×

تین بنیادی باتیں اور ان کے دلائل (اردو)

سیٹنگ: محمد بن سليمان التميمي

Description

تین بنیادی باتیں اور ان کے دلائل: زیر مطالعہ کتاب شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی تالیف ہے، اس کتاب میں ان کا امور کا بیان ہے جن کی معرفت ہر انسان پر واجب اور ضروری ہے، یہ کتاب اللہ تعالی کی معرفت، وہ عبادات جن کا حکم اللہ تعالی دیا ہے، دین کی معرفت، اس کے مراتب اور ہر مرتبہ کے ارکان، نبی کریم ﷺکی معرفت ، آپﷺ کی مختصر سیرت، بعث بعد الموت، توحید کے ارکان جیسے اہم مباحث پر مشتمل ہے۔

Download Book

تین بنیادی باتیں اور ان کے دلائل

تالیف : شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ

وہ باتیں، جن کا سیکھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ بات اچھی طرح جان لیں -اللہ آپ پر رحم فرمائے- کہ ہمارے لیے چار مسائل سے واقف ہونا ضروری ہے:

پہلا مسئلہ: اللہ تعالیٰ، اس کے نبی ﷺ اور اس کے دین یعنی اسلام کو دلائل کے ساتھ جاننا۔

دوسرا مسئلہ: حاصل کردہ علم پر عمل پیرا ہونا۔

تیسرا مسئلہ: علم وعمل کی طرف لوگوں کو بلانا۔

چوتھا مسئلہ: علم وعمل او ران کى طرف دعوت دینے کى راہ میں درپیش پریشانیوں پر صبر کرنا۔ اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: {شروع اللہ کے نام سے، جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔زمانے کی قسم!بے شک انسان سرتا سر نقصان میں ہے۔سوائے ان لوگوں کے، جو ایمان ﻻئے، نیک عمل کیے اور (جنھوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی[1] ۔

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"اگر اللہ اپنی مخلوق پر بطور حجت صرف اسی ایک سورت کو نازل فرماتا، تو یہ کافی ہوتی۔“

اور امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا (جلد 1 صفحہ 45) :

"اس بات کا بیان کہ علم کی ضرورت قول و عمل سے پہلے ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{سو (اے نبی!) آپ جان لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں۔} [2]یہاں اللہ نے قول وعمل سے پہلے علم کا ذکر کیا ہے۔"

آپ یہ بات بھی اچھی طرح جان لیں -اللہ آپ پر رحم فرمائے- کہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر تین مسائل کی جانکاری حاصل کرنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔

پہلا مسئلہ: اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا، روزی دی اور پھر یوں ہی بے کار نہیں چھوڑ دیا، بلکہ ہماری طرف اپنا رسول بھیجا۔ اب جو اس رسول کی اطاعت کرے گا، وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو اسکی نافرمانی کرے گا، وہ جہنم میں داخل ہو گا۔ اس کا ثبوت اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے:{بے شک ہم نے تمھاری طرف بھی تم پر گواہی دینے واﻻ رسول بھیج دیا ہے، جیسے کہ ہم نے فرعون کے پاس رسول بھیجا تھا۔تو فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی، پس ہم نے اسے سخت (وبال کی) پکڑ میں پکڑ لیا۔} [3]سورہ المزمل آیت: 15-16

دوسرا مسئلہ: اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اس کی عبادت میں کسی کو اس کا ساجھی ٹھہرایا جائے۔ چاہے وہ اللہ کا کوئی قریب ترین فرشتہ یا اس کا بھیجا ہوا نبی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{اور مسجدیں اللہ کے لیے ہیں۔ پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔} [4]سورہ الجن آیت: 18

تیسرا مسئلہ: جس نے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کی اور اللہ کی وحدانیت و یکتائی کو تسلیم کیا، اس کے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ وہ ایسے لوگوں سے ولا کا ناطہ رکھے، جو اللہ اور اس کے رسولکے ساتھ دشمنی رکھتے ہوں؛ خواہ وہ کتنے قریبی رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے۔ گو وه ان کے باپ، ان کے بیٹے، ان کے بھائی یا ان کے کنبہ (قبیلے) کے (عزیز) ہی کیوں نہ ہوں۔ یہی لوگ ہیں، جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو لکھ دیا ہے اور جن کی تائید اپنی طرف سے بھیجی ہوئی وحی اور الہی نصرت وربانی احسان سے کی ہے اور جنھیں ان جنتوں میں داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے خوشک ہیں۔ یہ الہی لشکر ہے۔ آگاه رہو، بے شک اللہ کے گروه والے ہی کامیاب لوگ ہیں۔} [5]سورہ المجادلہ آیت: 22

حنیفیت یعنی ملت ابراہیمی سے مراد محض ایک اللہ کی عبادت ہے۔

آپ یہ بات بھی بخوبی سمجھ لیں -اللہ اپنی طاعت و بندکی کی طرف آپ کی رہ نمائی کرے- کہ حنیفیت یعنى ملت ابراہیمی سے مراد یکسو ہو کر صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا ہے۔ اسی کا حکم اللہ نے تمام لوگوں کو دیا ہے اور اسی کے لیے انھیں پیدا کیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:{اور میں نے جن وانس کو صرف اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔} [6]"يَعْبُدُوِن“ کے معنی ہیں: میرى توحید کا اقرار کریں۔

اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کا حکم دیا ہے، ان میں سب سے بڑی اور اہم چیز 'توحید' ہے، جس کے معنی ہیں صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا۔

اسی طرح اللہ نے جن چیزوں سے منع کیا ہے، ان میں سب سے بڑی اور اہم چیز 'شرک' ہے، جس کے معنی ہیں اللہ کے ساتھ کسی اور کو پکارنا۔ دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو۔} [7]

اگر آپ سے پوچھا جائے کہ وہ کون سی تین بنیادی باتیں ہیں، جن کی جانکاری رکھنا ہر انسان کے لیےضروری ہے؟

تو کہہ دیجیے: بندے کا اپنے رب، اپنے دین اور اپنے نبی یعنی محمد ﷺ کو جاننا اور پہچاننا۔

پھر: اگر آپ سے پوچھا جائے کہ آپ کا رب کون ہے؟

تو کہہ دیجیے کہ میرا رب اللہ ہے، جس نے اپنے فضل وکرم سے میرى اور تمام جہانوں کى پرورش وپرداخت کى اور سب کے لئے ضرورت کی ساری چیزیں مہیا کیں۔ وہی میرا معبود ہے، اس کے سوا میرا کوئی دوسرا معبود نہیں ہے۔ دلیل یہ ارشاد باری تعالی ہے:{ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔} [8]واضح ہو کہ اللہ کے علاوہ ہر چیز 'عالم' میں داخل ہے اور میں بھی اسی 'عالم' کا ایک حصہ ہوں۔

اگر آپ سے پوچھا جائے کہ آپ نے اپنے رب کو کس چیز کے ذریعے پہچانا؟

تو کہہ دیجیے کہ اس کی نشانیوں اور اس کی پیدا کی ہوئی چیزوں کے ذریعے سے۔ اس کی نشانیوں میں سے رات ودن اور، چاند وسورج ہیں، جب کہ اس کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں ساتوں آسمان اور ساتوں زمین کے ساتھ ساتھ ان دونوں کے اندر اور ان کے بیچ کی ساری چیزیں شامل ہیں۔ دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{اور دن رات اور سورج چاند بھی اسی کی نشانیوں میں سے ہیں۔ تم سورج کو سجده نہ کرو اور نہ چاند کو، بلکہ سجده اس اللہ کے لیے کرو، جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے، اگر تمھیں اسی کی عبادت کرنی ہے۔} [9]سورہ فصلت آیت: 37۔

اور اللہ تعالى کا یہ فرمان بھی:{بے شک تمھارا رب اللہ ہی ہے، جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا ہے، پھر عرش پر مستوی ہوا۔ وه رات سے دن کو ایسے چھپا دیتا ہے کہ رات دن کو جلدی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا، ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ یاد رکھو, اللہ ہی کے لیے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا، بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا ہے اللہ، جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔} [10]سورہ الاعراف آیت: 54۔

رب سے مراد معبود ہے۔ دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو، جس نے تمھیں اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمھارا بچاؤ ہے۔جس نے تمھارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کرکے تمھیں روزی دی۔ خبر دار! باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو۔} [11]سورہ البقرہ آیت: 21-22۔

ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس نے ان ساری چیزوں کو پیدا کیا، وہی عبادت کا حق دار ہے۔

عبادت, جس کا اللہ نے حکم دیا ہے,اس کے اقسام

عبادت, جس کا اللہ نے حکم دیا ہے,اس کى اقسام، جیسے اسلام، ایمان، احسان اور ایسے ہی دعا، خوف، رجا، توکل، رغبت، رہبت، خشوع، خشیت، انابت (رجوع)، استعانہ (مدد طلبی)، استعاذہ (پناہ طلبی)، استغاثہ، ذبح وقربانی اور نذر ومنت اور ان کے علاوہ دیگر ساری عبادتیں, یہ سب اللہ ہی کے لیے ہونی چاہییں۔ دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{اور مسجدیں اللہ کے لیں ہیں۔ پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔} [12]سورہ الجن آیت: 18

چنانچہ جس نے ان میں سے کوئی بھی عبادت غیراللہ کے لیے کی، وہ مشرک وکافر ہے۔ دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے، جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں، اس کا حساب تو اس کے رب کے اوپر ہی ہے۔ بےشک کافر لوگ نجات سے محروم ہیں۔} [13]سورہ المؤمنون آیت: 117۔

اور حدیث پاک میں ہے:{دعا عبادت کا مغز ہے۔} [14]اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:{اور تمھارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو، میں تمھاری دعاؤں کو قبول کروں گا۔ یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں، وه عنقریب ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے۔} [15]سورہ غافر آیت: 60۔

خوف کے عبادت ہونے کی دلیل یہ ارشاد الٰہی ہے:{تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو، اگر تم مؤمن ہو۔} [16]سورہ آل عمران آیت: 175۔

امید ورجا کے عبادت ہونے کی دلیل یہ ارشاد الٰہی ہے:{تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو، اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔} [17]سورہ الکھف آیت: 110۔

توکل کے عبادت ہونے کی دلیل یہ ارشاد الٰہی ہے:{اور تم اگر مؤمن ہو تو تمھیں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔} [18]سورہ المائدہ آیت: 23۔{جو شخص اللہ پر توکل کرے گا، اللہ اسے کافی ہوگا۔} [19]سورہ الطلاق آیت: 3۔

رغبت و رہبت اور خشوع کے عبادت ہونے کی دلیل یہ فرمان باری تعالیٰ ہے:{یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں ﻻلچ، طمع اور ڈر خوف سے پکارتے تھے اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے۔} [20]

خشیت کے عبادت ہونے کی دلیل یہ ارشاد الٰہی ہے:{خبردار! تم ان سے نہ ڈرنا ور مجھ سے ڈرتے رہنا۔} [21]سورہ المائدہ آیت: 3۔

انابت اور رجوع کے عبادت ہونے کی دلیل یہ ارشاد الٰہی ہے:{تم (سب) اپنے رب کی طرف لوٹ پڑو اور اس کی حکم برداری کیے جاؤ۔} [22]سورہ الزمر آیت: 54۔

استعانت (مدد طلبی) کے عبادت ہونے کی دلیل یہ ارشاد الٰہی ہے:{ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔} [23]سورہ الفاتحہ آیت: 5۔

اور حدیث پاک میں ہے:"جب تم مدد طلب کرو، تو اللہ تعالیٰ سے ہی طلب کرو۔" [24]۔

استعاذہ (پناہ طلبی) کے عبادت ہونے کی دلیل یہ ارشاد الٰہی ہے:{آپ کہہ دیجیے کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناه میں آتا ہوں۔لوگوں کے مالک کی پناہ میں۔} [25]۔

استغاثہ کے عبادت ہونے کی دلیل یہ ارشاد الٰہی ہے:{اس وقت کو یاد کرو، جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمھاری سن لی۔} [26]سورہ الانفال آیت: 9۔

ذبح وقربانی کے عبادت ہونے کی دلیل یہ ارشاد الٰہی ہے:{اور آپ فرما دیجیے کہ یقینا میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا (سب خالص) اللہ رب العالمين کے لیے ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں۔} [27]سور‏ہ الانعام آیت: 162-163۔

اور سنت سے اس کی دلیل یہ ارشاد رسالت مآب ﷺ ہے:"جس نے غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کیا، اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔“ [28]۔

نذر کے عبادت ہونے کی دلیل یہ ارشاد الٰہی ہے:{جو نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں، جس کی برائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے۔} [29}سورہ الدھر آیت: 7۔

دوسری بنیادی بات: دین اسلام کو دلائل کے ساتھ جاننا

اسلام کے معنی ہیں توحید کو اختیار کرتے ہوئے اللہ کے آگے سپر ڈال دینا، اس کی اطاعت و بندگی کو اختیار کرتے ہوئے اس کا مطیع وفرمانبردار ہوجانا اور شرک کی آلائشوں سے پاک رہنا۔ دین اسلام کے کے تین درجے ہیں:

اسلام، ایمان,احسان۔ ساتھ ہی ہر درجے کے کچھ ارکان بھی ہیں۔

پہلا درجہ: اسلام

اسلام کے پانچ ارکان ہیں: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیںاور محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکٰوۃ ادا کرنا، رمضان المبارک کے روزے رکھنا اور بیت اللہ شریف کا حج کرنا۔

گواہی کی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:{اللہ نے خود اس بات کی گواہی دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور فرشتے اور سب اہل علم بھی (گواہی دیتے ہیں) کہ وہی حاکم ہے انصاف کے ساتھ، اس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں، جو غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔} [29]سورہ آل عمران آیت: 18۔اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔(لا الہ) میں اللہ کے سوا ان تمام چیزوں کی نفی ہے، جن کی عبادت ہوتی ہے۔ (إلا الله) میں صرف ایک اللہ کی عبادت کا اثبات ہے، جس کی عبادت اور بادشاہت میں اس کا کوئی شریک و ساجھی نہیں ہے۔اس شہادت کی تفسیر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان مکمل وضاحت کے ساتھ بیان کررہا ہے:{اور جب کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد سے اور اپنی قوم سے فرمایا کہ میں ان چیزوں سے بیزار ہوں، جن کی تم عبادت کرتے ہو، بجز اس ذات کے، جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی مجھے ہدایت بھی کرے گا۔اور (ابراہیم علیہ السلام) اسی کو اپنی اوﻻد میں بھی باقی رہنے والی بات قائم کر گئے؛ تاکہ لوگ (شرک سے) باز آتے رہیں۔} [30]سورہ الزخرف آیت: 26-27-28۔

اور اللہ تعالى کا یہ فرمان بھی:(آپ کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ، جو ہم میں اور تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں، نہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں۔ پس اگر وه منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواه رہو، ہم تو مسلمان ہیں۔} [31]سورہ آل عمران آيت : 64۔

اس بات کی گواہی کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اس کی دلیل ارشاد باری ہے:{تمھارےپاس ایک ایسے پیغمبر تشریف ﻻئے ہیں، جو تمھاری جنس سے ہیں، جن کوتمھاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے، جو تمھاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں، ایمان والوں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اورمہربان ہیں۔} [32]سورہ التوبۃ آيت: 128۔اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی دینے کا مطلب ہے: آپ کے حکموں کی تعمیل کرنا، آپ کی بتائی ہوئی باتوں کو سچ جاننا، آپ کى منع کی ہوئی چیزوں سے دور رہنا اور آپ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہی اللہ کی عبادت کرنا۔

نماز اور زکٰوۃ کے ساتھ ساتھ توحید کی تفسیر کی مشترکہ دلیل یہ ارشاد باری تعالی ہے:{انھیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں، اسی کے لیے دین کو خالص کرکے اور یکسو ہو کر، نماز قائم رکھیں اور زکوٰة دیتے رہیں۔ یہی ہے دین سیدھی ملت کا۔} [33]سورہ البینہ آیت: 5۔

رمضان المبارک کے روزے رکھنے کی دلیل یہ ارشاد الٰہی ہے:{اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ والے ہوجاؤ۔} [34](سورہ البقرہ آیت: 183۔

بیت اللہ شریف کا حج کرنے کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:{اور الله کا لوگوں پر یہ حق ہے کہ جو بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، وہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے، تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔} [35]سورہ آل عمران آیت: 97۔

دوسرا درجہ: ایمان

ایمان کی ستر سے زائد شاخیں ہیں، جن میں اعلٰی ترین شاخ "لا إلٰہ إلا اللہ“ کا اقرار ہے اور سب سے ادنٰی شاخ راستے سے ضرر رساں چیزوں کو ہٹانا ہے۔ اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔

اور ایمان کے چھ ارکان ہیں: اللہ پر ایمان لانا، اس کے فرشتوں پر ایمان لانا، اس کی کتابوں پر ایمان لانا، اس کے رسولوں پر ایمان لانا، قیامت کے دن پر ایمان لانا اور اچھی و بُری تقدیر پر ایمان لانا۔

ایمان کے ان چھ ارکان کی دلیل اللہ تعالی کا یہ ارشاد گرامی ہے:{ساری اچھائی مشرق ومغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں؛ بلکہ حقیقتاً اچھا وه شخص ہے، جو اللہ تعالیٰ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، اللہ کى نازل کردہ تمام کتابوں پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے واﻻ ہو۔} [36]سورہ البقرہ آیت: 177۔

اور تقدیر پر ایمان کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:{بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک (مقرره) اندازے پر پیدا کیا ہے۔} [37]سورہ القمر آیت: 49۔

تیسرا درجہ: احسان۔ اس کا ایک ہی رکن ہے۔

اور وہ یہ ہے کہ آپ اللہ کی عبادت اس طرح کریں، گویا آپ اسے دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ تصور پیدا نہیں کرسکتے، تو اتنا خیال ضرور رکھیں کہ وہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں اور نیک کاروں کے ساتھ ہے۔} [38]سورہ النحل آیت: 128۔

اور اللہ تعالى کا یہ فرمان بھی:{اپنا پورا بھروسہ غالب مہربان اللہ پر رکھ،جو تجھے دیکھتا رہتا ہے، جب تو کھڑا ہوتا ہے،اور سجده کرنے والوں کے درمیان تیرا گھومنا پھرنا بھی۔وه بڑا سننے واﻻ اور خوب جاننے واﻻ ہے۔} [39]سورہ الشعراء آيت: 217-220۔

اور اللہ تعالى کا یہ فرمان بھی:{اور آپ کسی حال میں ہوں اور من جملہ ان احوال کے آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور تم جو کام بھی کرتے ہو، ہم کو سب کی خبر رہتی ہے، جب تم اس کام میں مشغول ہوتے ہو۔} [40]سورہ یونس آیت: 61۔

اور سنت سے دلیل عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی وہ مشہور حدیث ہے، جو حدیث جبریل کے نام سے مشہور ہے۔ وہ کہتے ہیں:

"ایک دن ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص وارد ہوا۔ اس کے کپڑے بہت ہی سفید اور اس کے بال بڑے ہی کالے تھے۔ اس پر سفر کے نشانات دکھائی نہیں دے رہے تھے اور اسے ہم میں سے کوئی جانتا بھی نہ تھا۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے دونوں گھٹنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دونوں گھٹنوں کے ساتھ ملائے، اپنی ہتھیلیوں کو آپ کی رانوں پر رکھا اور آپ سے دریافت کیا: اے محمد! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے! آپ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کی ذات کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور اس بات کی گواہی دے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں اور تو نماز قائم کرے، زکوۃ دے، رمضان کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کرے، بشرطیکہ اس کی طرف سفر کی طاقت ہو۔ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ اس پر ہمیں تعجب ہوا کہ یہ شخص آپ سے دریافت بھی کر رہا ہے اور پھر آپ کی تصدیق بھی کر رہا ہے۔

اس نے کہا کہ مجھے ایمان کے بارے میں بتائیں۔ آپ نے فرمایا: تو اللہ، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں، آخرت کے دن اور بھلی بری تقدیر پر ایمان رکھے۔ اس نے کہا: آپ کی باتیں درست ہیں۔ اس نے دریافت کیا کہ مجھے احسان کے بارے میں بتائیں۔ آپ نے فرمایا: تو اللہ کی عبادت اس طرح کرگویا تو اسے دیکھ رہا ہے۔ اگر تو اسے دیکھ نہیں رہا ہے، تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اسے نے کہا کہ مجھے قیامت کے بارے میں بتائیں۔ آپ نے جواب دیا: قیامت کا علم مجھے تجھ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس نے کہا: مجھے قیامت کی علامتوں کے بارے میں بتائیں۔ آپ نے فرمایا: لونڈی کا اپنی مالکن کو جنم دینا اور تم یہ دیکھو کہ ننگے پاؤں، ننگے بدن، کنگال اور بکریوں کے چرواہے محلات کی تعمیر میں فخر و مباہات کے طور پر مقابلہ کرنے لگیں ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اتنا سننے کے بعد وہ چل پڑا۔ کچھ دیر تک ہم وہیں رہے۔ پھر آپ نے کہا: اے عمر! کیا تم جانتے ہو کہ یہ پوچھنے والا کون تھا؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو بہتر معلوم ہے۔ آپ نے کہا: یہ جبریل تھے، جو تمھیں تمھارا دین سکھانے آئے تھے۔" [41]

تیسری بنیادی بات: تہمہارا اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جاننا

ہمارے نبی محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ ہاشم کا تعلق قریش سے تھا اور قریش ایک عرب قبیلہ تھا اور عرب خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام کے صاحبزادے اسماعیل علیہالسلام کی نسل سے ہیں۔ ان پر اور ہمارے نبی پر درود و سلام ہو۔

آپ کو تریسٹھ سال کی عمر ملی۔ چالیس سال نبوت سے پہلے بسر ہوئے اور تیئس سال نبی و رسول بننے کے بعد۔

آپ سورۂ علق کی ابتدائی آیتوں کے ذریعے نبی بنائے گئے اور سورۂ مدثر کے ذریعے رسول۔

آپ کى پیدائش سرزمین مکہ میں ہوئی تھی۔ اللہ نے آپ کو شرک سے ڈرانے والا اور توحید کی جانب بلانے والا بناکر بھیجا تھا۔ دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

{اے کپڑا اوڑھنے والے!

کھڑا ہو جا اور آگاہ کر دے۔

اور اپنے رب ہی کی بڑائیاں بیان کر۔

اپنے اعمال کو شرک سے پاک رکھ۔

ناپاکی کو چھوڑ دے۔

اور احسان کرکے زیاده لینے کی خواہش نہ کر۔

اور اپنے رب کی راہ میں صبر کر۔} [43]

سورہ المدثر آیت: 1-7۔

"قُمْ فَأَنذِرْ“ کا معنی ہے: آپ ﷺ لوگوں کو شرک سے ڈرائیں اور توحید کی طرف بلائیں۔"ربك فكبر" کا معنی ہے: آپ توحید کے ذریعے اللہ کی عظمت بیان کریں۔"وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ“ کا مفہوم ہے: آپ اپنے اعمال کو شرک سے پاک رکھیں۔"وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ“: الرجز کا معنی اصنام (بت) اور "فَاهْجُرْ“ (ان کو چھوڑ دے) کا مطلب ہے:آپ بتوں سے اور ان کے بنانے اور پوجنے والوں سے دور رہیں نیز ان اصنام اور ان کے پر ستار مشرکوں سے بیزاری و براءت کا اظہار کریں۔آپ ﷺ اسی کے مطابق دس سالوں تک لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے۔ دس سال کے بعد آپ ﷺ کو آسمانوں کی سیر (معراج) کرائی گئی اور پانچ وقتوں کی نماز فرض کی گئی۔ آپ ﷺ تین سال تک مکہ مکرمہ میں نماز ادا کرتے رہے۔ اس کے بعد مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم ملا۔ہجرت شرک کے علاقے کو چھوڑ کر توحید کے علاقے میں چلے جانے کا نام ہے۔ شرک کے علاقے سے اسلام کے علاقے کی جانب ہجرت کرنا اس امت پر فرض ہے اور ہجرت قیامت تک باقی رہے گى۔اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:{جو لوگ اپنی جانوں پر ﻇلم کرنے والے ہیں، جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں، تو پوچھتے ہیں، تم کس حال میں تھے؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے۔ فرشتے کہتے ہیں: کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشاده نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں، جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وه پہنچنے کی بری جگہ ہے؛مگر جو مرد، عورتیں اور بچے بے بس ہیں، جنھیں نہ کسی چارۂ کار کی طاقت اور نہ کسی راستے کا علم ہے،بہت ممکن ہے کہ اللہ ان سے درگزر کرے۔ اللہ درگزر کرنے والا اور معاف فرمانے والا ہے۔} [44]سورہ النساء آیت: 97-99۔

"ربك فكبر" کا معنی ہے: آپ توحید کے ذریعے اللہ کی عظمت بیان کریں۔

"وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ“ کا مفہوم ہے: آپ اپنے اعمال کو شرک سے پاک رکھیں۔

"وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ“: الرجز کا معنی اصنام (بت) اور "فَاهْجُرْ“ (ان کو چھوڑ دے) کا مطلب ہے:آپ بتوں سے اور ان کے بنانے اور پوجنے والوں سے دور رہیں نیز ان اصنام اور ان کے پر ستار مشرکوں سے بیزاری و براءت کا اظہار کریں۔

آپ ﷺ اسی کے مطابق دس سالوں تک لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے۔ دس سال کے بعد آپ ﷺ کو آسمانوں کی سیر (معراج) کرائی گئی اور پانچ وقتوں کی نماز فرض کی گئی۔ آپ ﷺ تین سال تک مکہ مکرمہ میں نماز ادا کرتے رہے۔ اس کے بعد مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم ملا۔

ہجرت شرک کے علاقے کو چھوڑ کر توحید کے علاقے میں چلے جانے کا نام ہے۔ شرک کے علاقے سے اسلام کے علاقے کی جانب ہجرت کرنا اس امت پر فرض ہے اور ہجرت قیامت تک باقی رہے گى۔

اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:

{جو لوگ اپنی جانوں پر ﻇلم کرنے والے ہیں، جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں، تو پوچھتے ہیں، تم کس حال میں تھے؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے۔ فرشتے کہتے ہیں: کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشاده نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں، جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وه پہنچنے کی بری جگہ ہے؛

مگر جو مرد، عورتیں اور بچے بے بس ہیں، جنھیں نہ کسی چارۂ کار کی طاقت اور نہ کسی راستے کا علم ہے،

بہت ممکن ہے کہ اللہ ان سے درگزر کرے۔ اللہ درگزر کرنے والا اور معاف فرمانے والا ہے۔} [44]

سورہ النساء آیت: 97-99۔

اور اللہ تعالى کا یہ فرمان بھی:{اے میرے ایمان والے بندو! میری زمین بہت کشاده ہے، سو تم میری ہی عبادت کرو۔} [45]سورہ العنکبوت آیت: 56۔

{اے میرے ایمان والے بندو! میری زمین بہت کشاده ہے، سو تم میری ہی عبادت کرو۔} [45]

سورہ العنکبوت آیت: 56۔

امام بغوی رحمہ اللہ نے اس آیت کے شان نزول کے بارے میں کہا ہے:"یہ آیت ان مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی، جو مکہ شریف میں رہ گئے تھے اور جنھوں نے ہجرت نہیں کی تھی۔ اللہ نے انھیں ایمان کے وصف سے متصف کر کے پکارا ہے۔“اور حدیث سے ہجرت کی دلیل رسول اکرم ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے:"ہجرت ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ توبہ کا سلسلہ ختم ہوجائے اور توبہ ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ سورج پچھم سے نکل آئے۔“ [46]جب مدینے میں آپ کو استقلال نصیب ہوا، تو اسلام کے بقیہ احکامات کا آپ کو حکم دیا گیا، جیسے زکوۃ، روزہ، حج، اذان، جہاد, امر بالمعروف اور ہی عن المنکر وغیرہ دیگر شرائع اسلام۔ اس کے مطابق آپ نے دس سال گذارے۔

"یہ آیت ان مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی، جو مکہ شریف میں رہ گئے تھے اور جنھوں نے ہجرت نہیں کی تھی۔ اللہ نے انھیں ایمان کے وصف سے متصف کر کے پکارا ہے۔“

اور حدیث سے ہجرت کی دلیل رسول اکرم ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے:

"ہجرت ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ توبہ کا سلسلہ ختم ہوجائے اور توبہ ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ سورج پچھم سے نکل آئے۔“ [46]

جب مدینے میں آپ کو استقلال نصیب ہوا، تو اسلام کے بقیہ احکامات کا آپ کو حکم دیا گیا، جیسے زکوۃ، روزہ، حج، اذان، جہاد, امر بالمعروف اور ہی عن المنکر وغیرہ دیگر شرائع اسلام۔ اس کے مطابق آپ نے دس سال گذارے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہو چکی ہے، لیکن آپ کا دین باقی ہے۔ آپ نے امت کو ہر بھلائی کی راہ دکھائی ہے اور ہر برائی سے آگاہ کیا ہے۔جس خیر کى طرف آپ نے امت کى رہتمائی کى, اس میں سر فہرست توحید ہے نیز اس میں اللہ کى پسند ورضا کے سارے کام شامل ہیں، اور جس شر اور برائی سے آپ نے ڈرایا ہے, اس مین سر فہرست شرک ہے ساتھ ہی اس میں تمام وہ کام شامل ہیں جو اللہ کو ناپسند اور ناگوار ہیں۔اللہ نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے نبی بناکر بھیجا اور سارے جنوں اور انسانوں پر آپ کی اطاعت کو فرض کیا۔ اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں۔} [47]سورہ الاعراف آیت: 158۔اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذریعے دین اسلام کو مکمل کر دیا۔

جس خیر کى طرف آپ نے امت کى رہتمائی کى, اس میں سر فہرست توحید ہے نیز اس میں اللہ کى پسند ورضا کے سارے کام شامل ہیں، اور جس شر اور برائی سے آپ نے ڈرایا ہے, اس مین سر فہرست شرک ہے ساتھ ہی اس میں تمام وہ کام شامل ہیں جو اللہ کو ناپسند اور ناگوار ہیں۔

اللہ نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے نبی بناکر بھیجا اور سارے جنوں اور انسانوں پر آپ کی اطاعت کو فرض کیا۔ اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

{آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں۔} [47]

سورہ الاعراف آیت: 158۔

اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذریعے دین اسلام کو مکمل کر دیا۔

اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:{آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھر پور کردیا اور تمھارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔}سورہ المائد‏‏ہ آیت: 3۔

{آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھر پور کردیا اور تمھارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔}

سورہ المائد‏‏ہ آیت: 3۔

آپ ﷺ کی وفات ہو چکی ہے، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:{یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں،پھر تم سب کے سب قیامت والے دن اپنے رب کے سامنے جھگڑو گے۔} [49]سورہ الزمر آیت: 30-31۔سارے لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوکر اٹھیں گے۔ اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{اسی (زمین میں) سے ہم نے تمھیں پیدا کیا، اسی میں پھر تمھیں واپس لوٹائیں گے اور اسی سے پھر دوباره تم سب کو نکال کھڑا کریں گے۔} [50]سورہ طہ آیت: 55۔

{یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں،

پھر تم سب کے سب قیامت والے دن اپنے رب کے سامنے جھگڑو گے۔} [49]

سورہ الزمر آیت: 30-31۔

سارے لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوکر اٹھیں گے۔ اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

{اسی (زمین میں) سے ہم نے تمھیں پیدا کیا، اسی میں پھر تمھیں واپس لوٹائیں گے اور اسی سے پھر دوباره تم سب کو نکال کھڑا کریں گے۔} [50]

سورہ طہ آیت: 55۔

اور اللہ تعالى کا یہ فرمان بھی:اور اللہ نے تم کو زمین سے ایک (خاص اہتمام سے) اگایا ہے ( پیدا کیا ہے)،پھر تمہیں اسی میں لوٹائے گا اور (ایک خاص طریقہ) سے پھر نکالے گا۔} [51]سورہ نوح آیت: 17-18۔اور اٹھائے جانے کے بعد ان کا حساب و کتاب ہوگا اور انھیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ دلیل یہ ارشاد باری تعالی ہے:{اور اللہ ہی کا ہے، جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ برے عمل کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور نیک کام کرنے والوں کو اچھا بدلہ عنایت فرمائے۔} [52]سورہ النجم آیت: 31۔

اور اللہ نے تم کو زمین سے ایک (خاص اہتمام سے) اگایا ہے ( پیدا کیا ہے)،

پھر تمہیں اسی میں لوٹائے گا اور (ایک خاص طریقہ) سے پھر نکالے گا۔} [51]

سورہ نوح آیت: 17-18۔

اور اٹھائے جانے کے بعد ان کا حساب و کتاب ہوگا اور انھیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ دلیل یہ ارشاد باری تعالی ہے:

{اور اللہ ہی کا ہے، جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ برے عمل کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور نیک کام کرنے والوں کو اچھا بدلہ عنایت فرمائے۔} [52]

سورہ النجم آیت: 31۔

موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کو جھٹلانے والا کافر ہے۔ دلیل یہ ارشاد باری تعالی ہے:{ان کافروں نے خیال کیا ہے کہ دوباره زنده نہ کیے جائیں گے۔ آپ کہہ دیجیے کہ کیوں نہیں، اللہ کی قسم! تم ضرور دوباره اٹھائے جاؤ گے۔ پھر جو تم نے کیا ہے، اس کی خبر دیے جاؤ گے اور اللہ پر یہ بالکل ہی آسان ہے۔} [53]سورہ التغابن آیت: 7۔اللہ نے تمام رسولوں کو خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بناکر بھیجا تھا۔ دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:{ہم نے انھیں رسول بنایا ہے، خوش خبریاں سنانے والے اور آگاه کرنے والے؛ تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر ره نہ جائے۔} [54]سورہ النساء: 165۔سب سے پہلے رسول نوح علیہ السلام اور سب سے آخری رسول محمد ﷺ ہیں اور آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں۔

{ان کافروں نے خیال کیا ہے کہ دوباره زنده نہ کیے جائیں گے۔ آپ کہہ دیجیے کہ کیوں نہیں، اللہ کی قسم! تم ضرور دوباره اٹھائے جاؤ گے۔ پھر جو تم نے کیا ہے، اس کی خبر دیے جاؤ گے اور اللہ پر یہ بالکل ہی آسان ہے۔} [53]

سورہ التغابن آیت: 7۔

اللہ نے تمام رسولوں کو خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بناکر بھیجا تھا۔ دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

{ہم نے انھیں رسول بنایا ہے، خوش خبریاں سنانے والے اور آگاه کرنے والے؛ تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر ره نہ جائے۔} [54]

سورہ النساء: 165۔

سب سے پہلے رسول نوح علیہ السلام اور سب سے آخری رسول محمد ﷺ ہیں اور آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں۔

نوح علیہ السلام سب سے پہلے رسول ہیں، اس کی دلیل یہ ارشاد الٰہی ہے:{یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے، جیسے کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی تھی۔} [55]سورہ النساء آیت: 163۔اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام سے لے کر محمد ﷺ تک ہر امت کی طرف رسول بھیجے ہیں، جو اپنی امت کے لوگوں کو صرف اللہ کی عبادت کا حکم دیتے اور "طاغوت“ کی عبادت سے منع کرتے چلے آئے ہیں۔ دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:{اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت سے بچو۔} [56]سورہ النحل آیت: 36۔اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں (جن وانس) پر طاغوت کا انکار اور اللہ پر ایمان لانا فرض قرار دیا ہے۔

{یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے، جیسے کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی تھی۔} [55]

سورہ النساء آیت: 163۔

اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام سے لے کر محمد ﷺ تک ہر امت کی طرف رسول بھیجے ہیں، جو اپنی امت کے لوگوں کو صرف اللہ کی عبادت کا حکم دیتے اور "طاغوت“ کی عبادت سے منع کرتے چلے آئے ہیں۔ دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت سے بچو۔} [56]

سورہ النحل آیت: 36۔

اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں (جن وانس) پر طاغوت کا انکار اور اللہ پر ایمان لانا فرض قرار دیا ہے۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ "طاغوت“ کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:"طاغوت کے اندر وہ سارے معبود، متبوع اور مطاع داخل ہیں، جن کى وجہ سے بندہ اپنىحد سے تجاوز کر جائے۔ طاغوت بے شمار ہیں۔ لیکن سرغنہ پانچ ہیں۔ ابلیس اس پر اللہ کی لعنت ہو، وہ انسان جس کی عبادت کی جائے اور وہ اس سے راضی ہو، ایسا شخص جو لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دے، ایسا انسان جو علم غیب میں سے کسى چیز کا دعوى کرے اور ایسا آدمی جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کو چھوڑ کر کسی اور چیز کی بنیاد پر فیصلہ کرے۔"اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:{دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت ضلالت سے روشن ہوچکی ہے، اس لیے جو شخص طاغوت (اللہ کے سوا پوجى جانے والى تمام چیزوں) کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ پر ایمان ﻻئے، اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا، جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے واﻻ، جاننے واﻻ ہے۔} [57}سورہ البقرہ آیت: 256۔یہی 'لا إلٰہ إلا اللہ' کا صحیح مفہوم و معنی ہے۔

"طاغوت کے اندر وہ سارے معبود، متبوع اور مطاع داخل ہیں، جن کى وجہ سے بندہ اپنىحد سے تجاوز کر جائے۔ طاغوت بے شمار ہیں۔ لیکن سرغنہ پانچ ہیں۔ ابلیس اس پر اللہ کی لعنت ہو، وہ انسان جس کی عبادت کی جائے اور وہ اس سے راضی ہو، ایسا شخص جو لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دے، ایسا انسان جو علم غیب میں سے کسى چیز کا دعوى کرے اور ایسا آدمی جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کو چھوڑ کر کسی اور چیز کی بنیاد پر فیصلہ کرے۔"

اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:

{دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت ضلالت سے روشن ہوچکی ہے، اس لیے جو شخص طاغوت (اللہ کے سوا پوجى جانے والى تمام چیزوں) کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ پر ایمان ﻻئے، اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا، جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے واﻻ، جاننے واﻻ ہے۔} [57}

سورہ البقرہ آیت: 256۔

یہی 'لا إلٰہ إلا اللہ' کا صحیح مفہوم و معنی ہے۔

حدیث پاک میں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:"دین کی اصل اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے اور اس کی چوٹی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔“ [58]۔اوراللہ بہتر جانتا ہے۔

"دین کی اصل اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے اور اس کی چوٹی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔“ [58]۔

اوراللہ بہتر جانتا ہے۔



[1] سورہ العصر آیت: 1-

[2] سورہ محمد آیت: 19۔

[3] سورہ المزمل آیت: 15-16۔

[4] سورہ الجن آیت: 18۔

[5] سورہ المجادلہ آیت: 22۔

[6] سورہ الذاریات آیت: 56۔

[7] سورہ النساء آیت: 36۔

[8] سورہ الفاتحہ آیت: 2۔

[9] سورہ فصلت آیت: 37۔

[10] سورہ الاعراف آیت: 54۔

[11] سورہ البقرہ آیت: 21-22۔

[12] سورہ الجن آیت: 18۔

[13] سورہ المؤمنون آیت: 117۔

[14] سنن ترمذی، الدعوات (3371)۔

[15]

[16] سورہ آل عمران آیت: 175۔

[17] سورہ الکھف آيت: 110۔

[18] سورہ المائدہ آیت: 23۔

[19]

[20] سورہ الانبیاء آیت: 90۔

[21] سورہ البقرہ آیت: 150۔

[22] سورہ الزمر آیت: 54۔

[23] سورہ الفاتحہ آیت: 5۔

[24] سنن ترمذی، صفة القيامة والرقائق والورع (2516) ، مسند احمد (1/308)۔

[25] سورہ الناس آیت: 1-2۔

[26] سورہ الانفال آیت: 9۔

[27] سورہ الانعام آیت: 162-163۔

[28] صحیح مسلم الأضاحي (1978) ، سنن النسائي الضحايا (4422) ، مسند احمد (1/118)۔

[29] سورہ آل عمران آیت: 18۔

[30]

[31] سورہ آل عمران آیت: 64۔

[32] سورہ التوبہ آیت: 128۔

[33] سورہ البینہ آیت: 5۔

[34] سورۃ البقرہ آیت: 183۔

[35] سورہ آل عمران آیت: 97۔

[36] سورہ البقرہ آیت: 177۔

[37] سورہ القمر آیت: 49۔

[38] سورہ النحل آیت: 128۔

[39] سورہ الشعراء آیت: 217-220۔

[40] سورہ یونس آیت: 61۔

[41] صحیح مسلم الإيمان (8)، سنن ترمذي الإيمان (2610)، سنن نسائي الإيمان وشرائعه (4990)، سنن أبی داود السنة (4695)، سنن ابن ماجه مقدمة (63)، مسند احمد (1/52)۔

معلومات المادة باللغة العربية