے کے بجائے گدھوں کی عادات سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔
امام ترمذیؒ نے اپنی جامع میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک حسن صحیح حدیث نقل کی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں سرور کائنات ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھا تھا کہ آپ نے مجھے مخاطب کرکے ارشاد فرمایا: ’’اے بچے! میں تمہیں کام کی چند باتیں سکھاتا ہوں:
۱۔ احْفَظْ اللَّهَ يَحْفَظْكَ
یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کے احکام بجالاؤ اور اس کے منع کردہ کاموں کے ارتکاب سے بچوتو اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں تمہارا ہر طرح سے خیال رکھے گا۔
۲۔ احْفَظْ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ
یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کی حفاظت اور اس کے عائد کردہ حقوق کی ادائیگی کا پورا خیال رکھو تو اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کی اصلاح فرمائے گا اور تم اپنی مدد کے لئے اسے ہرآڑے وقت میں تائید ونصرت سمیت اپنے سامنے پاؤگے۔
۳۔ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلْ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ
جب تم کچھ مانگنا چاہو تو بس اللہ ہی سے مانگو، اور جب تم مدد طلب کرو تو صرف اللہ ہی سے مدد طلب کرو۔
اس سے مقصود یہ ہے کہ جب تمہیں دنیا وآخرت کے کاموں میں سے کسی کام سے متعلق مدد درکار ہو تو اس کے لئے تمہیں صرف اللہ تعالیٰ ہی کے سامنے اپنے ہاتھوں کو پھیلانا چاہیے۔اور خاص طور پر ایسے کاموں کے لئے توصرف اور صرف اسی کی طرف رجوع کرنا چاہیے جن میں اس کے سوا کوئی بھی تعاون ومدد کرنے کی طاقت وقدرت نہیں رکھتا ۔جیسے کہ بیماری سے شفا اور رزق میں کشادگی کی خواہش وطلب وغیرہ کے مسائل ہیں،کیونکہ ان مسائل کا تعلق ایسے امور کے ساتھ ہے جن کو اللہ رب العزّت نے صرف اور صرف اپنی ذات کے ساتھ ہی خاص کررکھا ہے۔
(امام نووی اور امام ہیثمی رحمہما اللہ نے اس سے یہی معنیٰ مراد لیا ہے)۔
۴۔ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ
اور اچھی طرح جان لو کہ اگر امّت کے تمام افراد اکٹھے ہو کرتجھے کچھ فائدہ پہنچانا چاہیں تو تجھے صرف اسی چیز کا ہی فائدہ پہنچا سکیں گے جس کو اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے پہلے سے لکھ رہا ہے۔اور اگر وہ سارےتجھے کسی نقصان سے دوچار کرنے پر مل جائیں تو وہ تجھے صرف اسی چیز میں ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے پہلے سے مقدّر کر رکھا ہے۔
۵۔، رُفِعَتْ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ (رواہ الترمذی،وقال:حسن صحیح)۔
قلم اٹھا لئے گئے ہیں اور اوراق خشک ہوچکے ہیں۔
لیکن اس سلسلہ میں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ’’توکل علی اللہ‘‘ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انسان صرف یہ سوچ کر ہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے کہ چونکہ ہر آدمی کا مقدر تو روزِ اوّل سے ہی اللہ تعالیٰ کی جانب سے لکھا جا چکا ہے۔اور اب جبکہ اس میں کسی قسم کی تبدیلی کا بھی کوئی امکان نہیں ہے تو اس صورت میں اس کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارۂ کار نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے سامنے تسلیم ورضا کا پیکر بن جائے اور اپنے حالات کو مادّی اسباب کے ذریعہ درست کرنے کے بجائے صرف اعتماد الہی کی بنیاد پر اپنی ہر قسم کی جدوجہد سے کنارہ کشی اختیارکرلے، بلکہ ’’توکل علی اللہ‘‘ کا مفہوم تو یہ ہے کہ ظاہری ومادی اسباب کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات بزرگ وبرترپراپنے اعتماد وبھروسہ کا بھر پور اظہار کیا جائے، کیونکہ سرور دو عالم ﷺ نے ایک اونٹنی کے مالک سے ارشاد فرمایا تھا: (إعقلها وَتَوَكَّلْ) یعنی پہلے اس کے زانو کو باندھو پھر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کا اظہار کرو‘‘۔(امام ترمذی نے اس حدیث کو روایت کرتے ہوئے حسن کہا ہے)۔
جامع ترمذی کے علاوہ حدیث کی دوسری کتابوں میں مندرجہ ذیل نصیحتوں کا بھی اضافہ ہے:
۶۔(تعرَّفْ إلى اللهِ في الرَّخاءِ يَعْرِفْكَ في الشِّدَّة)
یعنی اگر خوش حالی وآسودگی کے ایّام میں تم اللہ تعالیٰ کے حقوق کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے بندوں کے حقوق کو بھی پورا کرنے کی پوری پوری کوشش کرتے رہو تو اللہ تعالیٰ تمہاری نجات کی راہیں ایسے وقت میں وافرمائے گا جب تم ہر طرف سے بدحالی ودرماندگی میں گھر چکے ہو۔
اور خوب جان لو کہ جس چیز سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں محروم کردیاہے وہ چیز تمہیں کسی صورت بھی حاصل نہیں ہوسکے گی۔اور اگروہ تمہیں کسی چیز سے بہرہ مند کرنے کا ارادہ کرچکا ہے تو اس چیز کے تمہارے پاس پہنچنے میں کوئی شخص بھی کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کرنے کی قطعا طاقت وہمت نہیں رکھتا۔
۸۔ وَاعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ
اور خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت صرف صبروتحمل اور برداشت کے ذریعہ ہی حاصل ہوسکتی ہے‘‘۔
یعنی دشمن ہو یا نفسانی خواہشات وجذبات ،دونوں کا سرکچلنے اور ان پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے تائید الہی کے حصول کا واحد ذریعہ صبروتحمل اور ثبات وبرداشت ہی ہے۔
۹۔ وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ
اور بے شک ہر تنگی کے بعد کشادگی بھی ہے۔
یعنی اس بات کا یقین کرلو کہ اگر مومن مبتلائے رنج والم ہوتا ہےتواس کے بعد اسے مسرّت وشادمانی کا دور دیکھنا بھی ضرور نصیب ہوتا ہے۔
۱۰۔ وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا
اور یقینا ہر مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔
یعنی اگر مسلمان کو کبھی تنگی وعسرت کے ایک کھٹن مرحلہ سے گزرنا پڑتا ہے تو اسے اس کے بعد یقیناً سہولت وفراخی کے بھی کئی ایک مراحل میسّر آئیں گے۔
حدیث سے ماخوز چند اہم فوائد
۱۔سرور دو عالمﷺ کی بچوں سے بے پناہ الفت ومحبت کے اظہار کا بیان،اپنے چچا زاد بھائی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے سواری پر بیٹھانااور ان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے پیار بھرے انداز میں’’یا غلام‘‘ اے بچے! کہہ کر آواز دینا۔
۲۔بچوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری کی تلقین اور اس کی نافرمانی کے ارتکاب سے بچے رہنے کی تنبیہ کرتے رہنا یقیناًان کو دنیا وآخرت میں سعادت مندی سے بہرہ ور کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔
۳۔اگرکوئی بندہ مومن آسودگی وفراخی،صحت وتندرستی اور تونگری وخوشحالی میں اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق وفرائض کی ادائیگی کا خیال رکھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسے حالات میں نجات کی راہیں کھول دے گا جب وہ ہرطرف سے شدائد ومحن اور مصائب وآلام میں گھِر چکا ہوگا۔
۴۔والدین اور اساتذہ ،دونوں کا فرض ہے کہ وہ بچوں کے دلوں میں عقیدۂ توحید کو اس طور پر راسخ ومضبوط کردیں کہ جب بھی ان کے دل میں کسی چیز کی طلب وخواہش پیدا ہو یا ان کو کسی معاملہ میں استعانت ومدد درکار ہو تو وہ اس کے لیے صرف اور صرف رب کائنات کے حضور ہی اپنے ہاتھوں کو پھیلائیں۔
۵۔بچوں کے دلوں مین عقیدۂ ایمان کو بھی نہایت مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے اس سلسلے میں یہ بات ان کے علم میں لانی چاہیے کہ ایمان بالقدر(یعنی تقدیرپرایمان لانا چاہے وہ تقدیر انسان کے حق میں اچھی ہو یا بری) ایمان کے ارکان میں سے ایک رکن ہے۔
۶۔سرور کائنات ﷺ کے ارشادگرامی(وَاعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ ، وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ ، وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ( ’’یعنی خوب جان لو کہ اللہ کی تائید ونصرت صبروتحمل کے ساتھ ہی حاصل ہوسکتی ہے،اور ہرتنگی کے بعد کشادگی ہے اور ہرمشکل کے ساتھ آسانی ہے‘‘ کی روشنی میں بچوں کی تربیت ایسے طور پر ہونی چاہیے کہ وہ اپنے ہر کام کے نیک انجام سے متعلق پرامید ہوں کیونکہ اس طرح وہ صرف یہی نہیں کہ آنے والے دنوں کے خطرات کا مقابلہ نہایت شجاعت وجوانمردی اور قومی وملی بھر پور جذبوں کے ساتھ کرنے کے قابل ہوسکیں گے بلکہ ان کا وجود امّت اسلامیہ کے لئے نہایت مفید وکارآمد بھی ثابت ہوگا۔
صحیح بخاری وصحیح مسلم کی روایت میں رسالت مآبﷺ کا ارکانِ اسلام کے بارے میں ارشاد ہے:
بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ:
یعنی اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے:
۱۔ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ
’’اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں،اور محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں جن کی اطاعت وفرمانبرداری اللہ تعالیٰ کے دین(اسلام) کے جملہ تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے۔
۲۔ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ
نماز کو اس کے تمام ارکان اور واجبات سمیت پورے خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرنا ہے۔
۳۔وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ
یعنی زکوٰۃ کو ادا کرنا، اور یہ زکوٰۃ مسلمان پر اس وقت واجب ہوجاتی ہے جب وہ ۸۵ گرام سونا(تقریبا سواسات تولے)([2])یا اس کے برابر نقد روپے کا مالک ہوجائے۔اس صورت میں اس کو اڑھائی فیصد کے حساب سے سال گزرنے پر زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی، نقد روپے کے علاوہ جن جن چیزوں پر زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے ان کے نصاب کا تعین بھی اسلامی تعلیمات کے ذریعہ کردیا گیا ہے۔
۴۔وَحَجِّ الْبَيْتِ
یعنی بیت اللہ کا حج کرنا، اور یہ ہر اس مسلمان پر فرض ہوجاتا ہے جو مکّہ مکرّمہ میں اللہ کے گھر پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔
۵۔وَصَوْمِ رَمَضَانَ
یعنی ماہِ رمضان کے روزے رکھنا، اور روزہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان روزے کی نیّت سے طلوع فجرسے لے کرغروبِ آفتاب تک کھانے پینے کے علاوہ روزہ کی دیگر تمام منافی چیزوں سے اپنے آپ کو باز رکھے۔
مسلم شریف کی روایت مین ارکانِ ایمان کی تفصیل کے بارے میں نبی اکرمﷺ کا ارشاد گرامی اس طرح ہے:
۱۔ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ:
یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات پر تیرا ایمان لانے کے ساتھ یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ جس طرح عبادت میں اپنا کوئی ساجھی یا شریک نہیں رکھتا اسی طرح وہ اپنی جملہ صفات میں بھی یگانہ ویکتا ہے۔
۲۔ وَمَلائِكَتِهِ:
یعنی اللہ تعالیٰ کے فرشتوں پر ایمان لانا، یہ فرشتے نورانی مخلوق ہیں ،جن کوحق تعالیٰ نے اپنے اوامر کی تنفیذ کا فریضہ سَر انجام دینے کی خاطر پیدا فرمایاہے۔
۳۔ وَكُتُبِهِ :
یعنی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان لانا ،او ر وہ کتابیں تورات، انجیل،زبور اور قرآن پاک کی صورت میں موجود ہیں، البتہ قرآن پاک کو ان تمام کتابوں میں افضل ترین کتاب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
۴۔ وَرُسُلِهِ:
یعنی اللہ تعالیٰ کے رسولوں پر ایمان لانا، سب سے پہلے رسول نوح علیہ السلام ہیں، جبکہ سب سے آخری پیغمبر جناب محمد ﷺ ہیں۔
۵۔ وَالْيَوْمِ الآخِرِ:
یعنی آخرت کے دن پر ایمان لانا، اور یہ وہ دن ہے جس میں لوگوں کے اعمال کا جائزہ لیا جائے گااور مکمل جانچ پڑتال کے بعد ان کو جزا یا سزا دی جائے گی۔
۶۔ وَتُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ:
یعنی قضا وقدر پر راضی رہنا، چاہے وہ انسان کے حق میں بہترہویا نہ ہو، کیونکہ کائنات میں جو کچھ بھی رونما ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور مشیئت سے ہی رونما ہوتا ہے لیکن مادّی اسباب کا اختیار کرنا اس ایمان کے ہرگز منافی نہیں ہے۔
قرآن کریم ،احادیث صحیحہ ،عقل سلیم اور فطرت سلیمہ رب العزّت کے عرش پر متمکن ہونے کی تائید کرتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ﴾[طه:5]
’’رحمٰن عرش پر بلند ہے‘‘[سورہ طہ:۵]
ا س میں بلندی وارتفاع کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ بخاری شریف میں بعض تابعین سے مذکورہ آیت کریمہ کا یہی معنیٰ ومفہوم نقل کیا گیا ہے۔
۲۔نبی کریمﷺ نے ایک لونڈی سے پوچھا:
(أَيْنَ اللَّهُ ؟ فَقَالَتْ : فِي السَّمَاءِ ، فَقَالَ : مَنْ أَنَا ؟ فَقَالَتْ : أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ)(رواه مسلم)
’’ اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا:آسمان پر، آپ نے پوچھا میں کون ہوں؟ وہ کہنے لگے آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں،آپ نے(اس کے آقا سے ) کہا کہ اس کو آزاد کردو،یہ ایماندار عورت ہے‘‘۔(اسے مسلم نے روایت کیا ہے)۔
۳۔نماز ادا کرنے والا جب سجدہ ریز ہوتا ہے تو اس وقت کہتا ہے (سبحانَ ربي الأعلی) ’’پاک ہے میرا رب بہت بلند‘‘ ،اور جب نماز کے بعد دعا کرنا چاہتا ہے تو اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرتا ہے۔
۴۔بچوں سے اگر آپ پوچھیں کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہے تو وہ فطرتِ سلیمہ کی بنیاد پر بے ساختہ جواب دیں گے کہ وہ آسمان پر ہے۔
۵۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ ...﴾[الأنعام:3]
یعنی’’وہ اللہ آسمانوں پر ہے‘‘۔امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(إتّفقَ المفسّرونَ عَلى أنّنا لَا نَقُول كَما تَقولُ الجَهميّةُ(فرقةٌ ضالّةٌ) إنَّ اللهَ في كلِّ مكان! تَعالى اللهُ عَمّا يقولون عُلوّاً كبيراً!!(ومعنى في السّمواتِ: على السّمواتِ) لكنَّ اللهَ مَعنا ويَرانا، وَهُوَ فَوقَ العرشِ)
’’تمام مفسّرین کا اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ہم (اہل سنّت ) اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسا عقیدہ نہیں رکھتے جس طرح کا عقیدہ جہمیہ (ایک گمراہ فرقہ) رکھتے ہیں،جن کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ (نعوذ باللہ) ہر جگہ موجود ہے (حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات جس قسم کی یہ لوگ باتیں کرتے ہیں ان سے بالا وبرتر ہے) ان کے مقابلہ میں ہمارا (اہل سنّت ) کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری آوازوں کو سنتا، اور ہماری ہرہرحرکت کو دیکھتا ہے‘‘۔
(عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ رضي الله عنه، قَالَ :(وَكَانَتْ لِي جَارِيَةٌ تَرْعَى غَنَمًا لِي قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ ، فَاطَّلَعْتُهَا ذَاتَ يَوْمٍ فَإِذَا ذِئْبٌ قَدْ ذَهَبَ بِشَاةٍ مِنْ غَنَمِهَا ، وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي آدَمَ آسَفُ كَمَا يَأْسَفُونَ ، لَكِنِّي صَكَكْتُهَا صَكَّةً ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَعَظَّمَ ذَلِكَ عَلَيَّ ، قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أُعْتِقُهَا ؟ قَالَ : ((ائْتِنِي بِهَا(( فَأَتَيْتُهُ بِهَا قَالَ: ((مَنْ أَنَا ؟ ))، قَالَتْ : أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ ، قَالَ : ((أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ)).
’’ معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :میری ایک لونڈی تھی جو میری بکریوں کو’’اُحد وجوانیہ‘‘ پہاڑوں کے پاس چرایا کرتی تھی،ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک بھیڑیا اس کی بکریوں کے ریوڑ میں سے ایک بکری کو اٹھائے جارہا ہے،چونکہ میں بھی بنی آدم کا ایک فرد ہی ہوں ،عام لوگوں کی طرح مجھے بھی غصّہ آجاتا ہے،لہذا اس منظر کو دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اس لونڈی کو ایک زور دار طمانچہ دے مارا،پھر میں رسول اکرمﷺ کی خدمت حاضر ہوا ،آپ نے میری اس حرکت کو میرے لئے بہت بڑے گناہ کا موجب قراردیا،میں نے کہا یا رسول اللہ!(ﷺ): کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کردوں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’اس کو میرے پاس لے کر آؤ‘‘،تب آپ نے اس سے پوچھا : ’’اللہ تعالی کہاں ہے؟‘‘، اس نے جواب دیا ـ آسمان پر،آپ نے پھر پوچھا : ’’میں کون ہوں؟ ‘‘،اس نے جواب دیا: آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں: آپ نے مجھے(مخاطب کرکے ) فرمایا: ’’یہ ایمان دار ہے اس کو آزاد کردو‘‘۔(مسلم اور ابوداود نے روایت کیا ہے،اور یہ لفظ مسلم کے ہیں)
1۔صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین ) کا معمول تھا کہ ان کو جب بھی کوئی چھوٹی یا بڑی مشکل پیش آتی اس کے بارے میں حکم الہی کو جاننے کے لیے سرور دوعالم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا کرتے تھے۔
۲۔مندرجہ ذیل فرمانِ الہی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہر قسم کے اختلافات کا فیصلہ کرانے کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات کی طرف ہی رجوع کیا جائے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾[النساء:65]
’’سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں اور کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں‘‘[سورہ نساء:۶۵]
۳۔رحمت دو عالمﷺ پر آپ کے صحابی کا اپنی لونڈی کو مارنا اس قدر گراں گزرا کہ آپ نے ایسی حرکت پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے اسے بہت بڑے گنا ہ کا کام قراردیا۔
۴۔آزادی کے لئے غلام یا لونڈی کا صاحب ایمان ہونا ضروری ہے،کسی انسان کو کفر کی حالت پر قائم رہتے ہوئے آزادی دینا شرعا جائز نہیں ہے، کیونکہ رسولﷺ نے لونڈی کے مالک کو اسے آزاد کرنے کی اجازت دینے سے قبل اس کے ایمان کو جانچنے کے لئے اس سے مختلف نوعیت کے کچھ سوالات پوچھے تھے۔ اور جب آپ نے جان لیا کہ وہ ایمان دار عورت ہے تو اس کے مالک کو اسے آزاد کرنے کی اجازت مرحمت فرمادی اور اس سے یہ چیز خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ اگر وہ لونڈی کفر کی حالت پر ہی پائی جاتی تو یقیناً آپﷺ اس کی آزادی کے لیے حکم صادر نہ فرماتے ۔
۵۔کسی کے ایمان کو جانچتے وقت توحید باری تعالیٰ کے بارے میں ضرور سوالات پوچھنے چاہئیں ،اور یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے اپنے عرش پر بلند ہونے کا مسئلہ توحید سے متعلقہ ان اہم مسائل میں سے ہے جن کا جاننا نہایت ضروری ہے۔
۶۔أینَ اللہ؟ (اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟) کے الفاظ کے ساتھ سوال کرنا جائز ہے، چونکہ نبی رحمتﷺ نے انہی الفاظ کے ساتھ لونڈی سے سوال کیا تھا اس لئے سوال کے اس انداز کو سنّت طریقے کی حیثیت حاصل ہے۔
۷۔أینَ اللہ؟ (اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟) کے الفاظ کے ساتھ پوچھے گئے سوال کے جواب میں (في السماء) ’’آسمان پر ہے‘‘ کے الفاظ کے ساتھ جواب دینا درست ہے،کیونکہ رسالت مآب ﷺ کے سوال(أین اللہ) کے جواب میں جب لونڈی نے مذکورہ الفاظ(في السماء) کے ساتھ جواب دیا تو آپ نے اس کے جواب کو رد نہ فرما کراس کے جواب کی درستگی کی تصدیق فرمادی تھی۔
اس کے علاوہ (في السماء) کے الفاظ کے ساتھ جواب دینا قرآن مجید کے اس بیان کے بھی عین مطابق ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں(في السماء) ’’آسمان پر ہے‘‘ کے الفاظ ہی پائے جاتے ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ ﴾[الملك:16]
’’ کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہو کہ آسمانوں والاتمہیں زمین میں دھنسا دے اور اچانک زمین لرزنے لگے ‘‘۔[سورہ ملک:۱۶]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (من في السماء)’’وہ جو آسمان پر ہے‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ(ھو اللہ) یعنی وہ جو آسمان پر ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس ہے۔
۸۔یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ایمان کی صحت ودرستگی سرور دو عالم جناب محمدﷺ کی رسالت کی صداقت کو تسلیم کئے بغیر ممکن ہی نہیں۔
۹۔یہ اعتقاد کہ ’’اللہ تعالیٰ آسمان پرہے‘‘ صحت ایمان کی دلیل ہے،ا ور اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسا اعتقاد رکھنا ہر مومن کے لیے صحت ایمان کے پیش نظر ضروری بھی ہے۔
۱۰۔اس حدیث میں ایسے شخص کے غلط نظرئیے کا ردبھی پایا جاتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ (نعوذ باللہ) اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجودہے، کیونکہ اس سلسلہ میں حق بات یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی جو معیّت وہمراہی حاصل ہے وہ اس ذات کی ساتھ نہیں بلکہ اس کے علم کے ساتھ ہے۔
۱۱۔سرکار دو جہاں ﷺ کا لونڈی کو بلا کر اس کے ایمان کی پرکھ کے لیے اس سے بعض سوالات پوچھنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپﷺ غیب کا علم(لونڈی کے ایمان کا علم ) نہ رکھتے تھے۔اس سے ان صوفیاء کا بھی رد ہوجاتا ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ رسولﷺ غیب کا علم رکھتے تھے۔
رسالت مآب ﷺ کا ارشاد ہے:
(كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالْإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا، وَالْخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ"، قَالَ: فَسَمِعْتُ هَؤُلَاءِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَحْسِبُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَالرَّجُلُ فِي مَالِ أَبِيهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ)
’’تم میں سے ہر فرد ایک طرح کا حاکم ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہو گا۔ پس بادشاہ حاکم ہی ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہو گا۔ ہر انسان اپنے گھر کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا ‘‘۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر: 2409)
۲۔عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے دوجہاں ﷺ سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول(ﷺ)سب سے بڑا گناہ کونسا ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
(أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ) کہ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تو کسی کو اللہ تعالیٰ کا مد مقابل ٹہرائے حالانکہ اسی ذات حق نے تجھے وجود بخشا ہے۔
میں نے عرض کیا کہ اس کے بعد پھر کون سا گناہ بڑا گناہ ہوگا؟ آپ نے فرمایا:
(أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ خَشْيَةَ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ) کہ تو اپنے بچے کو محض اس خوف کی وجہ سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ مل کر کھائے گا(اور تو سوچتا ہے کہ میں تنگدستی کی وجہ سے اسے کہاں سے کھلاؤں گا)
میں نے پھر استفسار کیا کہ اس کے بعد پھر کون سا گناہ سب سے بڑا ہوگا؟
آپ ﷺنے فرمایا:
( أَنْ تُزَانِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ)
کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ فحاشی کا ارتکاب کرے۔
۳۔نبی رحمتﷺ کا ارشاد ہے:
(اتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ)
’’اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان ہر طرح سے (مال ومتاع کی تقسیم،عطیات وہبات وغیرہ کی عنایت وبخشش میں) عدل و انصاف کو قائم کرو‘‘۔
۴۔سرور دوجہاں ﷺ فرماتے ہیں:
(كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ، أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ، كَمَثَلِ الْبَهِيمَةِ تُنْتَجُ الْبَهِيمَةَ، هَلْ تَرَى فِيهَا جَدْعَاءَ؟)
’’ہر بچہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے،پھر اس کے والدین ہی اس کو یہودی، یانصرانی ،یا مجوسی بناڈالتے ہیں،جس طرح کہ ایک چوپایہ پیدائش کے وقت صحیح وسلامت اور کامل الخلقت چوپائے کو ہی جنم دیتا ہے(پھراس کے بعد ہی اس کے کان کو کاٹا جاتا ہے) کیا تونے ان جانوروں میں کوئی ایسا جانور بھی دیکھا ہے جو کان کٹا ہی پیدا ہوا ہو؟ (ایسا ہرگز نہیں ہوتا بلکہ کان کو پیدائش کے بعد ہی کاٹا جاتا ہے)‘‘۔ (صحیح بخاری)
5۔نبی رحمت ﷺ کا فرمان ہے:
(مِنْ الْكَبَائِرِ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَيْهِ"قِيلَ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ يَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ؟ قَالَ: "يَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ وَيَسُبُّ أُمَّهُ)
’’آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے،پوچھا گیا :اے اللہ کے رسول!آدمی اپنے والدین کو کیسے لعن طعن کرسکتا ہے؟ فرمایا: وہ اس طرح کہ جب وہ کسی دوسرے آدمی کے باپ کو گالی دے گا تو و ہ بھی جواب میں اس کے باپ کوگالی دے گا،اسی طرح جب وہ دوسرے کے ماں کو برا بھلا کہے گا تو وہ بھی جواب میں اس کی ماں کو برابھلا ہی کہے گا‘‘۔
۶۔ایک آدمی نے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی کہ اے اللہ کے رسول(ﷺ) میرے حسن سلوک کا لوگوں میں سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ نے جواب دیا: (أمّک) ’’تیری ماں‘‘ اس آدمی نے دوبارہ عرض کیا : پھر کون ہے؟آپ نے ارشاد فرمایا: (أمّک) ’’تیری ماں ہے‘‘ اس نے سہ بارہ پوچھا پھر کون ہے؟ آپ نے فرمایا: (أمّک) ’’تیری ماں ہے‘‘ اس نے چوتھی مرتبہ پھر آپ کی خدمت میں عرض کیا : پھر کو ن ہے؟آپ نے جواب دیا: (أبوک) ’’تیرا باپ ہے‘‘ (بخاری ومسلم)۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا﴾ [التحريم:6]
’’ اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ‘‘۔[سورہ تحریم:۶]
ماں ،باپ،استاد اور سوسائٹی کا ہر فرد اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے نسل انسانی کی تربیت کے بارے میں جواب دہ ہے، ان لوگوں نے اگرنسل انسانی کو حسن تربیت سے آراستہ کردیا ہوگا تو اس کی سعادت مندی کے ساتھ ساتھ ا ن لوگوں کو بھی دنیا وآخرت میں سرخروئی حاصل ہوجائے گی اور اگر اس کی تربیت کے سلسلہ میں ذرہ برابر بھی ان کی جانب سے کسی قسم کی کوتاہی کا ارتکاب ہوا ہوگا تو نسل انسانی کی شقاوت وبدبختی کا بوجھ ان سب کی گردنوں پر ہوگا یہی وہ بات ہے جس کو حدیث شریف میں یوبیان کیا گیا ہے:
(كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ)(متفق عليه)
’’تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ونگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیّت کے بارے میں باز پرس ہوگی‘‘۔(متفق علیہ)
پس وہ شخص جس نے اپنے آپ کو دوسروں کی تعلیم وتربیت پر لگا رکھا ہے اس کے لیے رسولﷺ کے اس فرمان میں بشارت وخوشخبری کی نوید ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:
(فَوَاللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَم)
’’اللہ کی قسم! اگر تمہارے ذریعہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کو بھی ہدایت دیدے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں (کی دولت) سے بہتر ہے‘‘۔(اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے)
اور والدین کے لیے بھی رسولﷺ کی مندرجہ ذیل صحیح حدیث میں بشارت سنائی گئی ہے:
(إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ، صَدَقَةٌ جَارِيَةٌ، وَعِلْمٌ يُنْتَفَعُ بِهِ، وَوَلَدٌ صَالِحٌ يَدْعُو لَهُ)
’’جب انسان کو موت آلیتی ہے تو ہرقسم کے عمل کا تعلّق اس سے کٹ جاتا ہے ،مگرتین قسم کے اعمال ایسے ہیں جن سے اس کو برابر ثواب پہنچتا رہتا ہے اور وہ یہ ہیں :
۱۔صدقہ جاریہ
۲۔علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں
۳۔نیک اولاد جو اس کے لئے دعائے خیر کرتی رہے‘‘۔
اوردوسروں کی تربیت کے فریضہ کو سر انجام دینے والوں کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اس اصلاحی کام کی ابتدا اپنے آپ سے کریں۔اس لئے کہ بچوں کی نظر میں اچھائی صرف وہ ہے جس کو والدین اور اساتذہ سَرانجام دیتے ہیں اورہروہ چیز ان کی نگاہ میں گھٹیا ہے جس کے ارتکاب سے والدین اور اساتذۃ احتراز کرتے ہیں اور بلاشبہ استاد اور والدین کا بچوں کے سامنے اعلیٰ کردار پیش کرنا ان کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
بچوں کی تربیت کے ضمن میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیے:
۱۔بچے کو چھوٹی عمر میں ہی کلمۂ لاالہ الا اللہ،محمد رسول اللہ کی صحیح ادائیگی کی تعلیم دینی چاہیے اور جب اس کی عمر بڑی ہوجائے تو مذکورہ کلمۂ طیبہ کا یہ معنیٰ ومفہوم اس کےذہن نشین کرانا چاہیے کہ’’اللہ کے سوا کائنات میں کوئی سچا معبود نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں‘‘۔
۲۔اللہ تعالیٰ کی محبّت اور اس کے ساتھ ایمان کے بیج کو بچپن ہی سے بچے کے دل میں بو دینا چاہیے اور یہ بات اس کے ذہن میں بیٹھادی جائے کہ اللہ تعالیٰ ہی تو ہے جو صرف اکیلا بغیر کسی معاون کے ہمیں پیدا کرنے والا،ہمارا روزی رساں اور پیش آنے والی مشکلات میں ہماری مدد فرمانے والا ہے۔
۳۔بچوں کے دل میں جنّت کے حصول کا شوق پیدا کرنا نہایت ضروری ہے اور اس سلسلے میں ان کو یہ بتایا جائے کہ جنّت صرف اس کو ملے گی جو نماز ادا کرے،روزہ رکھے اور اپنے والدین کی اطاعت وفرمانبرداری کرے اور ہر وہ کام بجالائے جس کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہوں ۔
اسی طرح ان کے دلوں میں جہنم کی آگ کی ہولناکیوں اور وحشتوں کا بھی خوف پیدا کرنا ضروری ہے اور یہ بات ان کے علم میں لانی چاہیے کہ جہنم میں صرف وہ شخص ہی جھونکا جائے گا جو نماز کی ادائیگی سے غفلت کا شکار ہوا۔والدین کی نافرمانی کی، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لیا،اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کو چھوڑ کرانسانوں کے وضع کردہ نظاموں سے رہنمائی حاصل کی اور دھوکا ،جھوٹ،سود اور دیگر ناجائز ذرائع سے لوگوں کے مالوں کو ہڑپ کیا۔
۴۔نبی اکرم ﷺ نے اپنے چچیرے بھائی کو تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:
(إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ)
’’جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو‘‘۔(اسے ترمذی نے روایت کرکے حسن صحیح کہا ہے)
مندرجہ بالا حدیث کے مطابق بچوں کو اس بات کی تعلیم دینی چاہیے کہ وہ اپنی تمام ضروریات اللہ تعالیٰ کے سامنے ہی پیش کریں اور مشکلات میں پھنس جانے کی صورت میں صرف اسی کے حضور اپنے ہاتھ پھیلائیں۔
۱۔ لڑکا ہویا لڑکی دونوں کے لیے نماز کی تعلیم وتربیت کی ابتدابچپن ہی سے کردینی چاہیے تاکہ وہ بڑے ہوکر نماز کو پابندی کے ساتھ ادا کرنے کے عادی بن سکیں،یہ وہ بات ہے جس کو نبی اکرمﷺ نے ایک صحیح حدیث میں یوں ارشاد فرمایا ہے:
(عَلّمُوا أولادَكَم الصَّلاةَ إذا بَلغُوا سَبْعاً، واضْربُوهم عَليهَا إذا بلغُوا عَشراً، وفَرِّقوا بَينهُم في المَضاجِع)(صحيح،رواه أحمد)
’’تمہارے بچے جب سات سال کی عمر کو پہنچ جائیں توان کو نماز پڑھنا سکھاؤ،اور دس سال کی عمر کو پہنچ کر اگر وہ نماز میں کوتاہی برتیں تو ان پر سختی کرو اور عمر کے اس حصّہ کو پہنچنے کے بعد ا ن کی خواب گاہیں الگ کردو‘‘۔(اسے احمد نے روایت کیا ہے،اور یہ صحیح ہے)
اس سلسلہ میں خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے کے لیے والدین اور استاد کو چاہیےکہ وہ بچوں کے سامنے وضو کرکے نماز ادا کریں تاکہ بچے ان کو دیکھ کر وضو کرنے اور نماز پڑھنے کے صحیح طریقہ سے واقف ہوسکیں۔
اس کے علاوہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو اپنے ساتھ مسجد میں لے جایا کریں اور گھر میں احکام نماز پر مشتمل کوئی کتاب لاکر رکھیں جس کے پڑھنے کا انہیں برابر شوق دلاتے رہیں تاکہ اس کتاب کے مطالعہ سے گھر کے تمام افراد نماز کے احکام سے متعلق ضروری معلومات حاصل کرسکیں۔
اور یاد رکھیں کہ نماز کی تعلیم کے ضمن میں والدین یا استاد کی طرف سے جوبھی کوتاہی سرزد ہوگی اس سے متعلق ان کو بہرحال اللہ بزرگ وبرتر کے ہاں جواب دینا ہوگا۔
۲۔ بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دینا بھی ضرور ی ہے،چونکہ قرآن پاک کی تلاوت نماز میں کی جاتی ہے اس لیے ابتدا میں سورہ فاتحہ کے ساتھ چھوٹی چھوٹی اور تشہد (التحیات للہ) بچوں کو زبانی یاد کروانا چاہیے ،بچوں کے لیے کسی ایسے ٹیوٹر کا اہتمام بھی کرنا چاہیے جس سے وہ تجوید ،حفظ قرآن اور حدیث شریف کی تعلیم حاصل کرسکیں۔
۳۔نمازِ جمعہ اور دوسری تمام نمازوں کومسجد میں مردوں کی صف سے پچھلی صف میں کھڑے ہوکرادا کرنے کا شوق بچوں کے دلوں میں پیدا کرنا چاہیے اور اگر کبھی کبھار ان سے کوئی کوتا ہی ہوجائے تو ڈانٹ ڈپٹ اور سختی کا مظاہر ہ کرکے ان کوذہنی اذیّت میں مبتلا کرنے کی نہایت شفقت ومحبّت کے ساتھ ان کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی جانی چاہیے تاکہ ایسا نہ ہو کہ ہماری سختی کے نتیجہ میں وہ سرے سے نماز پڑھنا ہی چھوڑدیں اور ہم ثواب کی امید رکھے رکھے الٹا گنہگار ٹہرجائیں۔اگرہم ایسے موقع پر اپنے بچپن کے زمانہ میں کھیل کود کے شوق کو یاد کرلیا کریں تو ان بچوں کے عذر کو سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی۔
۴۔سات سال کی عمر سے ہی بچوں کو روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے تاکہ جب وہ بلوغت کی عمر کو پہنچیں تو روزہ ان کی معمول کی زندگی کا حصّہ بن چکا ہو۔
بچوں کو کفر کے ارتکاب ،گالی گلوچ،لعن طعن،بکواس اور فضول وگھٹیا قسم کی گفتگو کرنے سے خبردار کرتے رہنا چاہیے اور نہایت شفقت وپیار کے انداز میں ان کو یہ باور کرانا چاہیے کہ کفرکا راستہ انسان کے لیے تباہی وبربادی کا راستہ ہے۔یہ اس کو جہنم تک پہنچا کر ہی دم لیتا ہے،ہم بڑوں کو بھی چاہیے کہ ہم ان کے سامنے اپنی زبان کا استعمال نہایت محتاط انداز سے کریں تاکہ ہماری شخصیت ان کے لیے ایک مثالی انسان کی حیثیت اختیار کرسکے۔
۲۔ہر وہ کھیل جسے جوئے کی مختلف شکلوں میں کھیلا جاتا ہے اس کے انجام بد سے بچوں کو آگاہ کرنا چاہیے،خواہ یہ کھیل ’’لاٹری‘‘ کی شکل میں ہو یا ’’کیرم بورڈ‘‘ کی شکل میں،اور چاہے یہ کھیل محض تفریح طبع اور وقت گزاری کے لیے ہی کیوں نہ کھیلاجارہا ہو اس لئے کہ ایسے کھیل کی ابتدا توشاید دل بہلانے کی غرض سے ہو لیکن آخر کار اس سے ان کو باقاعدہ شرطیں لگا کر جُوا کھیلنے کی عادت بھی پڑسکتی ہے اور جُو ایسا برا کھیل ہے جوآپس میں دشمنیوں کو جنم دیتا ہے اور انسانی زندگی کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرتا ہے۔ جوئے کا یہ کھیل مال اور وقت کے ضیاع کا باعث بھی ہوتا ہے یہاں تک کہ نمازیں بھی اس کی نذرہوجاتی ہیں۔
۳۔فحش،جنسی لٹریچر اور جاسوسی ناولوں کے پڑھنے ،عریاں تصاویر سے لطف اندوز ہونے سے بچوں کو سختی سے روکنا چاہیے،یہی نہیں بلکہ ان کو اخلاق باختہ قسم کی فلموں کو سینما گھروں میں جاکر یا ٹی وی پر دیکھنے سے بھی باز کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے ان کے اخلاق پر منفی اثرات مرتّب ہوں گے اور ان کا مستقبل تباہ وبرباد ہوجائے گا۔
۴۔ بچے کو سگریٹ نوشی کے اثرات بد سے بھی آگاہ کرنا چاہیے اور یہ بات اس کو ذہن نشین کرانی چاہیے کہ دنیا بھر کے حکماء اور اطباء اس بات پر متفق ہیں کہ سگریٹ نوشی انسانی جسم کے لیے نقصان دہ ہے اس عادت سے جسم کینسر جیسی مہلک بیماری سے دوچار ہوجاتا ہے۔اس سے دانتوں کی بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں اور ہروقت منہ سے بدبو اٹھتی رہتی ہے۔سگریٹ نوشی کی وجہ سے سینے کا اندرونی نظام درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے اور جب سگریٹ نوشی کا سرے سے کوئی فائدہ ہی نہیں، بلکہ اس کا وجود انسانی زندگی کے لیے سراسر نقصان ہی کا باعث بنتا ہے تو اس کا استعمال کرنا اور بیچنا حرام ٹہرتا ہے۔سگریٹ نوشی سے روکنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو پھل فروٹ اور دیگر اچھی اچھی خوش ذائقہ مفید چیزیں استعمال میں لانے کی ضرورت پر زور دینا چاہیے۔
۵۔ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم بچوں کو قولی وعملی اعتبار سے سچائی کا عادی بنائیں اور اس کے لیے ضروری ہوگا کہ ہم ان کےساتھ ہنسی ومذاق کے انداز میں بھی جھوٹ بولنے سے گریز کریں چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے:
(مَنْ قَالَ لِصَبِيٍّ: تَعَالَ هَاكَ(خُذْ)، ثُمَّ لَمْ يُعْطِهِ شَيْئًا، فَهِيَ كِذْبَةٌ)(صحيح ،رواه أحمد)
’’جس نے بچے کو کوئی چیز دینے کا بہانہ کرکے بلایا اور پھر وہ چیز اس کو نہ دی تو اس کا یہ عمل اس کے اعمال نامہ میں جھوٹ کے طور پر لکھا جائے گا‘‘۔(اسے احمد نے روایت کیا ہے،اور یہ حدیث صحیح ہے)
۶۔ رشوت،سود،چوری اور دھوکا دہی کے ذریعہ کمائے ہوئے حرام مال سے اپنی اولاد کا پیٹ بھرنے سے ہمیں ہرصورت میں احتراز کرنا ہوگا ایسی خوراک ان کی شقاوت وبدبختی کا جہاں باعث بنے گی وہاں ان میں نافرمانی وسرکشی کے جراثیم کو بھی جنم دے گی۔
۷۔کسی صورت میں بھی بچوں کے لیے اپنی زبان سے ان کے تباہ وبرباد ہونے یا غیظ وغضب کا نشانہ بننے کے لیے بد دعانہ کریں،اس لیے کہ کوئی گھڑی ایسی بھی ہوتی ہے جس میں جو بھی دعا یا بددعا کی جاتی ہے اس کو اللہ تعالیٰ فوراً قبول فرمالیتے ہیں۔اس کے علاوہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس قسم کا رویّہ بچوں کو مزید گمراہی وسرکشی کے رستہ پر دھکیل دیتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ہم ایسے حالات میں ان کے لیے بد دعا کرنے کی بجائے ان کے حق میں یہ دعائیہ کلمات کہیں:
(أصْلَحَكَ اللہُ) یعنی اللہ کرے کہ تو راہ راست پر آجائے۔
۸۔ بچوں کو شرک باللہ کے مہلک اثرات سے بھی خبردار کرنا چاہیے اور ان کو بتانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر فوت شدہ لوگوں کے سامنے اپنی حاجات کے لیے التجائیں کرنا اور مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے غیراللہ کو پکارنا شرک ہے کیونکہ وہ تمام لوگ جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے وہ محض اللہ کے بندے ہیں اور وہ نفع ونقصان کے قطعاً مالک نہیں ہیں،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ﴾[يونس:106]
’’ اور اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرنا جو تجھ کو نہ کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی ضرر پہنچا سکے۔ پھر اگر ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے‘‘[سورہ یونس:۱۰۶]
۱۔لڑکی کو بچپن ہی سے اپنے جسم کو ڈھانپ کر رکھنے کی تلقین کرنا ضروری ہے تاکہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے تک وہ ساتر لباس پہننے کی عادی ہو چکی ہو۔ والدین کو چاہیے کہ ان کو چھوٹی عمر ہی سے تنگ ومختصر قسم کا لباس پہنانے سے گریز کریں اور شرٹ وپتلون پر مشتمل لباس ان کو ہر گز لا کرنہ دیں۔ اس لئے کہ ایسا لباس مردوں کے لباس سے ملتا جلتا ہے اور مزید برآں نوجوان طبقہ کے بگاڑ اور فساد کا بھی باعث بنتا ہے اور بچی جب سات سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اسے دوپٹّہ یا رومال وغیرہ سے سر کو ڈھانپ کر رکھنے کی تلقین کرنی چاہیے اور جونہی وہ بلوغت کی عمرکو پہنچے تو اسےاپنے چہرہ کو چھپا کر رکھنے کی ہدایت کرنی چاہیے۔ اور اس سے کہا جائے کہ وہ عمر کے اس حصہ میں اپنے جسم کو چھپانے کے لیے ایک ایسا سیاہ رنگ کا لمبا،کھلا اور ساتر قسم کا لباس (بڑی چادر یا برقعہ) زیب تن کرے جو اس کی شرافت کا نگہبان اور اس کی شرم وحیا کا محافظ ہو، اور یہی وہ عظیم مقاصد ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن کریم تمام مومن عورتوں کو حجاب کی پابندی اختیار کرنے کی دعوت ان الفاظ میں دے رہی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾[الأحزاب:59]
’’اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتیں سے کہہ دو کہ وه اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں، اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی، اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے‘‘[سورہ احزاب:۵۹]
اور اللہ تعالیٰ مومنہ عورتوں کو بے پردگی اور بے جا زیب وزینت کے اختیار کرنے سے روکتے ہوئے یوں ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ﴾[الأحزاب:33]
’’اورسابقہ دور جاہلیت کی سج دھج کے ساتھ ظاہر نہ ہوں‘‘۔[سورہ احزاب:۳۳]
۲۔لڑکی ہو یا لڑکا ہر ایک کو اس بات کی تلقین کرنی چاہیے کہ وہ اپنی جنس کے لیے بنا ہوا خاص لباس ہی استعمال کرے تا کہ وہ دوسری جنس کے افراد کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے محفوظ رہ سکے اس کے علاوہ بچوں کو اس بات کی بھی ہدایت کرنی چاہیے کہ وہ غیر مسلم قوموں کے ایجاد کردہ تنگ پتلون ایسے لباس، یونیفارم اور اخلاق باختہ فیشنوں سے اپنے آپ کو بچائیں،کیونکہ وہ لوگ جو اس قسم کے کاموں کا ارتکاب کرتے ہیں ان کے لیے حدیث میں سخت وعید آئی ہے، نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:
(لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت بھیجی جو عورتوں جیسا چال چلن اختیار کریں اور ان عورتوں پر لعنت بھیجی جو مردوں جیسا چال چلن اختیار کریں‘‘۔(اسے بخاری نے روایت کیا ہے)
اور بخاری ہی کی دوسری روایت میں ہے: (لَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُخَنَّثِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالْمُتَرَجِّلَاتِ مِنَ النِّسَاءِ)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخنث مردوں پر اور مردوں کی چال چلن اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی‘‘۔
ایک اور حدیث میں آپﷺ یوں ارشاد فرماتے ہیں:
(مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ) (صحيح،رواه أبوداود)
’’یعنی جو شخص کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے گا وہ ان ہی کا ایک فردسمجھا جائے گا‘‘۔(حدیث صحیح ہے،اسے ابوداود نے روایت کیا ہے)
۱۔اسلامی تعلیمات کے مطابق ہمیں بچے کو اس بات کا عادی بنانا چاہیے کہ وہ کسی چیز کو لینے،دینے ،کھانے ،پینے اور اسی طرح لکھائی کرتے ہوئے اور مہمان کی میزبانی کے فرائض ادا کرتے وقت اپنا دایاں ہاتھ استعمال کرے، اس کے علاوہ اس کو اس کی بھی ہدایت کرنی چاہیے کہ وہ ہر کام شروع کرتے وقت (بسم اللہ) ضرور پڑھا کرے اور خاص طور پر کھانا کھانے یا پانی وغیرہ پینے سے پہلے اس کا ضرور خیال رکھے، اور اس کو اس بات کی بھی تلقین کرنی چاہیے کہ وہ جب کھانا کھائے تو بیٹھ کرکھائے اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد (الحمد للہ) ضرور پڑھا کرے۔
۲۔بچے کو نظافت وپاکیزگی کا عادی بنانا چاہیے ،اس کو بتایاجائے کہ وہ باقاعدگی سے اپنے ناخن اتارا کرے، کھانا کھانے سے پہلے اور اس سے فارغ ہونے کے بعد اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح دھویا کرے،اس کے علاوہ اس کو استنجا کرنے کی تعلیم بھی دی جائے اور یہ بات اس کے علم میں لائی جائے کہ جب وہ قضائے حاجت سے فارغ ہوجائے تو ٹشوپیپر(Tissue Paper) یا پانی سے اچھی طرح صفائی کرے،کیونکہ اس طرح اس کی نماز بھی درست ہوگی اور کپڑے بھی ناپاک ہونے سے محفوظ رہیں گے۔
۳۔ہمیں بچوں کو نصیحت بڑی نرمی کے ساتھ علیحدگی میں کرنی چاہیے اور کسی کو تاہی کی وجہ سے دوسروں کے سامنے ان کی سرزنش کرکے ان کو رسوا کرنے سے گریز کرنا چاہیے ،اور اگر کبھی کبھار وہ روکنے کے باوجود نافرمانی کے راستہ پر چلنے سے باز نہ آئیں تو ان کے ساتھ ناراضگی کے اظہار کے لیے تین دن تک گفتگو کرنا چھوڑدیں اور تین دن کی شرط اس لئے ہے کہ تین دن سے زیادہ ناراضگی شرعاً جائز نہیں ہے۔
۳۔بچوں کو خاموشی کے ساتھ اذان سننے اور موذّن کے ساتھ جواب میں انہی کلمات کو دہرانے کے لیے کہا جائے اور جب اذان ختم ہوجائے تو نبی کریم ﷺ پر درود وشریف پڑھنے کے بعد مندرجہ ذیل دعائے وسیلہ پڑھنے کی ہدایت کی جائے:
(اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ ،وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ)(رواه البخاري)
’’اے اللہ!اس پوری پکار کے رب اور کھڑی ہونے والی نماز کے مالک! محمدﷺ کو مقام وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور آپ کو (شفاعت کے) مقام محمود پر سرفراز فرما جس کا تونے ان سے وعدہ کر رکھا ہے۔
۵۔اگر ممکن ہو تو ہمیں ہر بچے کے لیے علیحدہ بستر کا انتظام کرنا چاہیے ورنہ ہر ایک کے لیے کم ازکم علیحدہ لحاف تو ضرور ہونا چاہیے اور اگر گھر میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ کمروں کا بندوبست ہوجائے تو یہ بہت ہی بہتر ہوگا ،یہ طریقٔہ کار یقیناً ان کے اخلاق کی درستگی اور ان کی صحت کی حفاظت کا ضامن ہوگا۔
۶۔بچے کو اس بات کی عادت ڈالی جائے کہ راستے میں کسی گندی چیز کے پھینکنے سے باز رہے بلکہ اگر وہاں کوئی ایسی چیز ہو تو اس کو ہٹادیا کرے۔
۷۔ غلط کار دوستوں کی رفاقت کے اثراتِ بد سے بچوں کو آگاہ کیا جانا چاہیے اور بازار اور گلیوں میں فضول کھڑے رہنے سے ا ن کو روکا جائے اور اس کے لیے ان کی کڑی نگرانی ہونی چاہیے۔
۸۔جب بھی بچوں کے ساتھ آپ کا آمنا سامنا ہو چاہے گھر کے اندر ہو یا سرراہ پر،یا کلاس روم میں ۔۔۔ تو آپ ان کو مندرجہ ذیل الفاظ میں سلام کہیں(السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ) یعنی تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی،اس کی رحمت اور اس کی برکات نازل ہوں۔
۹۔بچے کو اس بات کی تلقین کررتے رہیے کہ وہ پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے اور اپنی کسی حرکت سے ان کا دل نہ دکھائے۔
۱۰۔بچے کو ایسی عادت ڈالیں کہ وہ مہمان کی عزّت وتکریم میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے ،اور اس کی خدمت وتواضع میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرے۔
۱۔جہاد کے نقطۂ نگاہ سے اگر بچوں کی تربیت کرنا مقصود ہو تو گھر کے سربراہ کو تمام افراد خانہ کے ساتھ اور استاد کو اپنے شاگردوں کے ساتھ گاہے بگاہے مل بیٹھنے کا کوئی پروگرام ترتیب دیتے رہنا چاہیے جس میں و ہ سیرتِ رسولﷺ اور حیاتِ صحابہ کے موضوع پر لکھی ہوئی کسی کتاب کو تسلسل وباقاعدگی کے ساتھ پڑھا کریں۔ اس سے ان کو اس بات کا اندازہ لگانے میں رہنمائی حاصل ہوگی کہ نبی کریمﷺ ایک بہادر اور نڈر سپہ سالا ر ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت اعلیٰ عسکری وقائدانہ صلاحیتوں کے مالک تھے، اور حضرات ابوبکر،عمر،عثمان،علی،معاویہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمارے علاقوں کو فتح کرکے ان پر اسلام کے عَلم کو سربلند کیا اور ہمیں ان کی وجہ سے ہی ایمان ورشد کی دولت نصیب ہوئی۔اس موقع پر جوبات ان کے ذہنوں میں اچھی طرح بٹھانی چاہیے وہ یہ ہے کہ ان صحابہ کرام کی کامرانی کا تمام تر انحصار صرف اس بات پر تھا کہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی ذات پر پختہ ایمان سے آباد اور جذبہ جہاد سے سرشار تھے۔ انہوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں قرآن وسنّت کو عملی طور پر نافذ کررکھا تھا اور نہایت بلند پایہ اخلاق کے مالک تھے۔
۲۔بچوں کی تربیت اس نہج پر ہونی چاہیے کہ وہ بڑے ہوکر بہادر بنیں۔نیکی کو پھیلانے اور برائی کا قلع قمع کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والے ہوں اور ان کے دل اللہ تعالیٰ کے خوف کے سوا ہر قسم کے خوف سے آزاد ہوجائیں،ایسی تربیت کے پیش نظر ضروری ہوگا کہ بچوں کو جھوٹے ،خیالی اور بے سروپا قصے ،کہانیاں سنا سنا کر خوف زدہ کرنے سے سختی کےساتھ احتراز کیا جائے۔
۳۔دشمنان اسلام خاص کر صیہونی امّت اسلامیہ پر جو مظالم ڈھا رہے ہیں اس کے خلاف بچوں کے دلوں میں انتقام کے جذبہ کو ابھارنا چاہیے اور ان کو یہ باور کرانا چاہیے کہ فلسطین وقدس شریف کی آزادی کے لیے امّت اسلامیہ کی نگاہیں اپنے انہی نوجوانون پر لگی ہوئی ہیں اور ایک دن آئے گا جب اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے کامیابی ہمارے ان نوجوانوں کے قدم چومے گی ،لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائیں اور جہاد فی سبیل اللہ کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیں۔
۴۔بچوں کے عام مطالعہ کے لیے ایسے کتابچے خرید کئے جائیں جو اسلامی تاریخ کے ان اہم واقعات وحوادث پر مشتمل ہوں جن کا پڑھنا بچوں کی اسلامی نہج پر تربیت کے حوالہ سے مفید ومعاون ثابت ہوسکتا ہو۔اس ضمن میں قرآنی قصص،سیرت طیبہ کے واقعات ،مایہ ناز نڈر صحابہ کے حالاتِ زندگی اور قابل فخر بہادر مسلم قائدین کے کارناموں پر روشنی ڈالنےوالی سلسلہ وار چھوٹی چھوٹی کتابیں بڑا اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ چنانچہ شمائل محمدی،اخلاق نبوی،ادب اسلامی اور ’’عقیدہ کتا ب وسنت کی روشنی میں‘‘ اور اس قسم کی دیگرکتابوں کے مطالعہ سے بچوں کی تربیت کے ضمن میں بڑے دو ر رس نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
نوٹ:۔ یہ دونوں کتابیں فضیلۃ الشیخ محمد جمیل زینو حفظہ اللہ کی مشہور تصنیفات میں سے ہیں ،اور یہ دونوں اردو ترجمہ کے ساتھ منصۂ شہود پر آچکی ہیں اور یاد رہے کہ پہلی کتاب ’’شمائل محمدی ‘‘ کے نام سے جامعہ تعلیم القرآن والحدیث للبنات،گوجرانوالہ کی طرف سے چھپواکر مفت تقسیم کی جاچکی ہے [مترجم]
(عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ تَصَدَّقَ عَلَيَّ أَبِي بِبَعْضِ مَالِهِ فَقَالَتْ أُمِّي عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ لَا أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقَ أَبِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُشْهِدَهُ عَلَى صَدَقَتِي فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفَعَلْتَ هَذَا بِوَلَدِكَ كُلِّهِمْ قَالَ لَا قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا فِي أَوْلَادِكُمْ فَرَجَعَ أَبِي فَرَدَّ تِلْكَ الصَّدَقَةَ) (متفق عليه)
ا۔ نعمان بن بشیر(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میرے باپ نے مجھے اپنے مال کا کچھ حصّہ عنایت کیا تو میری والدہ (عمیرہ بنت رواحہ) نے میرے والد سے کہا کہ مجھے تب تک خوشی نہ ہوگی جب تک کہ آپ اس پر رسولﷺ کو گواہ نہیں بنالیتے، تو میرے والد رسالت مآب ﷺ کے پاس اپنے مالی عطیہ پر گواہ بنانے کے لیے حاضر ہوئے۔نبی رحمتﷺ نے میرے والد سے پوچھا: کیا تم نے عطیہ دینے میں اپنے تمام بچوں کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا ہے؟ میرے والد نے جواب دیا: نہیں، آپ نے فرمایا: ’’اللہ کا خوف کھاؤاور اپنے بچوں کے درمیان عدل وانصاف کے رویہ کو اپناؤ‘‘۔(بخاری ومسلم)
دوسری روایت میں اس طرح ہے:
(فَلَا تُشْهِدْنِي إذًا ، فَإِنِّي لَا أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ) (أخرجه مسلم والنسائي)
رسالت مآب ﷺ نے فرمایا :اگر معاملہ کی نوعیت ایسی ہی ہے تو پھر مجھے اس پر گواہ مت بناؤ،کیونکہ میں ظلم وزیادتی پر گواہ نہیں بنوں گا‘‘۔(مسلم،نسائی)
۲۔آپ اپنے بچوں کو جب عطیّات سے نواز رہے ہوں یا ان کے نام وصیّت کررہے ہوں تو ہرحالت میں آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ان کے درمیان عدل وانصاف کی فضا کو برقرار رکھنے کے لیے ان سب کے ساتھ مساویانہ اور غیر امتیازی سلوک کریں۔اور ورثا میں سے کسی ایک وارث کو بھی اس کے حق سے محروم کرنے کی ہرگز کوشش نہ کریں،بلکہ آپ کو چاہیے کہ آپ وراثت کے باب میں خالق دو عالم کی اس تقسیم کوبرضا ورغبت تسلیم کرلیں جس کے تحت اس نے ورثا کے مختلف حصص مقرر کررکھے ہیں۔اور اس بات کا خاص طور پر خیال رکھیں کہ آپ ذاتی پسند وناپسند آپ کو کسی طور بھی حق کے راستے سے برگشتہ کرنے میں کامیاب نہ ہونے پائے۔اور کسی وارث کے ساتھ آپ کی ذاتی دلچسپی اس حد تک بھی آپ کو متاثّر نہ کردے کہ آپ عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی بجائے ظلم وزیادتی کی راہ اختیا ر کربیٹھیں ،کیونکہ اگرآپ اس قسم کے جرم کے مرتکب ہوئے تو یقیناً آپ کا یہ طرزِ عمل اپنےآپ کو اپنے ہی ہاتھوں جہنم کی دھکتی ہوئی آگ میں جھونکنے کے مترادف ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں کتنے ہی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو راہِ حق سے انحراف کرکے اپنی دولت اپنے بعض ورثاء کے نام تو کربیٹھے لیکن اس کے نتیجے کے طور پر ورثاء کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کینہ وبغض کی نہ بجھنے والی ایسی آگ بھڑک اٹھی جسے ٹھنڈا کرنے کے لیے انہیں مجبورا عدالتوں کے چکّر کاٹنے پڑے،جہاں انہوں نے انصاف کی تلاش میں افسران اور وکلاء پر اپنی دولت کا بلا دریغ استعمال کیا،لیکن اس سعی لا حاصل کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنی رہی سہی دولت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔
اسلامی نقطۂ نگا ہ سے نوجوان نسل کو درپیش مسائل کی دلدل سے نکال کر جادۂ حق پر لاکھڑا کرنے کا بہترین حل ان کو بروقت مناسب رشتہ ازدواج میں منسلک کردینا ہے بشرطیکہ ان کو وہ تمام اسباب میسّر آجائیں جن کو بروئے کار لا کر وہ شادی کے موقع پرحق مہر وغیرہ کی شکل میں اٹھنے والےاخراجات کو برداشت کرنے کے قائل ہوسکیں۔اس سلسلہ میں ارشاد نبوی ہے:
(يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ)(متفق عليه)
’’اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جس کسی کو شادی کے اخراجات برداشت کرنے کی ہمّت ہو اسے شادی کرلینی چاہیے ،کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ نکاح آنکھوں میں شرم وحیا کے پیدا کرنے اور ستر کی صیانت وحفاظت کا اہم وسیلہ ہے،اور جو شخص شادی کے اخراجات برداشت کرنے کی ہمّت نہ پارہا ہو اس کو چاہیے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ ان حالات میں اس کے لیے حیوانی خواہشات وجذبات پر قابو پانے کا بہترین ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے‘‘۔
اور بعض لوگ محض تعلیمی سلسلہ کے منقطع ہوجانے کے خوف کے پیش نظر شادی کرنے میں تاخیر کردیتے ہیں،حالانکہ شادی تعلیم کے جاری رکھنے میں قطعاً کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتی ،کیونکہ اگر نوجوان کا تعلّق کسی کھاتے پیتے گھرانے سے ہوگا اور اس کی جملہ ضرورتوں کو پورا کرنے کی ذمہ داری اس کے والد نے اٹھا رکھی ہوگی تو پھر بھلا اس صورت میں شادی تعلیم کے سلسلہ کو جاری رکھنے میں کیونکر رکاوٹ بن سکتی ہے۔اسی طرح اگر وہ بذات خود صاحبِ حیثیت ہو یا اس کے برسر روزگار ہونے کی وجہ سے اسے معقول آمدنی حاصل ہورہی ہو تو بھی شادی اس کی علمی ترقی کی راہ میں ہرگز حائل نہیں ہوسکتی ۔
لہذا صاحبِ حیثیت اور خوش حال والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کے سنّ بلوغت کو پہنچتے ہی بلا تاخیر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اس کی شادی کردیں،کیونکہ اس کو شادی کے مقدّس اور ذمہ دارانہ بندھن میں باندھ کراس کے اوقات کو مصروف کردینا اس سے کہیں بہترہے کہ وہ بوجہ تجرّد فحاشی وبے حیائی کے اڈوں پر منہ کالا کرکے والدین کی نیک نامی،شرافت اور شہرت کو زمانے بھر میں داغ دار کرتا پھرے۔
پس ایسے والدین جن کے بچے سنّ بلوغت کو پہنچ جائیں اور وہ توانگری ومالداری کے باوجود ان کی شادی کی طرف دھیان نہیں دیتے وہ اس صورت میں صرف اپنے بچوں کے ساتھ ہی زیادتی کا ارتکاب نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے آپ پر بھی ظلم ڈھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔
اگر والدین کی یہ حالت ہو کہ وہ خوش حالی وفراخی کے باوجود بھی بچوں کی بروقت شادی کرنے سے صَرف نظر کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہوں تو اس صورت میں اگر بچوں کی طرف سے حسن طلب کے ساتھ والدین کی توجہ اس جانب مبذول کرادی جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔بشرطیکہ اظہار مقصد کے لیے نہایت شائستہ اور مہذّب پیرایہ وانداز اختیار کیا جائے اور ان کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے برتاؤ کا رویّہ اختیار کرتے ہوئے ہر اس بات سے گریز کرنے کی کوشش کی جائے جو ان کے لیے دلی صدمہ اور ذہنی اذیّت کا باعث بن سکتی ہو۔
اور یہ اصولی بات تو ہرشخص کو اپنے ذہن میں اچھی طرح جاگزیں کرلینی چاہیے کہ ربّ کائنات نے اس وقت تک کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا جب تک کہ اس کی جگہ کسی دوسری چیز کو اس کے متبادل کے طور پر جائز قرارنہ دے دیا گیا ہو۔ مثال کے طور پر دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ نےجہاں سود کو نا جائز قراردیا ہے وہاں اس کی جگہ اس کے متبادل کے طور پر تجارت کو جائز ومباح ٹہرایا ہے۔اسی طرح حیوانی جذبوں کی تسکین کےلیے اگر بدکاری کو ممنوع قراردیا ہے تو اس کے لیے نکاح کے جائز ذریعہ کو اختیار کرنے کاحکم دیا ہے۔ اور یہ نکاح ہی ہے جس میں نوجوان طبقہ کے اکثر وبیشتر مسائل کا حل پوشیدہ رکھا گیا ہے۔
اور اگر کسی نوجوان کے لیے اس کی مالی کمزور پوزیشن کے باعث نکاح کرنا ممکن نہ رہے تو اس صورت میں اس کے مسئلہ کا حل درج ذیل ہے:
۱۔احکام شریعت کی پابندی کے ساتھ روزے رکھنا۔
گزشتہ سطور میں گزرنے والی حدیث کے ٹکڑے(وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ)
’’یعنی جو شخص نکاح کے اخراجات برداشت کرنے کی ہمّت نہ پاتا ہو اس کو روزے رکھنے چاہئیں،کیونکہ روزہ اس کے حیوانی جذبات کو گھٹانے اور ان پر قابو پانے کا اہم ذریعہ ہے‘‘ کی روشنی میں اسلامی قوانین واحکام کی پاسداری کے ساتھ روزے نہ صرف نوجوان طبقہ کے مسائل کا بہترین حل ثابت ہوسکتے ہیں بلکہ ان کی جوانی وصحت کی حفاظت کی ضمانت فراہم کرنے میں بھی بڑا فعّال کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اور روزہ صرف کھانے پینے والی چیزوں سے ہاتھ کو اٹھا لینے اور ان کے استعمال سے رُک جانے کا ہی نام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرام کی گئی تمام چیزوں کی جانب نگاہ تک بھی اٹھا کر دیکھنے سے احتراز برتنا،اجنبی عورتوں کے ساتھ اختلاط ومیل جول سے پرہیز کرنا، حیوانی جذبات میں ہلچل مچا دینے والی فلموں کے دیکھنے سے اپنی نگاہوں کو بچانا اور ٹی وی وغیرہ پر پیش کیے جانے والے بیہودہ وفحش قسم کے سلسلہ وار فیچرز اور جنسی ڈراموں سے لطف اندوز ہونے سے مکمّل طورپر بچتے رہنا روزہ کے آداب میں شامل ہے۔
پس ہر نوجوان کو چاہیے کہ وہ اپنی نگاہوں کو اجنبی عورتوں کو دیکھنے سے بچائے، اور اس بات کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلے کہ صحت وتندرستی کا انحصار صرف اور صرف عفّت وپاکدامنی کا رستہ اختیار کرنے میں ہے۔اور وہ تمام مصائب وآلام جو انسانی زندگی کے لیے روگ کی شکل اختیار کرجاتے ہیں وہ اس وقت تک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتے جب تک کہ وہ نفسانی خواہشات کی تکمیل اور حیوانی جذبات کی تسکین کے لیے اسلامی نقطۂ نگاہ کے مطابق جائز ذریعہ کو اختیار نہیں کرتا۔اسلام نے ا س کے لیے جس ذریعہ کو جائز قراردیا ہے وہ نکاح کا پاکیزہ ومقدّس بندھن ہے۔ جو عمدہ خصوصیات اور بہترین نتائج واثرات کا حامل ہونے کے علاوہ نکاح کرنے والے کے لیے نیک نامی اور اچھی شہرت کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے۔
علماء نفس کہتے ہیں کہ انسان میں فطری طورپرجو نفسانی خواہشات اور حیوانی جذبات پائے جاتے ہیں ان کو جس طرح بڑہانا ممکن ہے اسی طرح ان کو گھٹانا اور ان پر قابو پانا بھی ممکن ہے۔
مذکورہ قول کی روشنی میں یہ کہنا درست ہوگا کہ اگر بعض ذرائع انسان میں ودیعت کئے گئے فطری حیوانی جذبوں کو ابھارنے اور اکسانے کا کام دیتے ہیں تو بعض دوسرے وسائل ایسے بھی ہیں جو ان پر قابو پانے میں مدد دیتے ہیں۔ان مختلف اسباب ووسائل میں سے انسان کا ذہنی طورپر مصروف رہ کراپنے آپ کو اس قسم کی سوچوں سے بلند وبالا کرلیتا ہے۔ مثال کے طور پر پابندی صوم وصلوٰۃ ،تلاوت قرآن حکیم اور مطالعہ حدیث وسیرت رسولﷺ ایسی چیزیں ہیں جو نفس کو حیوانی جذبات کی اتھا ہ گہرائیوں سے اٹھا کر روحانیت کے اعلیٰ مدارج تک پہنچانے کے سلسلے میں اہم کردار اداکرسکتی ہیں۔ اسی طرح کاروباری مصروفیت،تحقیقی وعلمی کاموں میں بے پناہ محویت،ذی روح اشیاء کے بغیر نہروں،درختوں اور پہاڑوں کے خوبصورت و دلفریب مناظر کی تصویر کشی ورنگ سازی اور ہلکے پھلکے ترنّم خیز نغمات سے دل کا بہلانا بھی مقصد کے حصول میں خاطر خواہ مدد دے سکتا ہے۔اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے مفید وکارآمد ذاتی دلچسپی کے کام ہیں جن کے ذریعہ فارغ لمحات کو مصروف کرکے حیوانی جذبات کی منہ زوری اور سرکشی کو مات دیا جاسکتا ہے۔
اس کا مقصد اپنے آپ کو جسمانی مشقت کے مختلف کاموں میں مصروف رکھ کر ذہنی بگاڑ کی اصلاح کرنا ہے،کیونکہ جسم کی بناوٹ اور اس کے ڈیل ڈول کی بہترین ساخت پر خصوصی توجہ دینا،اسکاوٹ گروپوں کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اور غیر مخلوط ادبی مجالس ومحافل میں عملی طور پرشرکت وغیرہ ایسے کام ہیں جو نوجوان طبقہ کے ذہن کو نہ صرف حیوانی جذبوں کی سوچ سے پاک کرتے ہیں بلکہ انہیں حرام کاری کے ارتکاب سے محفوظ رکھ کرجسمانی ،مذہبی اور اخلاقی اعتبار سے پہنچنے والے نقصانات سے بھی بچاتے ہیں۔
لہذا جب بھی کوئی نوجوان اپنے ذہن کے کسی گوشہ میں حیوانی جذبہ کو ابھرتا ہوا محسوس کرے تو اسے اپنے آپ کو جسمانی مشقت کے کسی کام میں لگا کراپنی خداداد صلاحیتوں اور قوائے جسمانی کے کھپانے کے لیے کسی صحیح مصرف کا انتخاب کرنا چاہیے ۔اس غرض کے لیے تیز لمبی دوڑ،ویٹ لفٹنگ،زور آزمائی ،گھوڑ دوڑ ،نیزہ بازی،تیراکی اور علمی وذہنی آزمائش کے مقابلوں وغیرہ میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینا حیوانی جذبوں کو گھٹانے اور ان میں خاطر خواہ حد تک کمی کرنے کے سلسلہ میں نہایت ہی مفید وثمر آور ثابت ہوسکتا ہے۔
ایسی کتابیں جو نوجوان نسل کے بگاڑ کوسنوارنے اور ان کے افکار وخیالات میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے حیرت انگیز طور پراپنا اثر رکھتی ہیں ان میں قرآ ن پاک اور کتب حدیث وکتب تفسیر سر فہرست ہیں۔اس لیے اگر قرآن پاک کی کثرت کے ساتھ تلاوت کی جائےاور کتبِ حدیث وتفسیر کو مسلسل زیرمطالعہ رکھا جائے تو اس سے بڑے دور رس نتائج کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔اور اگر قرآن کے بعض اجزا یا اس کی چند سورتوں کوحفظ کرلینے کے ساتھ ساتھ احادیث نبویہ کے ایک مجموعہ کو بھی زبانی یاد کرلیاجائے تو اس سے مزید بہتر فوائد حاصل ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
اسی طرح سیرت نبوی ،تاریخ خلفائے راشدین اور عظیم مسلم اسکالرز کی سوانح حیات پر لکھی گئی کتابوں سے استفادہ کرنا بھی موجودہ صورت میں مفید مطلب ہوسکتا ہے۔ ریڈیو وٹیپ ریکارڈ وغیرہ کے ذریعہ قرآن پاک کی تلاوت کی سماعت اور دینی وعلمی موضوعات پر مبنی لیکچرز سے استفادہ بھی نوجوان طبقہ کے فکروعمل کے درمیان مثبت رابطہ پیدا کرنے میں بنیادی واہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
پچھلی سطور میں جس مسئلہ پر بحث کی گئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نوجوان طبقہ کی بے راہ روی اور ان کی ابتری کا بہترین حل تو بہرحال ان کی بروقت شادی ہی ہے،لیکن اگر کسی کے لیے اس کے خاص حالات کے پیش نظر شاد ی کرنا ممکن نہ رہے تو اس کے لیے احکام شریعت کے مطابق روزے رکھنا، ذہنی وفکری مصروفیات کے کاموں میں دلچسپی اورجسمانی مشقت کے کاموں کی طرف رغبت ومیلان ایسی چیزیں ہیں جو حیوانی جذبات پر قابو پانے میں نہایت معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔اسی طرح ذہنی ،فکری،علمی ،اصلاحی اور تربیتی کتابوں کے ساتھ شغف اور ان کا کثرت کے ساتھ مطالعہ بھی انسان کے لیے ذہنی پراگندگی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا بہت اہم ذریعہ ہے۔ کیونکہ علم سے انسان کو وہ روشنی میسّر آتی ہے جس سے اس کا قلب منوّر اور ذہن پرسکون ہوجاتا ہے۔اور علم ہی وہ طاقت ہے جوانسان کو عزم وہمّت کا پہاڑ بنادیتی ہے۔ چونکہ علم سراسر فائدہ ہی فائدہ ہے جس سے کسی صورت بھی کسی قسم کے نقصان کے پہنچنے کا کوئی احتمال نہیں ہے اس لئے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاناچاہیے۔
علاوہ ازیں محرّمات سے اجتناب اور نگاہوں کی حفاظت کے بھی انسان کے دل ودماغ پر بڑے گہرے اثرات مرتّب ہوتے ہیں،اس لئے اس جانب بھی خصوصی توجہ مبذول کرنےکی ضرورت ہے۔
مندرجہ بالا احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے کے علاوہ بارگاہ الہی میں نہایت عاجزی وانکساری کے ساتھ دست بدعا بھی رہنا چاہیے تاکہ اللہ رب العزّت اپنی کمالِ شفقت ومہربانی سے اسلامی نکاح کے راستہ میں غیر اسلامی رسومات کے رواج پاجانے کی وجہ سے حائل ہوجانے والی ہر تمام قسم کی مشکلات کودور فرماکر نوجوان طبقہ کو درپیش مسائل سے نجات دلائے۔
رسالت مآب ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے رات کو بیدا ر ہوکر مندرجہ ذیل کلمات کہے:
(لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي أَوْ دَعَا اسْتُجِيبَ لَهُ، فَإِنْ تَوَضَّأَ وَصَلَّى قُبِلَتْ صَلَاتُهُ)
’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں، اس کی بادشاہت ہے۔اور اسی کی تعریف ہے، اور وہ ہرچیز پر قادر ہے، اللہ پاک ہے،اور ہرتعریف اللہ ہی کے لیے ہے،اور اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے، اور اللہ بہت بڑا ہے ،اور اللہ کی مدد کے بغیر نہ کسی کو گناہوں سے بچنے کی طاقت ہے نہ نیکی کرنے کی ہمت،پھر اس کے بعد جب وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلا کر کہتا ہے کہ: بار الہی میری خطاؤں کو معاف فرمادے،یا کسی اور دعا کے لیے عرض گزار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر دعا کو شرفِ قبولیت سے نوازتا ہے۔ اور اگر وہ اس وقت وضوکرکے نماز بھی ادا کرے تو اس کی نماز کو بھی قبول کر لیا جاتا ہے‘‘۔(صحیح بخاری)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا﴾[الكهف:46]
’’مال اور اولاد توصرف دنیاوی زندگی کی ہی رونق ہیں‘‘۔سورہ کہف:۴۶]
مال اور اولاد اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتیں ہیں ،ان سے ہرچند کہ دنیاوی زندگی کو ہنگامی زیبائش اور عارضی حسن ہی حاصل ہوتا ہے لیکن پھر بھی انسان ان کے حصول کے لیے بھرپور جدّوجہد میں مصروف رہتا ہے۔ کیونکہ ان کے حاصل کرنے کی فطری خواہش انسان میں بنیادی طور پر ودیعت کردی گئی ہے ۔البتہ شیطان وصف انسانوں نے بعض لوگوں کو فطرت کی اس راہ سے بہکانے کی کوشش میں ان دونوں چیزوں(مال،اولاد) میں بچوں کی تعداد کو محدود کردینے کا مشورہ دیا ہے۔ لیکن اس سلسلہ کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ ان لوگوں نے بچوں کی تعداد کو محدود کرنے کا تو مشورہ دے تو دیا ہے لیکن مال ودولت کو محدود انداز میں حاصل کرنے اور کمانے کا فلسفہ ظاہر کرنے کی زحمت نہیں کی،حالانکہ انصاف کے تقاضے کے مطابق ان دونوں چیزوں کو ایک ہی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے تھا۔کیونکہ انسان کے دل میں مال واولاد کے حصول کی خواہش یکساں طورپر بلا تمییز پائی جاتی ہے ۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کو دنیا وی زندگی یا اخروی زندگی میں جو بھی منفعتیں حاصل ہوتی ہیں ان کے حصول میں یہ دونوں چیزیں برابر کی شریک ہیں ۔رسالت مآب ﷺ کا ارشاد ہے:
(إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلا مِنْ ثَلاثٍ : صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ)(رواہ مسلم)
’’جب انسان کو موت آلیتی ہے تو ہر قسم کے عمل کا تعلّق اس سے کٹ جاتا ہے،مگرتین قسم کے اعما ل ایسے ہیں جن سے اس کو برابر ثواب پہنچتا رہتا ہے اور وہ یہ ہیں:
صدقہ جاریہ
وہ علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں
نیک اولاد جو اس کے لئے دعائے خیر کرتی رہے۔
۲۔اسلام نے کثرت اولاد کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ایسی عورت سے شادی کرنے کی رغبت دلائی ہے جو زیادہ بچوں کو پیدا کرنے کی اہلیت رکھتی ہو،چنانچہ سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے:
’’ایسی عورتوں سے شادی کرو جو زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچوں کو جنم دینے کی اہلیت رکھنے والی ہوں،پس بے شک میں قیامت کے روز تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری قوموں پر فخر کروں گا‘‘۔(دیکھئیے: صحیح ارواء الغلیل:۱۷۸۴)
۲۔ اسلام خاندانی منصوبہ بندی کی اجازت عورت کو صرف ایسی بیماری کی صورت میں دیتا ہے جس میں کسی صحیح العقیدہ مسلمان طبیب کی رائے کے مطابق خاندانی منصوبہ بندی کے اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہوجائے۔ وگرنہ اس کے علاوہ مالی وسائل کی کمی اور بھوک وافلاس کی زیادتی ایسے جتنے بھی مصنوعی بہانے تراشے جاتے ہیں ان کو بنیاد بنا کر خاندانی منصوبہ بندی کے اصولوں پر عمل کرنا شرعا ناجائز ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ﴾[البقرة:268]
’’شیطان تمہیں فقر وتنگدستی سے ڈراتا ہے‘‘[سورہ بقرہ:۲۶۸]
۴۔دشمنان اسلام اگر ایک طرف مسلمانوں کو ان کے اپنے علاقوں میں نیچا دکھانے کی غرض سے ان کی آبادی کو روک کرانہیں اقلّیت میں تبدیل کرنے کی مذموم جدّوجہد میں لگے ہوئے ہیں تو دوسری طرف وہ مسلمانوں پر اپنی فوقیت جتانے کی غرض سے اپنی آبادی کے اضافے کے لیے سرتوڑ کوششوں میں بھی مصروفِ کار ہیں۔اور ستم یہ ہے کہ یہ لوگ مصر وغیرہ میں خاندانی منصوبہ بندی کی پرفریب وپرکشش اصطلاح کو استعمال کرکے اپنے گھناؤنے ہتھکنڈوں میں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل کرچکے ہیں۔
لیکن اس سلسلے کا قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ دُ کھی انسانیت کے یہ نام نہاد ہمدرد وغریب وافلاس کے مارے ہووں کی بھوک مٹانے اور اس پر قابو پانے کے لیے روٹی کی ایک ٹکیا تک تو مہیا نہ کرسکے البتہ اپنے اسلام دشمن مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے خاص قسم کی دوائیاں Anti pregnancy medicineوافر مقدار میں مفت مہیا کرکے لوگوں کو ان کے استعمال کے ذریعہ خوشحالی وترقی کی منازل سے ہمکنار ہونے کے سنہری باغ دکھا دکھا کر اپنی گھناؤنی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کے مذموم عزائم میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
لیکن اب سوال یہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے پس پردہ مسلمانوں کے دین کے خلاف جن سازشوں کی منصوبہ بندی کارفرما ہے کیا ان سازشوں سے مسلمان بخوبی آگاہ ہوچکے ہیں؟
﴿رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ﴾[ الفرقان:74]
’’ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا‘‘[سورہ فرقان:۷۴]
ارشاد ات باری ہے:
۱۔﴿وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ أُولَـٰئِكَ فِي جَنَّاتٍ مُّكْرَمُونَ﴾ [المعارج:34-35]
’’اور وہ لوگ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں،یہی لوگ جنتوں میں عزّت واحترام کے ساتھ رہیں گے‘‘۔[سورہ معارج:۳۴۔۳۵]
۲۔﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ﴾ [العنكبوت:45]
’’اور نماز کا اہتمام کرو،بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘[سورہ عنکبوت:۴۵]
۳۔﴿فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ﴾[الماعون:4-5]
’’ان نمازیوں کے لئے افسوس (اور ویل نامی جہنم کی جگہ) ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں ‘‘[سورہ ماعون:۴۔۵]
۴۔﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ﴾[المؤمنون:1-2]
’’یقینا کامیاب ہوئے وہ مومن جو اپنی نمازوں میں عجز وانکساری کو اختیار کرنے والے ہیں‘‘[سورہ مومنون:۱۔۲]
۵۔﴿فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا﴾[مريم:59]
’’پھر ان کے بعد ایسے جانشین پیدا ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کردیا اور خواہشات کے پیچھے پڑگئے،یہ لوگ عنقریب اپنی گمراہی وبے راہ روی کے انجام سے دوچار ہوں گے‘‘[سورہ مریم:۵۹]
فرموداتِ نبویﷺ:
۱۔(الْعَهْدَ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ) (صحيح ، رواه أحمد وغيره)
ہم (مسلمانوں) اور ان (کفار ومنافقین) کے درمیان معاہدہ نماز کا ہے،پس جس شخص نے نماز کو چھوڑدیا اس نے کفر کے راستہ کو اختیار کرلیا۔(یہ حدیث صحیح ہے،اسے احمد وغیرہ نے روایت کیا ہے)
۲۔(إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ )(رواه مسلم)
بندہ مومن اور اہل شرک وکفر کے درمیان فاصلہ صرف نماز کا ہے(صحیح مسلم)
۳۔(أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهْرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ مِنْهُ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ ، هَلْ يَبْقَى مِنْ دَرَنِهِ شَيْءٌ ؟ قَالُوا : لَا يَبْقَى مِنْ دَرَنِهِ شَيْءٌ ، قَالَ : فَذَلِكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ ، يَمْحُو اللَّهُ بِهِنَّ الْخَطَايَا)(متفق عليه)
آپ مجھے یہ بتائیں کہ اگر تم سے کسی شخص کے دروازے کے بالکل سامنے سے نہر گزرتی ہو اور وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو کیا اس کے بعد بھی اس کے جسم پر کوئی میل کچیل رہ جائے گی؟لوگوں نے جواب دیا کہ اس کے بعد تو میل کچیل ہر گز نہیں رہے گی،تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’بالکل اسی طرح جو آدمی پانچ وقت کی نماز ادا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان نمازوں کی وجہ سے اس کے تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے‘‘۔(متفق علیہ)
سب سے پہلےآپ اپنی آستینوں کو کہنیوں تک چڑھائیں اور بسم اللہ پڑھیں،اس کے بعد:
۱۔تین مرتبہ اپنے ہاتھوں کو دھوئیں ،پھر تین مرتبہ کلی کرنے کے بعد تین مرتبہ ناک میں پانی چڑھائیں۔
۲۔تین مرتبہ اپنے چہرے کو دھوئیں ،اس کے بعد دائیں بازو کو پھر بائیں بازو کوکہنیوں تک تین تین مرتبہ دھوئیں۔
۳۔کانوں سمیت اپنے سارے سرکا (ایک بار) مسح کریں۔
۴۔ (پھر)پہلے دائیں پیر کو پھر بائیں پیر کو ٹخنوں تک تین تین بار دھوئیں۔
نمازِ فجر: فجر کی دورکعت سنّت اور دو رکعت فرض ہے۔
۱۔یاد رکھئے کہ نیت کا تعلّق صرف دل سے ہے۔
۲۔سب سے پہلے قبلہ رخ ہوکر کھڑے ہوجائیں اور پھر اپنے ہاتھوں کو کانوں تک لے جاکر ’’اللہ اکبر‘‘ کہیں۔
۳۔سینے پر اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر یہ کلمات پڑھیں:
(سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ، وَتَعالَى جَدُّكَ ،وَلا إِلَهَ غَيْرُكَ)
پاک ہے تو اے اللہ! او رتوہی تعریف کے لائق ہے اور تیرا نام برکتوں والا ہے اور تیری شان بہت اونچی ہے اور تیرے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔
(نوٹ) مندرجہ بالا کلمات کے علاوہ ان تمام کلمات کو ادا کرنا درست ہے جن کا ذکر حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔
پہلی رکعت:
(مندرجہ ذیل ثناء کے بعد) چپکے سے
(أعوذ بالله مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ،بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ،الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ،مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ،اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ،صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ،غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ، وَلَا الضَّالِّينَ. آمين)
’’اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں شیطان مردود سے،شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا رحم کرنے والانہایت مہربان ہے، سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام کائنات کا پالنے والا ہے، نہایت رحم والا بہت مہربان،جزا کے دن کا مالک ہے، تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں، ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام فرمایا، جن پر نہ تو تیرا غضب نازل ہو اور نہ ہی وہ گمراہ ہوئے،( دعا قبول فرما)۔
اس کے بعد مندرجہ ذیل سورت یا کوئی اور سورت پڑھیں:
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ﴿ قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ،اللَّـهُ الصَّمَدُ،لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ،وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ﴾(سوره اخلاص)
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا رحم کرنے والا نہایت مہربان ہے، برملا کہہ دو (اے پیغمبرﷺ) وہ اللہ ایک ہی ہے، وہ اللہ سب سے بے نیاز ہے، سب اس کے محتاج ہیں،وہ کسی کا باپ نہیں ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے، اور نہ ہی اس کا کوئی کفو وہمسر ہے۔
پھر اس کے بعد:
۱۔اپنے ہاتھوں کو (کانوں تک) اٹھا کر تکبیر(اللہ اکبر) کہئیے اور رکوع میں چلے جائیے اور اپنے ہاتھوں کو اپنے گھنٹوں پر رکھ لیں اور تین بار (سبحان ربي العظیم)’’پاک ہے میرا رب بزرگ‘‘ پڑھیں۔
۲۔اب سیدھے کھڑے ہوجائیں اور اپنے ہاتھوں کو(کانوں تک) اٹھاتے ہوئے یہ کلمات ادا کریں(سمع اللہ لمن حمدہ،اللھم ربنا لک الحمد)’’سن لیا اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی تعریف کو جس نے اس کی حمد بیان کی، اے ہمارے رب تیرے لیے ہی تعریف ہے‘‘۔
۳۔تکبیر(اللہ اکبر) کہہ کہ سجدہ ریز ہوجائیں ،اپنے ہاتھوں،گھٹنوں ،پیشانی،ناک اور پیروں کی انگلیوں کو قبلہ رخ کرکے زمین پر رکھ دیں اور یہ تسبیح تین مرتبہ پڑھیں(سبحان ربي الأعلی) ’’پاک ہے میرا رب بہت بلند‘‘۔
۴۔اپنے سر کو سجدہ سے اٹھاتے ہوئے تکبیر (اللہ اکبر) کہئیے اور اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھ کر یہ دعا پڑھیں:
۵۔تکبیر(اللہ اکبر) کہہ کر دوبارہ سجدہ کے لیے اپنی پیشانی زمین پر رکھ دیں اور تین مرتبہ تسبیح پڑھیں: (سبحان ربي الأعلی) ’’پاک ہے میرا رب بہت بلند‘‘،اب آپ کی پہلی رکعت مکمل ہوگئی ہے۔
دوسری رکعت:
۱۔اب دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوجائیں اور پہلی رکعت کی طرح أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم،بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر سورہ فاتحہ پڑھیں۔اس کے بعدکوئی چھوٹی سی سورت یا قرآن پاک کا جو بھی حصہ آپ کو یاد ہو اس کو پڑھیں۔
۲۔پہلی رکعت کی طرح رکوع وسجدہ وغیرہ کریں، دوسرے سجدہ کے بعد آپ (تشہد کے لیے) بیٹھ جائیں اور بیٹھتے ہی اپنے داہنے ہاتھ کی انگلیاں اکھٹی کرلیں اور اسی ہاتھ کے انگوٹھے کے ساتھ ملی ہوئی انگلی(سبابہ ) کو اٹھائیں اور اس کوحرکت دینے کے ساتھ مندرجہ ذیل کلمات پڑھتے جائیں:
(التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ،وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ)
(اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ،كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ)
’’سب اذکار ووظائف او رسب عجزونیاز اور سب صدقات وخیرات صرف اللہ کے لیے ہیں،اے نبی(ﷺ) آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔ سلام ہوہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر، میں اقرار کرتا ہوں کہ اللہ کےسوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں اقرار کرتا ہوں کہ محمد(ﷺ) اس (اللہ) کے بندے اوراس (اللہ) کے رسول ہیں۔
الہی رحمت فرما جناب محمد (ﷺ) پر اور آپ کی آل پر جس طرح تونے رحمت فرمائی ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی آل پر،بے شک آپ تعریف کے لائق اور بزرگی والے ہیں۔ الہی برکت نازل فرما جناب محمد(ﷺ) اور آپ کی آل پر، جس طرح تونے برکت نازل فرمائی ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کی آل پر،بے شک تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔
۳۔اب آپ مندرجہ ذیل دعا(یاکوئی اور دعا) پڑھیں:
(اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ)
’’اے اللہ میں آپ کی پناہ چاہتاہوں جہنم اور قبر کے عذاب سے اور زندگی اور موت کے فتنہ سے اور مسیح دجّال کے فتنہ کے شرّ سے۔
۴۔اب دائیں اور بائیں جانب منہ پھیرتے ہوئے:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ’’سلام ہو تم پر اور اللہ کی رحمت ہو‘‘ کہے۔
۱۔فرض نماز کی ادائیگی سے قبل جو سنّتیں پڑھی جاتی ہیں ان کو ’’السُنّة القَبَلية‘‘ کہتے ہیں اور ’’السُنّة البَعْدية‘‘ سے مراد وہ سنتیں ہیں جو فرض نماز کے بعد ادا کی جاتی ہیں۔
۲۔نہایت سکون واطمینان سے نماز ادا کریں اور ادھر ادھر دیکھنے کی بجائے اپنے سجدہ کی جگہ پر نگاہ جمائے رکھیں۔
۳۔جب آپ امام کی قراءت کو سن رہے ہوں تو اس وقت آپ کو خاموشی اختیارکیے رکھنی چاہیے اور اگرامام کی قراءت کو آپ سن نہ پارہے ہوں تو اس صورت میں آپ کو قراءت کرنا ہوگی۔
۴۔جمعہ کی نماز کے فرض دو رکعت ہیں جن کو مسجد میں خطبہ کے بعد ہی ادا کیا جاتا ہے۔
۵۔مغرب کی نماز کے فرض تین رکعت ہیں ،پہلی دورکعت توآپ نمازِ فجر کی دونوں رکعتوں کی طرح ادا کریں گے البتہ جب آپ سارا (التحیات) یعنی تشہد (ورسولہ) تک پڑھ لیں تو سلام پھیرنے کی بجائے کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے ہوئے تکبیرکہہ کر تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوجائیں ۔اس رکعت میں صرف سورت فاتحہ کے پڑھنے پرہی اکتفا کریں۔اس کے بعد فجر کی نماز کی طرح اپنی اس نماز کو مکمل کرکے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیردیں۔
۶۔ظہر،عصر اور عشاء کی نمازوں میں سے نماز کے فرض کی تعداد چار چار رکعتیں ہیں۔پہلی دو رکعت فجر کی دونوں رکعتوں کی طرح ادا کریں اور جب آپ (التحیات للہ) پڑھ چکیں تو سلام پھیرنے کی بجائے تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوجائیں۔اس کی تکمیل کے بعد یعنی دونوں سجدوں کے بعد چوتھی رکعت کے لیے پھر اٹھ کھڑے ہوں۔ان دونوں رکعتوں میں صرف سورت فاتحہ ہی پڑھیں اور پھر بقیہ نماز کو سلام پھیرنے تک بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق مکمل کریں۔
۷۔وتر کی نماز تین رکعتوں پر مشتمل ہے اس کو ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ پہلے دورکعت نماز ادا کریں۔ سلام پھیرنے کے بعد فوراً اٹھ کر ایک رکعت علیحدہ سے ادا کرکے اس تیسری رکعت کی سلام پھیردیں او ر اگر آپ تیسری رکعت میں رکوع سے پہلے مندرجہ ذیل دعا بھی پڑھ لیں تو یہ زیادہ بہتر اور افضل ہوگا۔
(اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّمَا قْضَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ،ولا يعزّ من عاديتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ،نستغفرك ونتوبُ إليكَ،وصَلّى اللهُ عَلى النَّبي)
الہی مجھے ہدایت یافتہ لوگوں میں ہدایت دے، اور جن کو تونے عافیت بخشی ہے ان میں مجھے عافیت دے، اور میری کارسازی فرما ان میں جن کا تو کارساز بنا،اور جوتونے مجھے عطا فرمایا ہے اس میں برکت عنایت کر،اور جس تکلیف کو تونے فیصلہ کرلیا ہے اس سے مجھے محفوظ فرما۔اس لئے کہ تو فیصلہ فرماتا ہے اور تیرے فیصلے کے خلاف فیصلہ نہیں کیا جاتا،اور جس سے تو محبت رکھے وہ ذلیل وخوار ہونے سے بچ جاتا ہے ،اور جس سے تیری دشمنی ہو وہ عزّت نہیں پاتا۔ اےہمارے رب! تو برکت والا ہے اور بلند وبالا ہے۔
۸۔اگر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے لگیں تو کھڑ ے ہوکر تکبیر کہیں پھر امام جس حالت میں بھی ہو اس کے ساتھ مل جائیں۔چاہے وہ رکوع کی حالت میں ہی کیوں نہ ہو اور اس رکعت کو شمار کرلو بشرطیکہ تم امام کے رکوع سے سرا ٹھانے سے پیشتر رکوع میں مل جاؤ،اور اگر امام تمہارے رکوع میں جانے سے پہلے رکوع سے سر اٹھالے تو پھر اس رکعت کو شمار نہ کرو([3])،اس کے بعد امام کی اقتدا میں نماز ادا کرتے چلے جائیں۔
۹۔اگرآپ امام کے ساتھ ایسی حالت میں ملے ہیں کہ آپ کی ایک رکعت یا اس سے کم وبیش نماز امام کے ساتھ ادا کرنے سے رہ گئی ہے تو ایسی صورت میں آپ امام کی اقتدا میں وہ نماز ادا کرلیں جو امام نے ابھی ادا کرنی ہے، لیکن جب امام سلام پھیرے تو اس کے ساتھ سلام پھیرنے کی بجائے کھڑے ہوجائیں اور بقیہ نماز کی تکمیل کرلیں۔
۱۰۔نماز کو جلدی جلدی ادا کرنے سے احتراز کریں اس لئے کہ اس سے نماز باطل ہوجاتی ہے نبی کریمﷺ نے ایک آدمی کو جلدی جلدی نماز پڑھتےہوئے دیکھا تو اس سے ارشاد فرمایا کہ: (ارجع فَصَلِّ فإنّک لَم تُصَلّ)یعنی تونے جو پہلے نماز پڑھی ہے اس کی کوئی قیمت نہیں،لہذا واپس جاؤ اور دوبارہ نمازادا کرو(دوسری مرتبہ بھی اس نے اسی طرح نماز پڑھی تو اس کو پھر نماز دہرانے کا حکم دیا گیا، پھر تیسری باربھی ایسا ہی ہوا تو) آخر کار تیسری دفعہ اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ مجھے نماز پڑھنا سکھلادیجئے، تو پھر آپ نے اس سے ارشاد فرمایا کہ:
(ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا ،ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ،ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا)(متفق عليه)
یعنی آپ پورے اطمینان کے ساتھ رکوع کریں،پھر رکوع سے اٹھ کر بالکل سیدھے کھڑے ہوجائیں،پھر اطمینان سے سجدہ کریں، پھرسجدہ سے اٹھیں اور مکمّل اطمینان وسکون کے ساتھ بیٹھ جائیں۔
۱۱۔اگرنماز ادا کرتے ہوئے بھول چوک میں آپ سے اس کا کوئی واجب چھوٹ جاتا ہے ،مثال کے طور پر آپ پہلا تشہد’’التحیات‘‘ بھول جاتے ہیں یا پڑھی ہوئی رکعتوں میں آپ کو کمی وبیشی کا شک گزرتا ہے تو اس صورت میں آپ کمی والے پہلو کو سامنے رکھ کرنماز کی تکمیل کریں اور تشہد کے آخر میں دوسجدے کرکے سلام پھیردیں۔ آخر میں ادا کئے جانے والے سجدوں کو ’’سجدہ سہو‘‘ کہاجاتا ہے۔
۱۲۔نماز کی ادائیگی کے دوران بے جا حرکتوں سے اجتناب کریں اس لئے کہ اس سے نماز کا خشوع وخضوع ختم ہوجاتا ہے اور اگر نماز میں اس قسم کی فضول حرکتیں کثرت سے کی جائیں تو اس سے نماز کے فاسد وباطل ہوجانے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔
۱۔( صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي )(رَواهُ البُخاريُّ)
’’نماز اس پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو‘‘۔(صحیح بخاری)
۲۔(إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ ) (رَواهُ البُخاريُّ)
تم میں سے جب کوئی مسجد میں آئے تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز ادا کرے۔(اسی نماز کو تحیۃ المسجد کہتے ہیں)۔ (صحیح بخاری)
۳۔(لَا تَجْلِسُوا عَلَى الْقُبُورِ ، وَلَا تُصَلُّوا إلَيْهَا )(رواه مسلم)
قبروں کے اوپر مت بیٹھو اور ان کی طرف منہ کرکے نماز نہ پڑھو۔(صحیح مسلم)
۴۔(إِذَا أُقيمتِ الصَّلاةُ فلَا صَلاةَ إلا المَكتوبةُ) (رواه مسلم)
جب نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو پھر فرض نماز کے علاوہ دوسری کوئی نماز نہیں ہوتی۔(صحیح مسلم)
۵۔(أمرتُ أَنْ لَا أكُفَّ ثَوْباً) (رَواهُ مُسْلمٌ)
مجھے حکم ملاہے کہ میں (نماز میں) کپڑوں کو اکٹھا نہ کروں۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس سے مقصود نماز کی حالت میں آستینوں کو چڑھانے یا کسی دوسرے کپڑے کو اکھٹا کرنے سے روکنا ہے۔
(أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ وَتَرَاصُّوا,وفي روايةٍ وكانَ أحدَنا يُلزِق مَنكِبَه بمنكبِ صاحبَه، وقدَمُه بقدَمِه)(رَواهُ البُخاريُّ)
اپنی صفوں کو سیدھا رکھو اور آپس میں مل جاؤ۔ دوسری روایت میں (صحابہ کے رسولﷺ کے ارشاد پر عمل کے بارے میں ) اس طرح ذکر آتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے کے ساتھ اور اپنے پاؤں کو اپنے ساتھی کے پاؤں کے ساتھ ملا کر کھڑا ہوا کرتا تھا۔
(إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَلَا تَأْتُوهَا وَأَنْتُمْ تَسْعَوْنَ، وَلَكِنْ ائْتُوهَا وَأَنْتُمْ تَمْشُونَ، وَعَلَيْكُمْ السَّكِينَةَ، فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا )(متفق عليه)
جب نماز کھڑی ہوجائے تو دوڑتے ہوئے اس کے ساتھ ملنے کی کوشش نہ کرو،بلکہ بڑے سکون کے ساتھ چلتے ہوئے آکر جماعت میں شامل ہوجاؤ۔پس نماز سے جوحصّہ مل جائے اس کو جماعت کے ساتھ ادا کرلو اور جو رہ جائے اس کی بعد میں تکمیل کرلو۔
۸۔ (ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا ،ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ،ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا)(متفق عليه)
یعنی آپ پورے اطمینان کے ساتھ رکوع کریں،پھر رکوع سے اٹھ کر بالکل سیدھے کھڑے ہوجائیں،پھر اطمینان سے سجدہ کریں، پھرسجدہ سے اٹھیں اور مکمّل اطمینان وسکون کے ساتھ بیٹھ جائیں۔
۹۔(إِذَا سَجَدْتَ فَضَعْ كَفَّيْكَ وَارْفَعْ مِرْفَقَيْكَ)(رَواه مُسْلِمٌ)
جب آپ سجدہ کریں تو اپنی ہتھیلیوں کو زمین پر رکھ لیں اور اپنی کہنیوں کو زمیں سے اٹھا کر رکھیں۔
۱۰۔(إِنِّي إِمَامُكُمْ ، فَلا تَسْبِقُونِي بِالرُّكُوعِ ، وَلا بِالسُّجُودِ)(رَواه مُسْلِمٌ)
’’بے شک میں تمہارا امام ہوں، لہذا تم مجھ سے پہلے رکوع اور سجدہ کرنے کی کوشش نہ کرو‘‘۔
۱۱۔(أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الصّلاة،فَإِنْ صَلُحَتْ صلحَ له سائرُعمله،وإن فسَدَت فسدَ سائرُعمَله) (رواه الطبراني والضياء،وصححه الألباني وغيره بشواهده)
’’قیامت کے روز سب سے پہلے جس بات کا بندہ ٔ مومن سے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے، پس اگرنماز کا معاملہ درست نکلا تو دوسرے تمام اعمال میں بھی اس کی کامیابی کے امکانات روشن ہوں گے،لیکن اگرنماز کے حساب میں گڑبڑی ہوگئی تو اس کے دوسرے اعمال میں بھی اس کی خیر نہیں ہوگی۔
کتاب وسنت سے بیان کیے گئے مندرجہ ذیل دلائل کی روشنی میں مرد حضرات پر واجب ہے کہ وہ نمازِ جمعہ سمیت پنجگانہ نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کریں۔
۱۔﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾[الجمعة:9]
اے ایمان والو! جمعہ کے دن جب نماز کے لیے بلایا جائے تو خریدوفروخت کو چھوڑ کر اللہ کے ذکر کے لیے دوڑپڑو،یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔
۲۔ رسالت مآب ﷺ کا فرمان ہے:
’’جس شخص نے مسلسل تین جمعے عدم دلچسپی کی وجہ سے چھوڑدیجئے اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے دل پر مہر ثبت کردیتا ہے۔
۳۔رسولﷺ نے فرمایا:
(لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ فِتْيَتِي فَيَجْمَعُوا لِيْ حُزَمًا مِنْ حَطَبٍ ، ثُمَّ آتِي قَوْمًا يُصَلُّونَ فِي بُيُوتِهِمْ لَيْسَتْ بِهِمْ عِلَّةٌ فَأُحَرِّقَهَا عَلَيْهِمْ)(رواه مسلم)
میرا دل چاہا کہ اپنے جوانوں سے کہد وں کہ وہ لکڑیوں کے چند گٹھّر جمع کریں اور جو لوگ بلاوجہ اپنے گھروں میں نماز پڑھتے ہیں ان کے گھروں کو جلاکر راکھ کردوں۔
۴۔آقائے دوجہاںﷺ کا ارشاد ہے:
(مَنْ سمعَ النداءَ فلم يأت، فلا صَلاةَ لهُ إلا مِنْ عُذرٍ) (صحیح ،رواہ ابن ماجه)
جوشخص اذان سن کر نماز کے لیے نہیں آتا اس کی بغیر عذر (خوف بیماری وغیرہ) کے کوئی نماز قبول نہیں ہوگی۔
۵۔نبی کریم ﷺ کے پاس ایک نابینا آدمی آیا اور اس نے آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ (ﷺ) میرے پاس کسی ایسے آدمی کا انتظام نہیں ہے جو اپنی رہنمائی میں مجھے مسجد تک لاسکے،لہذا آپ مجھے اجازت دے دیں کہ میں گھر میں ہی نماز ادا کرلیا کروں،آپ نے اس کو اجازت مرحمت فرمادی پھر جب وہ واپس جانے لگا تواس کو بلا کر پوچھا: ( هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ ؟ ) قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : ( فَأَجِبْ ) )رَواه مُسْلمٌ)
یعنی کیا تو اذا ن کو سنتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ: ہاں ،توآپ نے فرمایا کہ:پھر تو تمہیں اذان کا جواب دینا ہوگا(یعنی مسجد میں آکر ہی نماز ادا کرنا ہوگی)۔
۶۔آپﷺ کاارشاد گرامی ہے:
(مَنِ اغْتَسَلَ ثُمَّ أَتَى الْجُمُعَةَ فَصَلَّى مَا قُدِّرَ لَهُ ، ثُمَّ أَنْصَتَ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْ خُطْبَتِهِ ثُمَّ يُصَلِّي مَعَهُ غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى، وَفَضْلُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ) (رَواهُ مُسْلِمٌ)
جوشخص غسل کرکے نمازِ جمعہ کے لیے آئے اور حسب توفیق نوافل اداکرے اور پھر امام کے خطبہ سے فارغ ہونے تک خاموشی سے بیٹھارہے اس کے بعد امام کے ساتھ نمازِ جمعہ ادا کرے ایسے شخص کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک اور مزید تین دن تک کے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔
۱۔جمعہ کے روز غسل کرو ں گا اور بڑھے ہوئے ناخنوں کو اتاروں گا اور وضو کرنے کے بعد صاف ستھرے کپڑے پہن کر خوشبو لگاؤں گا۔
۲۔لہسن یا کچا پیاز کھانے سے احتراز کروں گا اور سگریٹ نوشی سے بھی پرہیز کروں گا مزید برآں مسواک یا ٹوتھ پیسٹ سے دانتوں کی صفائی کا اہتمام کروں گا۔
۳۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی دو رکعت (تحیۃ المسجد) ادا کروں گا ،چاہے اس وقت اما م صاحب منبر پر خطبہ ہی دے رہے ہوں اور خطبہ کے دوران میری یہ دورکعت نماز رسولﷺ کے اس ارشاد کی تعمیل میں ہوگی جس میں آپ نے فرمایا ہے:
(إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ وَلْيَتَجَوَّزْ فِيهِمَا )(مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
یعنی جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کی نماز کے لیے ایسے وقت میں آئے کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو(بیٹھنے سے پہلے) ہلکی پھلکی دو رکعتیں اداکرے۔
۴۔ہر قسم کی گفتگو سے اجتناب کرتے ہوئے امام کے خطبہ کو سننے کے لیے بیٹھ جاؤں گا۔
۵۔امام کی اقتدا میں جمعہ کی دو رکعت فرض نماز ادا کروں گا ۔(خیال رہے کہ نیت کا تعلّق صرف دل کے ساتھ ہے)۔
۶۔ جمعہ کی دو فرض رکعت نماز کے بعد مسجد میں چار رکعت سنّت نماز ادا کروں گا یا گھر پہنچ کر صر ف دورکعت سنت نماز پڑھوں گا اور حقیقت یہ ہے کہ گھر میں سنت نماز پڑھنا افضل ہے۔
۷۔جمعہ کے دن کثرت کے ساتھ نبیﷺ پر درود شریف پڑھنے کی کوشش کروں گا۔
۸۔ جمعہ کے روز مجھے اللہ سے خوب دعائیں کرنا ہوں گی۔اس لئے کہ اس دن کی دعا اور اس کی قبولیت کے بارے میں رسالت مآب ﷺ کا ارشاد ہے:
(إِنَّ فِي الْجُمُعَةِ لسَاعَةً لا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ يَسْأَلُ اللَّهَ فِيهَا خَيْرًا إِلا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ)(متفق عليه)
یعنی جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے جس میں اگرکوئی مسلمان اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے کسی بھلائی کی دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو شرفِ قبولیت بخش کراس کو مطلوبہ چیز عنایت فرما دیتا ہے۔
۱۔حق باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا﴾[لقمان:6]
’’اورلوگوں میں ایسے بھی ہیں جو بے ہود اور فضول حکایتوں کو خریدتے ہیں تاکہ اللہ کے رستہ سے بغیرعلم کے گمراہ کریں اور ان آیات کا مذاق اڑائیں‘‘[سورہ لقمان:۶]
جمہور مفسّرین کا خیال ہے کہ آیت مذکورہ میں (لھوالحدیث) سے مراد گانا ہے۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی اس سے گانا ہی مراد لیا ہے۔
حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت گانے بجانے اور آلات موسیقی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔
۲۔شیطان نے جب آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا تو اس موقع پر رب العزّت والجلال نے شیطان کومخاطب کرکے فرمایا تھا:
﴿وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ﴾[الإسراء:64]
’’ ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے بہکا لے ‘‘[سورہ اسراء:۶۴]
یہاں آواز سے مراد گانے بجانے اور آلاتِ موسیقی ہیں۔
۳۔سرورکائنات ﷺ کا ارشاد ہے:
(لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي قَوْمٌ يَسْتَحِلُّونَ الْحِرَّ وَالْحَرِيرَ،وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ)(صحيح ،رواه البخاري،وأبوداود)
اس حدیث کا معنیٰ یہ ہے کہ: میری امّت میں اسلام کے ایسے دعویدار بھی ہوں گے جو زنا کے ارتکاب ،اصلی ریشم کے استعمال ،شراب نوشی اور سماع موسیقی کو جائز خیال کریں گے،حالانکہ یہ چیزیں حرام ہیں۔
حدیث میں مذکور ’’معازف‘‘ سے ہر قسم کی وہ سُر اور آواز مراد ہے جس کو سن کر آدمی جھوم اٹھتا ہے جیسے کہ سارنگی ،بانسری،ڈھول،ڈگڈگی اور باجے وغیرہ کی آواز ہے، حتیٰ کہ گھنٹی کی آواز بھی ان ہی آوازوں میں شامل ہے،اس لئے کہ گھنٹی کے بارے میں سرور دو عالمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
(الْجَرَسُ مَزَامِيرُ الشَّيْطَانِ)(رواه مسلم)
یعنی گھنٹی شیطان کے آلاتِ موسیقی میں سے ہے۔
یہ حدیث گھنٹی کے اپنی آواز کی وجہ سے مکروہ ہونے پر دلالت کرتی ہے اور لوگ اس گھنٹی کو اپنے چوپایوں کی گردنوں کے ساتھ اس لئے باندھا کرتے تھے کہ یہ اپنی شکل وصورت میں نصاریٰ کی اس ناقوس کے ساتھ مشابہت رکھتی تھی جس کو وہ اپنی مذہبی رسوم کی ادائیگی کے موقع پر بجایا کرتے تھے۔ لیکن اگرآج اس کی ضرورت محسوس ہو تواس گھنٹی کی بجائے (Bird Bell) سے کام لیا جاتا ہے۔
کتاب القضاء میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا گیا ہے کہ:
( الغِناءُ لَهْوٌ مكروهٌ،يشبه الباطلَ ، ومَـنِ استكثر منه فهُو سَفيهٌ تُرَدُّ شهادتُه)
گانا بجانا لطف اندوز ہونے والی ایسی مکروہ چیز ہے جو حرام کے بہت قریب ہے۔کثرت کے ساتھ اس سے لگاؤ رکھنے والا انسان احمق وبے وقوف ہے اور ایسے شخص کی شہادت کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
آج کل شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے موقع پر گائے جانے والے گیت،ریڈیو او ر ٹیلی ویژن پر نشر کئے جانے والے گانے اکثر وبیشتر عشق ومحبت ،بوس وکنار،محبوب سے ملاقات ،معشوق کے خدّوخال کی رعنائی اور اس کے قدوقامت کی خوبصورتی کے تذکروں کے علاوہ جنسی(Sexual) باتوں سے بھرپورہوتے ہیں۔ ایسے گانے نوجوانوں کے جذبات کو بھڑکانے اور ان میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں اور پھر ان کو فحاشی وبے راہ روی کے راستہ پر ڈال کر ان کے اخلاق کا ستیاناس کردیتے ہیں اور جب گلوگار اور گلوکارائیں (یہ ایسے لوگ ہیں جو اسٹیج اور فن کے نا م پر لوگوں کے مالوں پرڈاکے ڈالتے ہیں اور پھر حرام کی کمائی سے یورپ ودیگرممالک میں بڑے بڑے بنگلے اور کاریں خرید کر پرتعیّش زندگی بسر کرتے ہیں) آلات موسیقی کی دھنوں پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اپنے اخلاق باختہ گیتوں اور جنسی فلموں کے ذریعہ قوم کے اخلاق کی بربادی کا مزید ذریعہ ثابت ہوتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ نوجوان طبقہ کی ایک کثیر تعداد ان لوگوں کے پھیلائے ہوئے فتنہ وفساد کے جال میں پھنس کراللہ رب العزت کے علاوہ ان گلوگاروں کی محبت سے اپنےدل کی دنیا کو آباد کرنے کے درپے ہے۔حد تو یہ ہے کہ ۱۹۶۷عیسوی میں جب مسلمان فوج صیہونیوں کے ساتھ میدان کارزار میں نبرد آزما تھی، اس وقت ریڈیو اناؤنسر مسلمان فوجیوں کو بہادری وشجاعت کے جوہر دکھانے کی غرض سے مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’آپ اپنے قدموں کو برابر بڑھاتے چلے جائیں اس لیے کہ تمہارے دلوں کوگرمانے اور ان مین جوش وجذبہ پیدا کرنے کے لیے فلان وفلاں گلوکار اور گلوکارہ تمہارے ہمرکاب ہے اور جب تک یہودی مجرموں کا عبرت ناک شکست وریخت استقبال نہیں کرتی تب تک آپ اپنی پیش قدمی جاری رکھیں۔‘‘
حالانکہ بحیثیت مسلمان اس کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے فوجیوں کو مخاطب کرکے اس طرح کہتا:’’دشمن کی طرف پیش قدمی جاری رکھو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ہر قسم کی تائید ونصرت کے ساتھ تمہاری مدد کوآن پہنچا ہے‘‘۔
ایک گلو کارہ جو ہر ماہ مصرکے درالحکومت قاہرہ میں باقاعدگی سے ایک تقریب میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھی اس نے تو۱۹۶۷ء کی جنگ سے پیشتر ہی اپنے مداحوں کو یہ مژدہ سنادیا تھا کہ اگرہم (مصر) لڑائی جیت گئے تووہ اپنا آئندہ پروگرام قاہرہ کی بجائے تل ابیب میں پیش کریں گی۔
لیکن دوسری جانب مسلمان قوم کے طرز عمل کے بالکل برعکس یہودیوں کی یہ حالت تھی کہ جنگ جیتنے کےبعد وہ (اپنے عقیدہ کے مطابق) اللہ تعالیٰ کے حضور تشکّرکےجذبات لئے ہوئے دیوار گریہ کےپاس کھڑے اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر ادا کرتےہیں کہ اس کی تائید ونصرت سے وہ اس جنگ میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔
ظلم تو یہ ہے کہ وہ ترانے جن کو دین ومذہب کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ان میں بھی بہت سارے ترانے قابل اعتراض خیالات وافکار سے بھر پور ہوتے ہیں۔ ایک مذہبی ترانے کا مندرجہ ذیل شعرملاحظہ فرمائیں کہ اس میں شاعر کیا کہہ رہا ہے:
وقيل:كلُّ نبيٍّ عند رتبتِه *** ويا محمدُ، هذا العرشُ فاستلمِ
اورکہا جائے گا کہ: ہرنبی اپنے مقام ورتبہ پر کھڑا رہ
اور اے محمد! یہ رہا عرش آگے بڑھ کر اس کو تھام لو۔
شعرکا دوسرا مصرعہ تو صاف اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ اور بہتان ہے ،یہ ایسی بات ہے جوحقیقت سے بالکل ہٹی ہوئی ہے۔
۱۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن وغیرہ پر نشر ہونے والے گیتوں کے سننے سے احتراز کیا جائے ۔خصوصاً انتہائی فحش اور سازوں کی دُھن پر گائے جانے والے گانوں کی سماعت سے سختی کے ساتھ پرہیز کی جانی چاہیے۔
۲۔موسیقی اور گانے بجانے کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے سب سے مؤثّر ہتھیار اللہ تعالیٰ کے ذکر اور قرآن پاک کی تلاوت سے اپنے آپ کو لیس رکھنا ہے اور اس سلسلہ میں سورہ بقرہ اپنا ایک خاص اثر رکھتی ہے،سورہ بقرہ کی اس خصوصیت کو سرور کائنات ﷺ نے یوں بیان فرمایا ہے :
(إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنَ الْبَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ) (رَوَاهُ مُسْلِمٌ)
یعنی شیطان اُس گھر سے دُم دباکر بھاگ نکلتا ہے جس میں سورہ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہو۔
قرآن حکیم کی خصوصیت کے بارے میں خالقِ کائنات کا ارشاد ہے:
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ﴾[يونس:57]
’’اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت ،سینوں کی بیماریوں کا علاج اور مومنوں کے لیے ہدایت ورحمت آ چکی ہے‘‘۔[سورہ یونس:۵۷]
رسول اللہﷺ کی سیرت کا مطالعہ،آپ کے روز مرّہ کے معمولات زندگی پرگہری نگاہ اور صحابہ کرام کے حالات وواقعات سے متعلق واقفیت موسیقی وگانے بجانے سے بچاؤ کے لیے بہت مفید وکارآمدذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
۱۔ عید کے روز گیت گانا جائز ہے اس کی دلیل وہ حدیث ہے جوحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی گئی ہے:
دَخَلَ رسولُ الله صلى الله عليه وسلم عَلَيْهَا،وَعِنْدَهَا جَارِيَتَانِ تَضْرِبَانِ بِدُفّيْنِ –وفي روايةٍ عندي جاريتان تغنّيان -فَانْتَهَرَهُمَا أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : دَعْهُنَّ ، فَإِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا، وَإِنَّ عِيدَنَا هَذَا الْيَوْمَ) (رواه البخاري)
رسول اللہﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لائے اور ان کے پاس اس وقت چھوٹی چھوٹی دو بچیاں گیت گارہی تھیں، ان کو ابوبکررضی اللہ عنہ نے ڈانٹا ڈپٹا،توآپﷺنے ارشاد فرمایا کہ:’’اے ابوبکررضی اللہ عنہ ان کو رہنے دو،بلاشبہ ہرقوم کے لیے کوئی نہ کوئی دن خوشی منانے کے لیے مقرر ہوتا ہے اور آج کا دن ہمارے لیے خوشی ومسرّت کے اظہار کاد ن ہے‘‘۔
۲۔ شادی بیاہ کے موقع پر دُف بجاکر گیت گانا درست ہے،کیونکہ یہ لوگوں کو نکاح کی خبردینے اور ان میں نکاح کی رغبت پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے اس کی دلیل نبی کریمﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے:
(فَصَلَ مَا بَيْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ ضَربُ الدُّفُّ،وَالصَّوْتُ فِي النِّكَاحِ) (صحيح،رواه أحمد)
نکاح کے وقت دف بجا کر آواز بلند کرنا (گیت گانا)حلال اور حرام کے درمیان واضح فرق کی نشاندہی کرتا ہے۔
۳۔کسی کام کی سرانجام دہی کے موقع پر ایسے اسلامی گیتوں کا الاپنا بھی درست ہے جن سے کام کو چوق وچوبند ہوکر ادا کرنے میں مدد مل سکے اور اگر گیت کے اشعار دعائیہ کلمات پر مشتمل ہوں تو ایسے گیت کا گنُگنا نا زیادہ مناسب وموزوں ہے۔
سرور دوعالم ﷺ خندق کی کھدائی میں کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے اس شعر کو پڑھتے جاتے تھے:
اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَهْ فاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَهْ (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
اے ہمارے رب! زندگی توصرف آخرت کی زندگی ہے پس آپ انصار ومہاجرین کو معاف کیجئے۔
اور پھراس کے جواب میں انصار ومہاجرین بیک زبان یوں گویا ہوتے:
نَحْنُ الَّذِينَ بَايَعُوامُحَمَّدًا عَلَى الْجِهَادِ مَا بَقِينَا أَبَدَا
ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے جناب محمدﷺ کے ہاتھ پراس لیے بیعت کی ہے کہ ہم جب تک زندہ رہیں گے اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے ہی رہیں گے۔
اور سرور کائنات ﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کرخندق کی کھدائی کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے مندرجہ ذیل اشعار کو بھی پڑھا کرتے تھے:
وَاللَّهِ لَوْلا اللَّهُ مَا اهْتَدَيْنَا وَلا تَصَدَّقْنَا وَلا صَلَّيْنَا
فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا وَثَبِّتِ الأَقْدَامَ إِنْ لاقَيْنَا
إِنَّ الأُولَى قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا إِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا
وَرَفَعَ بِهَا صَوْتَهُ : أَبَيْنَا أَبَيْنَا (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
اللہ کی قسم اگر رب کی توفیق شامل حال نہ ہوتی تو ہم نہ تو ہدایت یافتہ ہوتے اور نہ ہی روزہ رکھتے اور نہ ہی نماز پڑھتے
اے اللہ ! ہمیں اطمینان وسکون نصیب فرما اور اگر دشمنوں سے مڈ بھیڑ ہو جائے تو ہمیں ثابت قدم رکھنا۔
اور مشرکوں نے ہمارے اوپر بے پناہ ظلم وستم ڈھائے ہیں ،انہوں نے جب بھی ہمیں کسی فتنہ میں ڈالنا چاہا تو ہم نے ان کی بات ماننے سے صاف انکار کردیا۔
اور آپﷺ ان اشعار کو پڑھتے ہوئے جب آخری شعر کے آخر میں(أبیْنا) پر پہنچے تو اپنی آواز کو بلند کرتے اور اس طرح کہتے جاتے ’’أبیناـ ـ ـ أبینا‘‘ یعنی ہم نے صا ف انکار کردیا ،صاف انکار کردیا۔
۴۔ایسے تمام وہ گیت قابل ستائش ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا ذکر ہو جن میں آپﷺ سے محبّت کے جذبات کا اظہار اور آپ کے شمائل کا تذکرہ ہو یا وہ گیت جو اللہ تعالیٰ کے رستے میں جہاد پر ابھارنے اور دشمن کے مقابلہ میں دلجمعی وثابت قدمی کے ساتھ نبرد آزما ہونے اور اخلاقی اوصاف کی اصلاح وتقویت کا باعث ہوں،اور اسی طرح وہ تمام گیت بھی درست ہیں جومسلمانوں کے درمیان محبت کے رشتہ کو قائم کرنے اور ایک دوسرے کادست وبازو بننے کا درس دیتے ہوں، اور ایسے گیت بھی قابل تعریف ہیں جو اسلام کے محاسن اور اس کے بنیادی اصولوں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے مفید امور پر مشتمل ہوں جو اسلامی معاشرہ کے لیے دینی واخلاقی اعتبار سے سودمند ثابت ہوسکتے ہوں۔
۵۔عید ونکاح کے موقع پر عورتوں کو آلات موسیقی میں سے صرف دُف بجانے کی شریعت میں اجازت دی گئی ہے، اور ذکر واذکار کے موقع پر دُف کا استعمال نہ تو رسول ﷺ سے ثابت ہے، اور نہ ہی آپ کےصحابہ رضی اللہ عنہم سے اس کے استعمال کے آثار ملتے ہیں، البتہ صوفیاء نے اس کو اپنے لیے ازخود شریعت کے نام پر جائز کررکھا ہے، بلکہ اس کے استعمال کو تو انہوں نے سنّت کا درجہ دیا ہوا ہے حالانکہ یہ سراسر بدعت ہے۔ اور بدعت کے بارے میں رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
(إِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ)(رَواه التّرمذيُ وقال:حسنٌ صحيحٌ)
یعنی دین میں نئی نئی چیزیں گھڑنے سے باز رہو ،اس لیے کہ دین میں ہرنئی چیز بدعت ہے، اور ہربدعت گمراہی ہے۔
مذہب اسلام بنی نوع انسان کی طرف جس پیغام کو لے کرآیا تھا وہ یہی تھا کہ تمام لوگ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اس کے سوا بتوں،تصویروں اورمجسّموں کی شکل میں پائے جانے والے جملہ اولیاء وصالحین کی پوجا پاٹ کو ترک کردیں۔
اور یہ دعوت کوئی نئی نہیں ہے بلکہ جب سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت ورشد کے لیے انبیاء کی بعثت کا سلسلہ جاری فرمایا ہے تب سے یہ بات انبیاء کی دعوت کی بنیاد رہی ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ﴾[ النحل:36]
’’اور تحقیق ہم نے ہرجماعت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی پرستش نہ کرو‘‘[سورہ نحل:۳۶]
طاغوت سے مراد ہروہ چیز ہے جس کو اس کی رضا سے اللہ کے سوامعبود بنالیاجائے۔اور سورہ نوح (علیہ السلام) میں جن چند مجسّموں کا ذکر ملتا ہے۔وہ درحقیقت بعض نیک بندوں کے مجسّمے تھے اس بات کی دلیل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا وہ قول ہے جس کو امام بخاری نے مندرجہ ذیل آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے۔ارشاد ربانی ہے:
﴿وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًاوَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا﴾[نوح:23-24]
’’اور انہوں نے کہا کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا،اورخصوصاً ودّ،سواع،یغوث،یعوق اورنسرکوبھی ترک نہ کرنا،(اے میرے پروردگار!) انہوں نے خلق کثیر کو گمرا کرڈالا ہے‘‘ [سورہ نوح:۲۳۔۲۴]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما مذکورہ آیات کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں:
(هذه أسماء رجال صالحين من قوم نوح، فلما هلك أولئك أوحى الشيطان إلى قومهم، أن انصبوا إلى مجالسهم التي كانوا يجلسون فيها أنصاباً وسمّوها بأسمائهم، ففعلوا، ولم تُعبد، حتىّ إذا هَلَكَ أولئكَ ونُسخ العلم عُبدت)
’’اس آیت میں وارد اسماء قوم نوح کے بزرگ وصالح لوگوں کے نام ہیں۔ان کے دنیا سے اُٹھ جانے کے بعد شیطان نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ یہ بزرگ لوگ جہاں جہاں بیٹھا کرتے تھے ان جگہوں پر ان کے مجسّمے رکھ دیں اور ان مجسّموں کو ان بزرگوں کے ناموں سے منسوب کردیں،چنانچہ لوگوں نے شیطان کی اطاعت کرتے ہوئے اتنے کام پر ہی اکتفا کیا اور نتیجتاً یہ مجسمے پوجاپاٹ سے محفوظ رہے ،لیکن جب یہ لوگ دنیا سے رخصت ہوگئے اور علم کے نقوش بھی مٹ گئے تو پھر ان مجسّموں کی پوجاپاٹ کاسلسلہ شروع ہوگیا‘‘۔
اس واقعہ سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے ہٹاکر دوسروں کی عبادت کے غلط راستہ پر ڈالنے میں قوم کے معروف ونامور لیڈروں کے مجسّموں کا ایک بہت بڑا ہاتھ ہے۔
لوگوں کی ایک کثیر تعداد کی یہ سوچ ہے کہ موجودہ دور میں جبکہ تصویروں اور مجسموں کی عبادت کرنے کا رواج مفقود ہوچکا ہے تو ان حالا ت میں مجسموں کا تراشنا اور بالخصوص تصویر کشی کا دھندا ناجائز نہیں رہا۔ان لوگوں کا یہ خیال کئی ایک وجوہ کی بنا پر ناقابل التفات ہے:
۱۔حقیقت یہ ہے کہ عصرحاضر میں بھی تصویروں اور مجسّموں کی پوجا کی جارہی ہے۔ آپ دیکھئے کہ حضرت عیسیٰ اور آپ کی والدہ حضرت مریم (علیہما السلام) کی عبادت گرجا خانوں میں کی جاتی ہے۔ستم بالائے ستم یہ ہے کہ عیسائی لوگ تو صلیب کےسامنے بھی عبادت کی غرض سے اپنی گردنوں کو جھکالیتے ہیں۔
بازاروں میں حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم(علیہما السلام) کی تصویروں پر مشتمل دیدہ زیب سینریاں(Sceneries)بیش بہا قیمت پر فروخت کی جاتی ہیں جن کو گھروں میں لا کر عبادت وتعظیم کی غرض سے لٹکا دیا جاتا ہے۔
۲۔ایسے ممالک جو مادی اعتبار سے ترقی یافتہ اور اخلاقی وروحانی لحاظ سے نہایت پسماندہ ہیں ان میں قومی لیڈروں کے نصب شدہ مجسموں کےسامنے سے گزرنے والوں کے سروں سے احتراماً ٹوپیاں اترجاتی ہیں اور گردنیں جھک جاتی ہیں۔اس کی واضح مثالوں میں امریکہ کے شہر واشنگٹن میں جارج،فرانس میں نابلین، اور روس میں لینن اور سٹالن کے سڑکوں پر نصب شدہ مجسمے ہیں۔
اب ہمارے عرب ملکوں میں بھی مجسمے نصب کرنے کی بیماری اپنی جڑیں پکڑتی جارہی ہے۔چنانچہ بعض ممالک نے توکافروں کی ریس میں اپنے ہاں سڑکوں پر مجسموں کو لاکھڑا کیا ہے اور جوعرب ومسلم ممالک مجسمے نصب کرنے کی اس دوڑ میں ابھی پیچھے ہیں ان کے ہاں اس کام کو مکمل کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔حالانکہ ان کو چاہیے تھا کہ مجسموں کی تراش خراش اور ان کی تنصیب پرخرچ کیے جانے والے سرمایہ کو مدارس ومساجد کی تعمیر،ہسپتالوں کے قیام اور خدمت خلق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی تشکیل پر صرف کرتے،تو دولت کا یہ مصرف یقیناً زیادہ مفید اور سود مند ہو سکتا تھا، اور اس صورت میں ان رفاہی وفلاحی اداروں کو قومی لیڈروں کے ناموں کے ساتھ منسوب کردئیے جانے میں تو قطعاً کوئی مضائقہ نہ ہوتا۔
۳۔ عرب ملکوں میں نصب شدہ ان مجسموں کی گرچہ آج کل عبادت تو نہیں کی جارہی ہے لیکن خدشہ ہے کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد ایسا وقت آجائے گا جب ان کے سامنے بھی تعظیماً گردنیں جھکنے لگیں گی اور اس طرح پھر ان کی عبادت کا بھی سلسلہ شروع ہوجائے گا۔اور یہ حقیقت ہے کہ اس قسم کے واقعات یورپ وترکی میں رونما ہوچکے ہیں ۔اور ان سے پہلے سیدنا نوح علیہ السلام کی قوم کاحال بھی ایسا ہی رہا ہے،انہوں نے بھی پہلے پہل اپنے قومی لیڈروں کے مجسمے نصب کیے پھر ان کی تعظیم میں حد سے بڑھ کر ان کی پوجاپاٹ شروع کردی۔
۴۔نبی کریمﷺ نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو مجسّموں اور تصویروں کی بیخ کنی سے متعلق حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:
(أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ ، وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ)(رواه مسلم)
’’کسی بھی مجسّمے کو مٹائے بغیر، اور کسی بھی اونچی قبر کو برابر کئے بغیر مت چھوڑنا‘‘۔
ایک روایت میں نبیﷺ کے ارشاد میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ملتا ہے:
(وَلا صُورَةً إِلا لَطَخْتَهَا) (صحيح,رواه أحمد)
’’یعنی جو تصویر بھی تمہیں نظر آئے اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دو‘‘۔
۱۔درخت،ستارے،چاند،سورج،پہاڑ،پتھر،سمندر،دریا،نہراورخوبصورت ودلکش مناظر کی تصویر کشی یا ان کی مجسمہ سازی شرعاً جائز ہے۔
اسی طرح کعبہ شریف،مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ ودیگرمساجد کی تصویر یا ان کے ماڈل بنانے کی صرف اس صورت میں اجازت ہوگی کہ یہ مقامات مقدّسہ انسان وحیوان کی تصویروں سے بالکل خالی ہوں۔اس کی دلیل حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا وہ قول ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ:
(إنْ كُنْتَ لاَ بُدَّ فَاعِلاً فَاصْنَعِ الشَّجَرَ، وَمَا لاَ نَفْسَ لَهُ )(رواه البخاري)
یعنی اگرآپ کو کسی چیز کی تصویرکشی کرنے یا اس کا مجسمہ بنانے کا زیادہ ہی شوق ہو جائے تو اس مقصد کے لیے درخت یا ایسی چیز جو غیرجانبدار ہو اس کا انتخاب کرنا ہوگا۔
۲۔قومی شناختی کارڈ،پاسپورٹ اور گاڑی چلانے کے لائسنس کے علاوہ ہروہ چیز جس پر تصویر کا استعمال ایک قانونی ضرورت ہے ایسی جگہ پر فوٹو کااستعمال درست ہے۔
۳۔قاتل،چور،ڈاکو اور وہ تمام مجرم پیشہ لوگ جن کو قانون اپنی گرفت میں لے کر قانونی تقاضے پورے کرنا چاہتا ہے ان کی تصویر بنانا بھی قانونی ضرورت کے پیش نظرجائزہے۔
اسی طرح مختلف علوم وفنون کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بھی تصویر کشی کی اجازت ہے جیسا کہ علم طب میں انسانی ڈھانچہ کا مکمل خاکہ اور اس کی تصویرانسانی جسم کی ساخت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔
۴۔ لڑکیوں کو چیتھڑوں کی مدد سے بنائی جانے والی چھوٹی چھوٹی بچیوں کی شکل میں پتلیاں بنانے کی بھی اجازت دی جاسکتی ہے ،کیونکہ جب وہ ان کو نہلا دُھلا کر صاف ستھرے کپڑے پہنائیں گی، ان کی نظافت کا خیال رکھیں گی ،اور پھر ان کے سونے کا انتظام کریں گی تو اس سے ان کو مستقبل کی اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہونے میں مدد ملے گی جب وہ ایک ماں کی شکل میں اپنے بچوں کی تربیت کررہی ہوں گی۔اس بات کی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث ہے جس میں آپ فرماتی ہیں:
(كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) (رواہ البخاري)
یعنی میں نبی اکرمﷺ کے پاس کپڑے کی بنی ہوئی گُڑیوں اور پُتلیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔
لیکن اس کے ساتھ ایک بات کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے کہ بچوں کو غیر مسلم ممالک کے بنے ہوئے کھلونے لاکر نہیں دینے چاہئیں جن کا چہرہ کھلا ہوا ہو اور ان کے جسم کو بالکل معمولی سے لباس سے چھپانے کی کوشش کی گئی ہو، کیونکہ مسلمان بچی بازار سے خرید کی گئی گُڑیا کے ایسے غیراسلامی لباس سے متاثّر ہوکر خود بھی ایسے ہی غیر اسلامی راستے پر چل نکلے گی جس سے معاشرہ پر بہت برے اثرات مرتّب ہوں گے۔اوریہ نقصانات اس عظیم نقصان کے علاوہ ہوں گے جو کھلونے خریدنے کی وجہ سے ہماری دولت کے غیرمسلم ممالک میں منتقل ہونے کی صورت میں رونما ہوں گے۔
نبی اکرمﷺ کے عہد میں سگریٹ کا وجود گرچہ نہیں پایاجاتا تھا لیکن اشیاء کی حرمت وحلّت کے بارے میں اسلام نے جو عام اصول وضع فرمائے ہیں ان کی روسے ہروہ چیز حرام قرارپاتی ہے جو انسانی جسم کے لیے نقصان دہ ہو یا ا س کے استعمال سے دوسرے انسان کو کسی قسم کے نقصان پہنچنے کا احتمال ہو یا وہ چیز بجائے خود دولت کے تلف اور مال کی بربادی کا باعث بن سکتی ہو۔
اس نقطۂ نظر سے سگریٹ کے بارے میں شرعی حکم کو جاننے کے لیے مندرجہ ذیل دلائل پر غور فرمائیں:
ارشادات ربانی :
۱۔﴿وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ﴾ [لقمان:157]
’’اور وہ (رسول) ان کے لیے پاک چیزیں حلال اورناپاک چیزیں حرام کرتا ہے‘‘۔[سورہ لقمان:۱۵۷]
اور سگریٹ کا تعلق یقیناً بدبودار،ضررر ساں اور خبیث وناپاک چیزوں کے ساتھ ہے۔
۲۔﴿وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ﴾[البقرة:195]
’’اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو تباہی وہلاکت میں نہ ڈالو‘‘[سورہ بقرہ:۱۹۵]
اور سگریٹ کا استعمال انسان کو کینسر اور ٹی بی جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا کردینے کا باعث بنتا ہے۔
۳۔﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ﴾[النساء:29]
’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو‘‘[سورہ نساء:۲۹]
اور سگریٹ نوشی اپنے آپ کو آہستہ آہستہ موت کے منہ میں دینے کے مترادف ہے۔
۴۔شراب نوشی اور جوئے بازی کے نقصانات کے بارے میں ارشاد ہے:
﴿وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا﴾[البقرة:219]
’’اوران کا گناہ ان کے نفع کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے‘‘[سورہ بقرہ:۲۱۹]
اور اسی طرح سگریٹ نوشی کا نقصان بھی اس کے فائدہ کی نسبت بہت زیادہ ہے، بلکہ یہ تو سراسر نقصان ہی نقصان ہے
5۔﴿وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا﴾ [الإسراء:26-27]
’’اور بے جا فضول خرچی سے مال نہ اڑاؤ،یقیناً فضول خرچ شیطان کے بھائی ہیں‘‘۔[سورہ اسراء:۲۶۔۲۷]
چونکہ سگریٹ کا استعمال اسراف اور بے جا فضول خرچی ہے اس لیے یہ بھی شیطانی عمل ہی کا حصہ متصوّر ہوگا۔
یعنی اسلامی نقطۂ نگاہ سے ہر ایسا کام ناجائز ٹہرتا ہے جس کا نقصان اس کے کرنے والے کوخود اٹھانا پڑے یا اس کے مضراثرات کسی دوسرے انسان پراثرانداز ہورہے ہوں۔
اور سگریٹ جہاں استعمال کرنے والے کی صحت کے لیے مضراور ساتھ بیٹھے پڑوسی کے لیے تکلیف وایذا کا باعث بنتا ہے، وہاں وہ مال ودولت کی تباہی وبربادی کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔
۷۔(وَكَرِهَ (اللهُ ) لَكُمْ إِضَاعَةِ الْمَالَ) (متّفق عليه)
’’یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف سے مال کے ضیاع کو ناپسند قراردیا ہے‘‘۔
اور سگریٹ نوشی یقیناً اس شخص کے مال کی بربادی کا باعث ہے جو اس کو استعمال کرتا ہے اور یہ ایک ایسا کا م ہے جسے اللہ رب العزّت ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
۱۔بنی نوع انسان کو راہِ راست سے دور رکھنے کے لیے شیطان نے اپنے جن ہتھکنڈوں کو چلانے کی دھمکی دی تھی ان میں سے ایک کے متعلق حق باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّـهِ﴾[النساء:119]
’’اور میں(شیطان) لوگوں کو حکم دوں گا پس وہ میرے کہنے پر الہی ساخت میں تبدیلی کریں گے‘‘[سورہ نساء:۱۱۹]
اور داڑھی مونڈنا اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ چیز میں اس کی مرضی کے خلاف تبدیلی کرنا ہے جو سراسر شیطان کی اطاعت ہے۔
۲۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا﴾[الحشر:7]
’’ اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ ‘‘[سورہ حشر:۷]
اور یہ حقیقت ہے کہ نبی کریمﷺ نے داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ہے۔اور اس کے مونڈھنے سے روکا ہے۔
۳۔رسالت مآب ﷺ کا فرمان ہے:
(جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَأَرْخُوا اللِّحَى خَالِفُوا الْمَجُوسَ )(رواہ مسلم)
یعنی غیرمسلم مجوسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے مونچھوں کے جوبال ہونٹوں سے بڑھ جائیں ان کو کاٹ دو اور داڑھی کو خوب بڑھاؤ۔
۴۔رسولﷺ نے فرمایا ہے:
(عَشْرٌ مِنْ الْفِطْرَةِ قَصُّ الشَّارِبِ وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ وَالسِّوَاكُ وَالِاسْتِنْشَاقُ وَقَصُّ الْأَظْفَارِ ....الخ )(رواه مسلم)
’’دس کا م ایسے ہیں جو عین فطرت کے مطابق ہیں: مونچھوں کا کاٹنا،داڑھی بڑھانا،مسواک کرنا،ناک میں صفائی کی خاطر پانی چڑھانا،بڑھے ہوئے ناخنوں کو کاٹنا ۔۔۔الخ
اور اگرداڑھی کا بڑھانا ایک فطرتی امر ہے توپھر اس کا مونڈنا حرام قرارپاتا ہے۔
(لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَشَبِّهِينَ مِنْ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ) (رواه البخاري)
’’رسولﷺ نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کی مثل بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
اور داڑھی کا مونڈنا یقیناً عورتوں کے مشابہ ہونے کے مترادف ہے اور یہ کام اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کا باعث بنتا ہے۔
۶۔وہ آدمی جنہوں نے اپنے بادشاہوں کے کہنے پراپنی داڑھیوں کو منڈوا اور مونچھوں کوبڑھا رکھا تھا ان کو مخاطب کرکے رسولﷺ نے ارشا د فرمایا تھا:
)... لَكِنِّي أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنْ أُعْفِيَ لِحْيَتِي، وَأَنْ أَ قُصّ شَارِبِي) (حسن، رواه ابن جرير)
’’یعنی میرے عزت والے اور بلند وبالارب نے تو مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم دے رکھا ہے‘‘۔
اور چونکہ داڑھی بڑھانے کا حکم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے دیا گیا ہے ،لہذا اس پر عمل کرنا واجب وضروری ہے۔
۔(قُربِ قیامت کی یہ نشانی ہوگی کہ آدمی بیوی کا فرمانبردار اور ماں کا نافرمان ہوگا، اور اپنے باپ کو دور ہٹائے گا)۔
اگر آپ دنیا وآخرت کی کامیابیوں اور کامرانیوں کو سمیٹنا چاہتے ہوں تو مندرجہ ذیل نصیحتوں کو پَلّے باندھ لیں اور ان پر سختی سے عمل کریں:
۱۔اپنے والدین کو ادب واحترام سے مخاطب کریں اور اپنی زبان پر ان کے لیے اُف تک نہ لائیں اور نہ ہی ان کو جھڑک کرجواب دیں، بلکہ پیار بھرے نرم لہجہ کے ساتھ ان سے گفتگو کریں۔
۲۔ہر وہ کام جس میں اللہ تعالیٰ کی معصیت ونافرمانی نہیں ہے اس میں اپنے والدین کی ہمیشہ اطاعت وفرمانبرداری کرتے رہیں، کیونکہ یہ اصولی بات ہے کہ جس کام میں خالقِ کائنات کی نافرمانی ہونے کا اندیشہ ہو اس میں مخلوق میں سے کسی فرد کی بھی اطاعت جائز نہیں ہے۔
۳۔والدین کے ساتھ لطف وپیار اور شفقت ومحبت کا رویّہ اختیار کریں، اور تیوری چڑھائے ہوئے ترش چہرہ کے ساتھ ان کے سامنے آنے سے اجتناب کریں، اور غصّہ کی حالت میں ان کو تیز نظروں کے ساتھ گھور کرمت دیکھیں۔
۴۔اپنے والدین کے مال،عزّت وآبرو اور ان کی شہرت ونیک نامی کے امین بنیں، اور ان کی اجازت کے بغیر کسی چیز کو ہاتھ تک نہ لگائیں۔
۵۔ والدین کے حکم کا انتظار کیے بغیر ہر وہ کام کرگزریں جس سے ان کو دلی مسرّت حاصل ہوتی ہو،مثال کے طور پر ان کی خدمت کرنا، ان کی ضروریات زندگی کا خیال رکھنا اور طلبِ علم میں نہایت لگن کے ساتھ انتھک محنت کرنا۔
۶۔ہرکام کی ابتدا سے پیشتر والدین سے مشورہ کریں، اگرکوئی کام کسی وجہ سے ان کی مرضی کے خلاف ہوجائے تو اس کے لیے ان سے معذرت کریں۔
۷۔والدین جب تمہیں کسی کام کے لیے بلائیں تو مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ‘‘جی اباجی‘‘’’جی امّی جان‘‘ کہہ کر جواب دیں اور ممی ،ڈیڈی، پاپا اور ماما ایسے غیر مسلموں کے رائج کردہ الفاظ کے استعمال سے گریز کریں۔
۸۔والدین کے عزیز واقارب او ردوست واحباب کا ادب ،احترام ان کی زندگی میں اور ان کے دنیا سے کوچ کرجانے کے بعد بھی برابر بجالاتے رہیں۔
۹۔والدین کے ساتھ جھگڑا وجدال سے اجتناب برتیں ، اور کسی معاملہ میں بھی ان کو قصور وار ٹہرانے کی بے سود کوشش نہ کریں ،اور بڑے ادب کے ساتھ اپنے نقطۂ نگاہ کو ان کے سامنے واضح کرنے کی کوشش کریں۔
۱۰۔کسی کام میں اپنے والدین کا مقابلہ نہ کریں اور نہ ہی ان کے سامنے کڑک کربولیں، بلکہ بڑے ادب کے ساتھ ان کی بات کو خاموشی سے سنیں، اور ان کے احترام کے پیش نظر اپنے بہن بھائیوں میں سے کسی کو پریشان اور تنگ نہ کریں۔
۱۱۔والدین کی آمد پر اٹھ کران کا استقبال کریں، اور ان کے سرکو بوسہ دیں۔
۱۲۔گھر کے کام کاج کی انجام دہی میں اپنی والدہ سے تعاون کریں، اور اسی طرح والد کا ہاتھ بٹانے میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیں۔
۱۳۔کا م چاہے کتنی اہمیت کا حامل کیوں نہ ہو والدین کی اجازت کے بغیر اس کی انجام دہی کے لیے سفر پر ہرگز نہ نکلیں ،اور اگر ان کو بتائے بغیر کسی سفر پر جانا پڑے تو اس کے لیے فوراً ان سے معذرت طلب کریں ، اور گھر سے دور ہونے کی صورت میں والدین کی خیریت دریافت کرنے کے لیے مسلسل ان سے رابطہ رکھیں۔
۱۴۔والدین کی اجازت کے بغیر ان کی آرام گاہ میں نہ جائیں، اور اگر وہ سورہے ہوں یا آرام کررہے ہوں تو اس صورت میں اس بات کا خاص طور پر خیال رکھیں۔
۱۵۔اگر آپ سگریٹ نوشی کے مرض میں مبتلا ہوچکے ہوں تو کم ازکم ان کے سامنے سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں۔
۱۶۔والدین سے پہلے کسی چیز کو تناول نہ کریں اور معلومات ومشروبات میں سے بہتر اور اچھی چیز ان کی خدمت میں پیش کریں۔
۱۷۔جھوٹی بات والدین کی طرف منسوب نہ کریں ،اور اگر ان سے کوئی ایسا عمل سرزد ہوجائے جو تمہیں ناگوار گزرتا ہو تو اس پر انہیں برابھلا نہ کہیں۔
۱۸۔والدین کے مقابلہ میں بیوی بچوں کے ساتھ ترجیحی سلوک نہ کریں ،زندگی کے ہرمعاملہ میں ان کو خوش رکھنے کے لیے ان کی رضا جوئی کا پورا پورا خیال رکھیں، اس لیے کہ والدین کی رضا میں ہی خالقِ کائنا ت کی رضا ہے اور ان کی ناراضگی ہی در اصل اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنتی ہے۔
۱۹۔اپنے بیٹھنے کے لیے والدین سے بہتر جگہ کا انتخاب نہ کریں ،اور جب تک وہ بیٹھے رہیں تب تک ان کے سامنے فخریہ انداز میں ٹانگیں پھیلا کر بیٹھنے سے مکمّل احتراز کریں۔
۲۰۔ آپ چاہے کتنے بڑے افسر ہی کیوں نہ ہوجائیں اپنے والدین کی طرف اپنی نسبت ظاہر کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں، اور ان کے احسانات کو ہرگز فراموش نہ کریں ،اور اپنی کسی حرکت یا بات سے ان کی دل آزاری سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
۲۱۔تمہارے لئے یہ بات یقیناً باعث شرم وندامت ہوگی کہ تم اپنے والدین کے ساتھ ایسا کنجوسانہ رویہ اختیار کرو کہ وہ تمہارے ساتھ تمہاری ہی کنجوسی کا گلہ وشکوہ کرنے لگیں، اور یہ بات اچھی طرح اپنے ذہن میں بٹھالیں کہ اگر تم آج اپنے والدین کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھے ہوئے ہو تو کل تمہیں بھی اپنی اولاد سے ایسے ہی سلوک کی امید رکھناہوگی، کیونکہ یہ فطرت کا قانون ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھروگے۔
۲۲۔کثرت کے ساتھ والدین کی زیارت کو اپنا معمول بنالیں ،اور ان کی خدمت میں زیادہ سے زیادہ تحائف پیش کیا کریں، اور تمہارے والدین تمہاری خاطر جن بے شمار مصائب ومتاعب سے دوچار رہے ہیں اس پر ان کے ہمیشہ شکرگزار رہیں۔ اب تو ویسے بھی اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کے سلسلے میں جن مشکلات کا تمہیں سامنا کرنا پڑرہا ہے اس سےخوب اندازہ ہوگیا ہو کہ تمہارے والدین نے تمہارے لیے کیا کچھ کیا اور کیا کچھ جھیلا ہے۔
۲۳۔ لوگوں میں سے تیرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار تیری ماں ہے، پھر تیرا باپ ،اور اس بات کو خوب اچھی طرح جان لو کہ جنت ماں کے پیروں تلے ہے(یعنی ماں کی خدمت سے جنّت ملتی ہے)۔
۲۴۔والدین کی نافرمانی سے بچواور ان کی ناراضگی کو کسی قسمت پر مول نہ لیں، ورنہ دنیا وآخرت میں بدبخت ونامراد ہوجاؤگے، اور یہ حقیقت ہے کہ جس قسم کا سلوک تم اپنے والدین سے روا رکھو گے ویسا ہی برتاؤ تمہارے بچے تمہارے ساتھ کریں گے۔
۲۵۔والدین سے جب کسی چیز کا مطالبہ کرنا چاہیں تو نہایت ادب واحترام سے کریں اور اگر وہ تمہیں تمہاری مطلوبہ چیز عنایت کردیں تو ان کا شکرادا کریں۔ اگروہ تمہارا مطالبہ پورا کرنے سے معذرت کریں تو ان کی معذرت کا پاس کریں اور مطالبات کی بھر مار سے ان کو پریشان خاطر کرنے کی بھی کوشش نہ کریں۔
۲۶۔جب آپ روزی کمانے کے قابل ہوجائیں تو پھر کسی نہ کسی کسب کے ذریعہ اپنے والدین کا ہاتھ بٹائیں۔
۲۷۔تمہارے والدین کے تمہارے ذمے یقیناً کچھ حقوق ہیں ،اسی طرح تمہاری بیوی کی طرف سے بھی تمہارے اوپر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ، لہذا تمہیں ہر ایک کے حقوق کو پور ی ذمہ داری سے اداکرنا ہوگا،اور اگر تمہارے والدین اور تمہاری بیوی کے درمیان کبھی کوئی اختلاف کی صورت پیدا ہوجائے تو اسے بڑے احسن طریقہ سے ختم کرنے کی ہرممکن کوشش کریں ،اور ہرایک دوسرے کے علم میں لائے بغیر ہردوجانب کی خدمت میں تحفہ وتحائف بھی پیش کرتے رہیں۔
۲۸۔تمہارے والدین کے تمہاری بیوی کے ساتھ اختلاف کی صورت میں تمہیں ایک حکیم ودانا آدمی کا کردار ادا کرنا ہوگا، اور اگر تم محسوس کرو کہ حق کا پلڑا تمہاری بیوی کی جانب جھک رہا ہے تو اپنی بیوی پر اس بات کو دو ٹوک الفاظ میں واضح کردیں کہ میں تمہارے حق پر ہونے کی وجہ سے تو یقیناً تمہارے ساتھ ہوں، لیکن میرے لئے اپنے والدین کو راضی رکھنا بھی ہر حال میں ضروری ہے۔
۲۹۔اگر کسی لڑکی سے شادی کرنے یا اپنی بیوی کو طلاق دینے کے مسئلہ پر تمہارا اپنے والدین سے کوئی اختلاف ہوجائے تو ان حالات میں شریعتِ الہی پر اپنا فیصلہ چھوڑدو،کیونکہ شریعتِ الہی اختلافات کو دورکرنے کے سلسلہ میں تم سب کی بہتر طور پر رہنمائی کرسکتی ہے۔
۳۰۔بچوں کے حق میں والدین کی دعا ہو یا بددعا، دونوں ہی اللہ رب العزّت کے ہاں بہت جلد شرفِ قبولیت حاصل کرلیتی ہیں، لہذا اپنے آپ کو ان کی بد دعا سے ہرممکن بچانے کی کوشش کریں۔
۳۱۔عام لوگوں کے ساتھ بھی تمہیں ادب واحترا م کے ساتھ ہی پیش آنا چاہیے، کیونکہ جو کوئی دوسروں کو برا بھلا کہے گا تو وہ بھی یقیناً جواب میں اس کو برا بھلا ہی کہیں گے۔ پیارے نبی جناب محمد ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
((مِنَ الْكَبَائِرِ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَيْهِ ،قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَهَلْ يَشْتُمُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ ؟ قَالَ : (( نَعَمْ ، يَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ ، فَيَسُبُّ أَبَاهُ ، وَيَسُبُّ أُمَّهُ ، فَيَسُبُّ أُمَّهُ )) (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
’’آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا بھی کبیرہ گناہوں میں سے ہے،صحابہ نے کہا:اے اللہ کے رسول! کیا آدمی اپنے والدین کو بھی گالی دیتا ہے؟ فرمایا: ہاں، وہ اس طرح کہ جب وہ کسی دوسرے انسان کے باپ کو گالی دے گا تو وہ بھی جواب میں اس کے باپ کو گالی دے گا، اور جب وہ دوسرے آدمی کی ماں کو برا بھلا کہے گا تو وہ بھی جواب میں اس کی ماں کو برابھلا ہی کہے گا‘‘۔
۳۲۔والدین سے ملاقات اور ان کی زیارت کاسلسلہ ان کی زندگی میں کبھی بھی منقطع نہ ہونے پائے ،اور ان کے دنیا سے کوچ کرجانے کے بعد بھی ان کی قبر پر جاکران کے حق میں دعا کرکرکے اپنے اس معمول کو برقرار رکھیں، اور ان کی طرف سے باقاعدگی کے ساتھ صدقہ وخیرات بھی کرتے رہیں، اور ان کے حق میں اکثر یہ دعا کیا کریں:
(رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ، رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا)
’’اے میرے رب !مجھے اور میرے والدین کو معاف کردے،پروردگار میرے والدین کے حال پر اس طرح رحمت فرما جس طرح انہوں نے میرے بچپن کے زمانہ میں مجھے محبّت وشفقت سے نوا ز کر میری تربیت وپرورش کی‘‘۔
[1]) )امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ آیت کریمہ﴿وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ﴾ کی تفسیر کے ضمن مذکورہ دونوں حدیثوں سے یہ استدلال کرنا چاہتے ہیں کہ اگر شریعت اسلامیہ میں کسی فعل،حرکت یا طرزِعمل کو کسی قبیح اور بُری چیز کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہو،یا اس کی تصویر کشی اس طرح کی جائے کہ وہ کسی برے اور مکروہ قسم کے منظر کی عکاسی پیش کررہی ہو تو اس سے فعل، حرکت یا طرزِ عمل کے حرام وقابلِ مذمّت ہونے کا پتہ چلتا ہے‘‘۔(مترجم)
[2])) یہ مولّف کی اپنی رائے ہے ورنہ بہت سارے علماء نے ۸۷ گرام یعنی ساڑھے سات تولہ ذکرکیا ہے واللہ اعلم۔ ( م۔ر)۔
[3]) )جمہور علماء کا مسلک تو یہی ہے ،البتہ (بعض )علماء اہل حدیث کا فتویٰ مذکورہ صورت میں یہ ہے کہ مقتدی امام کے ساتھ شامل ہوجائے گا،لیکن رکوع میں ملنے کی صورت میں رکعت شمار نہیں ہوگی ،کیونکہ نماز کی ہر رکعت کیلیے سورت فاتحہ کی قراءت ضروری ہے۔(مترجم)۔