الوصف
رسالة مختصرة باللغة الأردية، كتبها الإمام المجدد شيخ الإسلام محمد بن عبد الوهاب رحمه الله، وقد اشتملت على تقرير ومعرفة قواعد التوحيد، وقواعد الشرك، ومسألة الحكم على أهل الشرك، والشفاعة المنفية والشفاعة المثبتة.
ترجمات أخرى 28
شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ
بسم الله الرحمن الرحيم (شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم واﻻ ہے)
میں عرش عظیم کے رب، اللہ کریم سے دعا گو ہوں کہ وہ آپ کو دنیا و آخرت میں اپنا دوست بنائے۔
اور آپ جہاں کہیں بھی رہیں اللہ تعالی آپ کو بابرکت بنائے،
اور آپ کو ان لوگوں میں سے کردے جو نعمت ملنے پر شکر ادا کرتے ہیں،
آزمائش میں مبتلا ہونے پر صبر کرتے ہیں،
اور گناہ کا ارتکاب ہو جانے پر مغفرت طلب کرتے ہیں۔
کیونکہ بلا شبہ یہ تینوں صفات سعادت مندی کا عنوان ہیں۔
یہ بات جان لو، اللہ آپ کى اپنی اطاعت وفرماں برداری کی طرف رہنمائی فرمائے، کہ حنیفیت ابراہیم علیہ السلام کى ملت كا نام ہے، (اور وہ یہ ہے) کہ آپ تنہا اللہ تعالی کی عبادت کریں بندگی کو اسى کے ليے خالص کرتے ہوئے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں۔“
جب آپ نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالی نے آپ کوصرف اپنی عبادت کے ليے پیدا فرمایا ہے۔ تو یہ بھی جان لیں کہ بغیر توحید کے کسی بھی عبادت کو حقیقی معنوں میں عبادت نہیں کہاجا سکتا،
بالکل ایسے ہی جیسے کہ کسی نماز کو بغیر طہارت (وضو) کے صحیح طور پر نماز نہیں کہا جا سکتا۔
اسی لیے جب عبادت مین شرک داخل ہو جاتا ہے تو وہ فاسد ہوجاتی ہے،
جیسا کہ طہارت کے بعد حدث لاحق ہوجائے تو طہارت زائل ہوجاتی ہے۔
جب آپ نے یہ اچھی طرح سے جان لیا کہ عبادت میں جب شرک کی آمیزش ہوجائے تو وہ اسے فاسد کر دیتا ہے اور عمل کو برباد کر دیتا ہے، اور اس کا مرتکب ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم كامستحق ہوجاتا ہے۔
تو آپ کو اس سے بخوبی علم ہوچکا ہوگا کہ آپ کے لیے سب سے اہم اور ضروری اس (شرک) کی معرفت ہے، امید کہ اللہ آپ کو اس (شرک کے) جال سے نجات دے،
اور وہ: اللہ کے ساتھ شرک (کا جال) ہے
جس کے بارے میں اللہ تعالی كا فرمان ہے:
"یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔“
اوریہ (شرک سے نجات) ان چار قواعد کی معرفت سے حاصل ہوسکتی ہے جنہیں اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے:
پہلا قاعدہ:
یہ جان لیں کہ جن کفار و مشرکین سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کی وہ اس بات کا اقرار کرنے والے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق اور مدبر ہے،
لیکن اس اقرار نے انہیں اسلام میں داخل نہ کیا؛
اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے:
"آپ کہیے کہ وه کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وه کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وه کون ہے جو زنده کو مرده سے نکالتا ہے اور مرده کو زنده سے نکالتا ہے اور وه کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ ضرور وه یہی کہیں گے کہ اللہ، تو ان سے کہیے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے۔“
دوسرا قاعدہ:
وہ (مشرکینِ عرب) کہتے تھے کہ: ہمارا غیر اللہ کو پکارنے اور ان کی طرف متوجہ ہونے کا مقصد صرف شفاعت اور تقربِ الٰہی کا حصول ہے۔
قربت کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
"اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیا بنا رکھے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ (بزرگ) اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں، یہ لوگ جس بارے میں اختلاف کر رہے ہیں اس کا (سچا) فیصلہ اللہ (خود) کرے گا۔ جھوٹے اور ناشکرے (لوگوں) کو اللہ تعالیٰ راه نہیں دکھاتا۔“
اور شفاعت کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
"اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔“
شفاعت کی دو قسمیں ہیں: (1) منفی شفاعت (2) مثبت شفاعت۔
منفی شفاعت: وہ شفاعت جو غیر اللہ سے ایسی چیز کے بارے میں طلب کی جائے جس پر اللہ کے علاوہ کوئی بھی قادر نہیں۔
اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے:
"اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ وه دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی اور شفاعت، اور کافر ہی ﻇالم ہیں۔“
مثبت شفاعت: یہ ایسی شفاعت ہے جو اللہ سے طلب کی جائے، اور شفاعت کرنے والے کی شفاعت (کی اجازت) کےذریعہ عزت افزائی کی جاتی ہے، اور جس کی شفاعت کی جاتی ہے وہ ایسا شخص ہے جس کے قول وعمل سے اللہ تعالیٰ راضی ہو اوراس کے لیے شفاعت کی اجازت ہو۔
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
"کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کر سکے۔“
تیسرا قاعدہ:
نبی کریم ﷺ کا ظہور ایسے لوگوں میں ہوا جو اپنی عبادتوں میں متفرق تھے،
ان میں سے کچھ فرشتوں کو پوجتے تھے،
اور کچھ انبیاء وصالحین کو پوجتے تھے،
کچھ درختوں اور پتھروں کی پوجا کرتے تھے،
اور بعض سورج اور چاند کی پرستش کرتے تھے،
رسول اللہ ﷺ نے ان سب سے جنگ کی اور ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کیا،
اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے:
"اور تم اُن سے اس حد تک لڑو کہ اُن میں شرک کا فتنہ باقی نہ رہے، اور دین اللہ ہی کا ہو جائے۔“
سورج اور چاند کی پرستش کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
"اور دن رات اور سورج چاند بھی (اسی کی) نشانیوں میں سے ہیں، تم سورج کو سجده نہ کرو نہ چاند کو بلکہ سجده اس اللہ کے لیے کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے، اگر تمہیں اسی کی عبادت کرنی ہے۔“
فرشتوں کی عبادت کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
"اور یہ نہیں (ہو سکتا) کہ وہ تمہیں فرشتوں اور نبیوں کو رب بنالینے کا حکم کرے۔“
انبیائے کرام کی عبادت کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
" اور وه وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوه اللہ کے معبود قرار دے لو! عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں، مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں، اگر میں نے کہا ہوگا تو تجھ کو اس کا علم ہوگا۔ تو، تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا۔ تمام غیبوں کا جاننے واﻻ تو ہی ہے۔“
نیک اور صالح لوگوں کی عبادت کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
"جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وه اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیاده نزدیک ہوجائے وه خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوفزده رہتے ہیں...“۔
درختوں اور پتھروں کی پوجا کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
"کیا تم نے لات اور عزیٰ کو دیکھا۔“
"اور منات تیسرے پچھلے کو۔“
اور ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے، جس میں وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ حنین کے لیے نکلے اور ہم کفر کے زمانے سے ابھی بہت قریب سے گزرے تھے، مشرکین کا ایک بیری کا درخت تھا جہاں وہ جا کر رکتے تھے اور اس سے اپنا اسلحہ لٹکایا کرتے تھے، اسے "ذات انواط“ کہا جاتا تھا چنانچہ راستے میں ہم لوگ ایک بیری کے درخت سے گذرے تو ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! (ﷺ) ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجئیے جیسا کہ ان (مشرکین) کا ایک ذات انواط ہے۔
چوتھا قاعدہ:
ہمارے دور کے مشرکین پرانے زمانے کے مشرکین سے کہیں زیادہ سخت شرک میں مبتلا ہیں،
کیونکہ پرانے زمانے کے مشرکین صرف خوش حالی کے زمانے میں شرک کرتے تھے، لیکن پریشانی و مشکلات کے وقت خالص اللہ کو پکارتے تھے،
جبکہ ہمرے زمانے کے مشرکین خوشی وغمی اور خوشحالی و پریشانی ہر حال میں شرک کا ارتکاب کرتے ہیں،
اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے:
"پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لئے عبادت کو خالص کر کے، پھر جب وه انہیں خشکی کی طرف بچا ﻻتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں۔“
اور اللہ ہی سب سے زیادہ جانتا ہے، اور درود و سلام ہو محمد ﷺ پر، اور ان کے آل پر اور ان کے تمام صحابہ پر۔