الوصف
رسالة مختصرة مترجمة إلى اللغة الأردية، تبين مكانة لا إله إلا الله في الحياة، وفضلها، وأركانها، وشروطها ومعناها، ومقتضاها، ومتى ينفع الإنسان التلفظ بها، ومتى لا ينفعه ذلك، وآثارها.
[ الأردية – اُردوUrdu – ]
تالیف: عزّتِ مآب عالی جناب ڈاکٹرصالح بن فوزان الفوزان-حفظہ اللہ-
رکن سپریم علماء کونسل وممبرمستقل فتوی کمیٹی،سعودی عرب
ترجمہ: شفیق الرّحمن ضیاء اللہ مدنی
مراجعہ: عزیز الرّحمن ضیاء اللہ سنابلیؔ -عطاء الرحمن ضیاء اللہ
ناشر: دفترتعاون برائے دعوت وارشاد،ربوہ، ریاض
مملکتِ سعودی عرب
الحمد لله وكفىٰ وسلامٌ على عباده الذين اصطفىٰ، أمابعد:
لا الہ الا اللہ ایسا کلمہ ہے جسے مسلمان اپنی اذانوں،اقامتوں،خطبوں اور بات چیت میں اعلانیہ طورپر کہتے ہیں، یہی وہ کلمہ ہے جس کی وجہ سے زمین وآسمان قائم ہیں، اوراسی کى خاطر تمام مخلوقات کی پیدائش ہوئی،اسی کلمہ کے ذریعہ اللہ نے رسولوں کی بعثت فرمائی، اپنی کتابوں کو نازل فرمایا، اپنی شریعتوں کو مقرر فرمایا، اور اسی کلمہ کی خاطر میزان قائم کئے گئے، اور دواوین رکھے گئے،اور جنت وجہنم کے بازار قائم ہوئے، اسی کلمہ کےسبب مخلوق مومنوں اور کافروں میں تقسیم ہوئی۔یہی تخلیق وحکم اور ثواب وعقاب کی منشا ومقصود ہے۔اسی کلمہ اور اسی کے حقوق کے بارے میں سوال وحساب ہونا ہے۔اسی بنیادپرثواب وسزا ملےگا، اسی کے اساس پر قبلہ مقرر کیا گیا ہے، اسی پر ملّت کی بنیاد رکھی گئی ہے، اسی کلمہ کى خاطر میدانِ جہاد میں تلواریں میان سے باہر آئیں، اور یہی تمام بندوں پر اللہ کا حق ہے،یہی کلمہ اسلام ہے،اور سلامتی کے گھرکی چابی ہے… اور اسی کے بارے میں اولین وآخرین سے باز پرس ہوگی، یہی کلمہ کفرواسلام کے درمیان حد فاصل ہے، اوریہی کلمۂ تقویٰ اور ایمان کامضبوط کڑاہے،اوراسی کو ابراہیم علیہ السلام نے باقی رہنے والا کلمہ بنایا۔اسی کے ذریعہ اللہ نے اپنی ذات کی گواہی دی،اوراسی کی اس کے فرشتوں اور مخلوق میں سے علم والوں نے گواہی دی ہے۔اوریہی کلمۂ اخلاص ،شہادتِ حق، دعوتِ حق اور شرک سے براءت کا سبب ہے۔
امام سفیان بن عیینہؒ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے بندوں میں سے کسی بندہ پر اس نعمت سے بڑھ کر انعام نہیں کیا جتنا کہ اسے لاالہ الا اللہ کی معرفت دی، اور اہل جنّت کے لئے لاالہ الا اللہ وہی درجہ رکھتا ہے جو اہل دنیا کے لئے ٹھنڈا پانی رکھتا ہے‘‘۔
لہذا جوشخص اس کلمۂ (لاالہ الا اللہ) کا سچے دل سے اقرار کرے گا تواس کى جان ومال محفوظ ہوگى، اور آخرت میں سعادت سے ہمکنار ہوگا،اورجوشخص اس کلمہ کا انکار کرے گا تودنیا میں اس کاخون رائیگاں وبےکار جائے گا،اورآخرت میں سخت عذاب سے دوچارہوگا۔
لیکن افسوس کہ بہت سارے مسلمان زبان سے تواس کلمہ کو ادا کرتے ہیں مگر اس کے معانی ومفاہیم اورشروط سے ناواقف ہوتے ہیں،اوراس کے تقاضے کی ادائیگی نہیں کرتے،اسی لئے ان کی زند گیوں میں اس کلمہ کے اثرات و برکات دکھائی نہیں دیتے۔
چنانچہ موضوع کی اہمیت وضرورت کوسمجھتے ہوئے سعودی عرب کے مستند وممتاز عالم دین اورسپریم علماء کونسل کے رکن عزّت مآب ڈاکٹرصالح بن فوزان الفوزان۔حفظہ اللہ۔ نے زیرنظر عربی کتاب (معنى لا إله إلا الله،ومقتضاها وآثارها في الفرد والمجتمع)’’ لاالہ الا اللہ کا معنیٰ،تقاضےاورفرد ومعاشرہ پراس کے اثرات‘‘کوترتیب دیا ([1])،اس کتاب کے اندر فاضل موصوف نے کلمہ شہادت(لاالہ الا اللہ) کاحقیقی معنیٰ ومفہوم،اس کی اہمیت وفضیلت،اس کےتقاضے وشروط اورفرد ومعاشرے پرمرتّب ہونے والے اس کے بہترین اثرات کو کتاب وسنت کی روشنی میں سلف صالحین کی فہم کے مطابق ذکرفرمایاہے،نیزکلمہ لاالہ الا اللہ کی غلط تفسیر کرنے والوں کا علمی محاکمہ کرکے اس سے متعلّقہ شبہات کا ازالہ فرمایا ہے([2])۔
اسلام ہاؤس ڈاٹ کام کے شعبہ ٔ ترجمہ وتالیف نے افادہ عام کی خاطراسےاردو قالب میں ڈھالاہے،حتیٰ الامکان ترجمہ کو درست ومعیاری بنانے کی کوشش کی گئی ہے،اور مؤلّف کے مقصود کا خاص خیال رکھا گیا ہے،اور آسان عام فہم زبان اور شُستہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے تاکہ عام قارئین کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہو،مگرکمال صرف اللہ عزوجل کی ذات کا خاصہ ہے، لہذا کسی مقام پر اگر کوئی سقم نظر آئے تو ازراہ کرم خاکسار کو مطلع فرمائیں تاکہ آئندہ اس کی اصلاح کی جاسکے۔
ربّ کریم سے دعا ہے کہ اس کتاب کو لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنائے،اس کے نفع کو عام کرے،والدین اور جملہ اساتذۂ کرام کے لئے مغفر ت وسامانِ آخرت بنائے،اورکتاب کے مولّف،مترجم،مراجع،ناشر،اور تمام معاونین کی خدمات کو قبول کرکے ان سب کے حق میں صدقہ جاریہ بنائے۔آمین
وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم.
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(سابق)چانسلرامام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی،ریاض،سعودی عرب
ہرشخص ان تخریب پسند مذاہب کی خطرناکی سے آگاہ ہے جو بعض مسلم ممالک میں رائج ومنتشرہیں ،اوران میں سے بعض کے نفوس اوردلوں میں جہالت وتقلیدیا جاہلی تعصّب کی وجہ سے رچ بس گئی ہیں۔
اوراس جیسےگروہ کوجو-اللہ کے فضل وکرم سے- سازوسامان اورتعداد کے اعتبار سے کم ہے یوں ہی چھوڑدینا تاکہ اپنے مذہب اور گمراہ طریقہ کی نشرواشاعت کرے نہایت ہی خطرناک بات ہے، اورمسلمانوں کی صورتحال اور اسلامی رفتار کی پیش قدمی پربرااثر ڈالنے والی ہے۔
ان جماعتوں سے جنگ کرنا،ان کی گمراہیوں کو بے نقاب کرنا،ان کے عقیدےکی خرابی اوراس کے اللہ اوراس کےرسول کے طریقے کے مخالف ہونے کو واضح کرنا،تمام امت امسلمہ پرواجب اورضروری ہے۔
اور اہل سنت والجماعت کے مذہب کی تشریح کرنا، اور تمام اسلامی معاملات میں اس (مذہب کے موقف ) کوواضح کرنا، اوران کی سچائی وہدایت پر مبنی عقیدے کو بیان کرنا مختلف فاسد عقائد اور ان گمراہ فرقوں سے پردہ اٹھانے کا اہم ذریعہ ہےجنہیں ابلیس نے اندھا کردیا ہے، اور ان کے لئے برے اعمال کو مزیّن وخوشنما بنادیاہے، اور حق ودرستگی کی راہ سے انحراف کرنے کا وجہ جواز پیش کردیا ہے ۔
اور جب سے گمراہ فرقے، یہود ومنافقین اوران لوگوں کے ہاتھوں وجود میں آئیں جو اسلام کی شبیہ کوخراب کرنے اور اندرونی طور سے اس کو ڈھانے کے لئے (اسلام میں)داخل ہوئے تو رب العالمین اس کے لئے ایسے لوگوں کو مہیا کرتا رہا جو ان فرقوں کی تردید کرتے، ان کی گمراہیوں کی وضاحت کرتے، اور ان کے مذہب کو عقیدت وشریعت کے اعتبار سے اسلا م کی حقیقت کے مخالف بتاتے۔
اور موجودہ دور میں اسلامی یونیورسٹیاں ،اوران میں سر فہرست امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی بہت ساری علمی صلاحیتوں سے پُرہے جو سلف صالحین ۔اہل سنت والجماعت۔ کے مذہب کی وضاحت کرنے اور اسے متعلّم اور غیر متعلّم کے لئے آسان اسلوب میں پیش کرنےپرقادر ہے،اور اسے مختلف زبانوں میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، تاکہ یہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے ہاتھوں میں پہنچ سکے،اوروہ اس کی معرفت حاصل کرکے اور اس پر ثابت قدم رہ کرگمراہ کن مذاہب اور مختلف افکارونظریات سے بچ سکیں۔
اور محترم ڈاکٹر صالح فوزان حفظہ اللہ’’ طریق مستقیم‘‘ سیریزکے سابق بحث میں’’ حقیقت توحید جسے تمام انبیاء لے کر آئے،اور اس کے متعلقہ شبہات کارد‘‘ کے بارے میں گفتگو فرماچکے ہیں۔
اور شیخ صالح اپنی کوششوں کو ہر اس چیز میں جاری رکھتے ہیں جس میں حق بات کی طرف امت کی ہدایت ورہنمائی مقصود ہو،اوران چیزوں کی وضاحت مطلوب ہو جوامّت کی عقائد کے ساتھ منحرف باتیں وابستہ ہوگئیں ہیں اور جو باطل فرقے عوام الناس کے دلوں میں بدعات وخرافات راسخ کرنا چاہتی ہیں۔
چنانچہ ہمارے لئے ایک ایسا نیا اور اہم موضوع پیش کرتے ہیں جس کے اندر’’ لاالہ الا اللہ کا معنیٰ،اس کے تقاضے،اور فرد ومعاشرہ پر اس کے اثرات‘‘ کی وضاحت فرماتے ہیں۔
اور کیا ’’لاالہ الا اللہ‘‘سے بھی بڑھ کر اور اہم کوئی کلمہ ہے، کلمۂ توحید جو شرک واسلام کے درمیان حدّ فاصل ہے، جس کی طرف دعوت دینے پر ساری آسمانی رسالتیں متفق ہیں،اورجس کے ذریعہ اللہ رب العالمین نے اپنی کتاب کریم میں متعدد جگہوں پراپنے بارے میں شہادت دی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ﴾ [محمد:19]
’’سو (اے نبی!) آپ یقین کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود [برحق] نہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں ‘‘۔[سورہ محمّد:۱۹]
اور اللہ جلّ شانہ نے فرمایا:
﴿اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ﴾[طه:8]
’’ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بہترین نام اسی کے ہیں‘‘[سورہ طہ:۸]
نیز اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿شَهِدَ اللَّـهُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴾[آل عمران:18]
’’ اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وه عدل کو قائم رکھنے والاہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں‘‘[سورہ آل عمران:۱۸]
اورسورہ حشر کی دومسلسل آیتوں میں اپنی بعض صفات اور اچھے ناموں کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ اس (کلمہ) کے اثبات کو دہرایا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۖ هُوَ الرَّحْمَـٰنُ الرَّحِيمُ هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴾[الحشر:22-23]
’’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، چھپے کھلے کا جاننے واﻻ مہربان اور رحم کرنے والاہے، وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاه، نہایت پاک، سب عیبوں سے صاف، امن دینے والا، نگہبان، غالب زورآور، اور بڑائی والا ہے، پاک ہے اللہ ان چیزوں سے جنہیں یہ اس کا شریک بناتے ہیں‘‘۔[سورہ حشر:۲۲۔۲۳]
اور جب کلمۂ لاالہ الا اللہ سب سے پہلا کلمہ ہے جسےکافر شخص کو اسلام کا اعلان کرتے وقت ادا کرنا ضروری ہے،اورجو اسے سچے (دل)سے کہے گا اس کا جان ومال محفوظ ہوجائے گا،تو یہ اس بات کو واجب قراردیتی ہے کہ اس کامعنیٰ ومفہوم، اس کے تقاضے ، اس کی فضیلت،زندگی میں اس کا مقام ومرتبہ اوراس کے ارکان وشروط کی جانکاری حاصل کی جائے۔
اور مؤلّف حفظہ اللہ نے ان سب کے بارے میں نہایت ہی شرح وبسط سے گفتگو فرمایا ہے، اور پھر ایک اہم نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے، اور وہ یہ ہے کہ :
لاالہ الا اللہ کے کہنے سے انسان کو کب فائدہ حاصل ہوگا اور کب نہیں ہوگا؟
اوربعض لوگوں کے یہاں اس کلمہ کے تعلق سے جووہم پایا جاتا ہے اس کا ازالہ کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ صرف اسے (زبان سے)ادا کردینا کافی نہیں ہوگا۔
اور اس مسئلہ کے بارے میں متعدد اہل علم کے اقوال کو ذکر کیا ہے جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ،شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب اور حافظ ابن رجب رحمہم اللہ وغیرہم، اس سے یہ بات ثابت کرتے ہوئے کہ جو شخص لاالہ الا اللہ کا اقرار کرتا ہے اور اس کے تقاضے کے مطابق عمل نہیں کرتا تو اس کو یہ نفع نہیں دے گا، بلکہ بعض لوگ جو مزاروں اور صالحین کے قبروں کے پاس شرک اکبر کی بعض قسموں کا ارتکاب کرتے ہیں یہ کلمۂ (لاالہ الا اللہ )کے مکمل طور سے مناقض ومخالف ہے۔
اور آپ حفظہ اللہ نے اپنی اس شاندار بحث کو اس کلمۂ(لاالہ الا اللہ) کے فرد ومعاشرہ پرمرتّب ہونے والے اچھے اثرات کے تذکرے سے ختم کیا ہے یعنی جب اسےصدق واخلاص سے کہا جائے اور ظاہر وباطن طور پر اس کے تقاضے کے مطابق عمل کیا جائے۔
یہ کلمہ امّت کی اجتماعیت وقوّت کے عوامل میں سے ایک اہم عامل ہے، اوراس کے لئے امن وطمانینت کا سبب ہے،اور اس کے کہنے والے کے لئے رفعت وبلندی کے حصول کا ذریعہ ہے ،اور اس کے علاوہ دیگرمزیداچھے اثرات ہیں۔
اللہ (شیخ صالح ) کو جزائے خیردے، ان کی کوشش کو نفع بخش بنائے، اوراس(کتاب) کے ذریعہ اس چیز کی تکمیل فرمائے جس کا ہم سب قصد کرتے ہیں ، اوراللہ ہی سیدھی راہ کی طرف ہدایت دینے والا ہے، اوروہی ہما را کارسازہے،پس وہ کتنا اچھا مالک ہے اور کتنا بہترین مددگار ہے۔
ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد المحسن ترکی
چانسلرامام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی
تمام تعریفیں صرف اللہ کے لئے ہیں،ہم اس کی حمد وثنابیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں اور اسی سے بخشش چاہتے ہیں،اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں،اور ہم اپنے نفس اور برے اعمال کی شرارتوں سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں، اللہ جسے ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا،اور جسے گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں،اور اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں،درود وسلام ہو آپ پر،آپ کے خاندان واصحاب پر، اور قیامت تک آپﷺ کی [سچی] پیروی کرنے والے اورآپﷺ کی سنت کو مضبوطی سے پکڑنے والے پر۔
حمد وصلاۃ کے بعد:
بے شک اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہم کو اپنے ذکر کا حکم دیا ہے، اور ذکر کرنے والوں کی مدح فرمائی ہے، اور ان سے اجر عظیم کا وعدہ فرمایاہے، چنانچہ اس نےاپنے ذکرکا مطلق طورپر ،اور عبادتوں سے فارغ ہونے کے بعد حکم دیا ہے … ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ ۚ ﴾[النساء:103]
’’پھر جب تم نماز ادا کر چکو تو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو ‘‘[سورہ نساء:۱۰۳]
اور فرمایا:
﴿فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا﴾[البقرة:200]
’’پھر جب تم ارکان حج ادا کر چکو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے باپ دادوں کا ذکر کیا کرتے تھے، بلکہ اس سے بھی زیاده ‘‘ [سورہ بقرہ:۲۰۰]
اوراس نےخصوصی طور سے مناسک حج کی ادائیگی کے دوران اپنے ذکرکرنے کا حکم دیا ہےجیسا کہ ارشاد ہے:
﴿فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ عِندَ الْمَشْعَرِ ﴾[البقرة:198]
’’جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر حرام کے پاس ذکر الٰہی کرو‘‘[سورہ بقرہ:۱۹۸]
اور فرمایا:﴿وَاذْكُرُوا اللَّـهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ﴾ [البقرة:203]
’’اور اللہ تعالیٰ کی یاد ان گنتی کے چند دنوں (ایام تشریق) میں کرو‘‘[سورہ بقرہ:۲۰۳]
اوراس نے نماز کے قیام کو اپنے ذکر کے لئے مشروع کیا ہے،چنانچہ فرمایا:
﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي﴾[طه:14]
’’ اور میری یاد کے لئے نماز قائم رکھ ‘‘۔[سورہ طہ:۱۴]
اور نبیﷺ نے فرمایا:
(أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ)
’’تشریق کے ایّام کھانے پنیے اور اللہ کے ذکرکرنے کے ہیں([3]) ‘‘۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّـهَ ذِكْرًا كَثِيرًا وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا﴾[الأحزاب:41-42]
’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کا بہت زیاده ذکر کرو،اور صبح وشام اس کی پاکیزگی بیان کرو ‘‘۔[سورہ احزاب:۴۱۔۴۲]
اور جب سب سے بہترذکر : (لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ) ہے، جیسا کہ نبیﷺ سے وارد ہے کہ :
(خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي: لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)
’’سب سے بہتر دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے ،اور سب سے بہتر کلمہ جو میں نے اور مجھ سے پہلے نبیوں نے کہا ،وہ یہ ہے: ’’اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں،وہ تنہا ہے،اُس کا کوئی شریک نہیں ،اُسی کے لئے مُلک ہے،اور اُسی کے لئے سب تعریف ہے،اور وہی ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔(اسے احمد اور ترمذی([4])نے روایت کیا ہے)۔
اورجب یہ عظیم کلمہ ذکر کی قسموں میں نہایت بلند رتبہ کا حامل ہے، اوراس سے بہت سارے احکام وابستہ ہیں، اور اس کے چند شرائط ہیں،اوراس کے معنیٰ وتقاضے ہیں،تو یہ محض زبان سے کہہ دیا جانےوالا کلمہ نہیں ہے،اورجب معاملہ ایسا ہے تو میں نے اسےاپنی گفتگو کاموضوع بنانےکوترجیح دیا ،اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ امید رکھتے ہوئے کہ ہمیں اورآپ سب کو اس کلمہ کے اہل میں سے بنائے اور اس کو لازم پکڑنے والا بنائے، اور اس کے معنیٰ کو پہنچاننے والا اورظاہر وباطن طورپراس کے تقاضے کے مطابق عمل کرنے والا بنائے۔
اس کلمہ کے بارے میں میری گفتگو درج ذیل نقاط کے تحت ہوگی:
زندگی میں لاالہ الا اللہ کا مقام ومرتبہ،اس کلمہ کی فضیلت،اس کا اعراب،اس کے ارکان،اس کے شرائط،اس کا معنیٰ،اس کے تقاضے،اس کلمہ کا اقرار کرنا انسان کو کب نفع دے گا،اور کب نہیں دے گا، اس کلمہ کے اثرات(ثمرات وبرکات)۔
چنانچہ میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہوئےکہتا ہوں:
لا الہ الا اللہ ایسا کلمہ ہے جسے مسلمان اپنی اذان واقامت،خطبوں اور بات چیت میں اعلانیہ طورپر کہتے ہیں، یہی وہ کلمہ جس کی وجہ سے زمین وآسمان قائم ہیں، اوراسی کی خاطر تمام مخلوقات کی پیدائش ہوئی،اسی کلمہ کے ذریعہ اللہ نے رسولوں کی بعثت فرمائی، اپنی کتابوں کو نازل فرمایا، اپنی شریعتوں کو مقرر فرمایا، اور اسی کلمہ کی خاطر میزان قائم کئے گئے، اور دواوین رکھے گئے،اور جنت وجہنم کے بازار قائم ہوئے، اسی کلمہ کےسبب مخلوق مومنوں اور کافروں میں تقسیم ہوئی۔یہی تخلیق وحکم اور ثواب وعقاب کی منشا ومقصود ہے۔اسی کلمہ اور اسی کے حقوق کے بارے میں سوال وحساب ہونا ہے۔اسی بنیادپرثواب اورسزا ملےگی، اسی کی اساس پر قبلہ مقرر کیا گیا ہے، اسی پر ملّت کی بنیاد رکھی گئی ہے، اسی کلمہ کی خاطر میدانِ جہاد میں تلواریں میان سے باہر آئیں، اور یہی تمام بندوں پر اللہ کا حق ہے،یہی کلمۂ اسلام ہے،اور سلامتی کے گھرکی چابی ہے… اور اسی کے بارے میں اولین وآخرین سے باز پرس ہوگی، چنانچہ بندوں کے دونوں پاؤں اس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک ان سے ان دومسئلوں کے بارے میں پوچھ نہیں لیا جائے گا کہ:
۱۔تم کس کی عبادت کرتے تھے؟
۲۔تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا؟
پہلے سوال کا جواب (لاالہ الا اللہ) کی معرفت ،اس کےاقرار،اوراس کے تقاضے پر عمل کے ذریعہ متحقق ہوگا، اور دوسرے سوال کا جواب ( محمد رسول اللہ) کی معرفت ،آپ ﷺکی تابعداری اوراطاعت کے ذریعہ مکمل ہوگا۔
یہی کلمہ کفرواسلام کے درمیان حد فاصل ہے، اوریہی کلمۂ تقویٰ اور (ایمان کا)مضبوط کڑا ہے،اوراسی کو ابراہیم علیہ السلام نے باقی رہنے والا کلمہ بنایا:﴿وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾[الزخرف:28]
’’اور (ابراہیم علیہ السلام) اسی کو اپنی اولاد میں بھی باقی رہنے والی بات قائم کر گئے تاکہ لوگ (شرک سے) باز آتے رہیں‘‘۔ [سورہ زخرف:۲۸]
اسی کی اللہ نے اپنی ذات کےلیےگواہی دی ہے،اوراسی کی گواہی اس کی مخلوق میں سے اس کے فرشتوں اور علم والوں نے دی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿شَهِدَ اللَّـهُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴾[آل عمران:18]
’’ اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وه عدل کو قائم رکھنے والا ہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں‘‘[سورہ آل عمران:۱۸]۔(ملاحظہ فرمائیں کتاب: مجموعۂ توحید)
اوریہی کلمہ اخلاص ،شہادتِ حق، دعوتِ حق اور شرک سے براءت کا سبب ہے، اوراسی کی وجہ سے مخلوقات کی پیدائش ہوئی۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ http://tanzil.net/ - 51:56﴾[الذاريات:56]
’’میں نے جنات اورانسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے‘‘[سورہ ذاریات:۵۶]
اسی ( کلمہ) کے لئے رسولوں کی بعثت ہوئی، اور کتابیں نازل کی گئیں،جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ﴾[الأنبياء:25]
’’تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو‘‘۔[سورہ انبیاء:۲۵]
اور ارشاد فرمایا:
﴿يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ﴾ [النحل:2]
’’وہی فرشتوں کو اپنی وحی دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اتارتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاه کر دو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں، پس تم مجھ سے ڈرو‘‘۔[سورہ نحل:۲]
امام ابن عیینہؒ فرماتے ہیں:
’’اللہ نے بندوں میں سے کسی بندہ پر اس نعمت سے بڑھ کرکوئی انعام نہیں کیا کہ انہیں لاالہ الا اللہ کی معرفت عطا فرمائی ، اور اہل جنّت کے لئے لاالہ الا اللہ وہی درجہ رکھتا ہے جو اہل دنیا کے لئے ٹھنڈا پانی رکھتا ہے‘‘۔
لہذاجس نے اس کا اقرار کیا اس کا جان ومال محفوظ ہوگیا،اور جس نے اس کا انکار کیا تو اس کا مال وخون رائیگاں جائے گا۔
چنانچہ صحیح مسلم میں نبیﷺ کا فرمان ہے:
(مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَكَفَرَ بِمَا يُعْبَدُ مَنْ دُونِ اللهِ، حَرُمَ مَالُهُ، وَدَمُهُ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللهِ)
’’جس نے لاالہ الا اللہ کہا، اور اللہ کے سوا عبادت کی جانے والی چیزوں کا انکار کیا، تواس کا مال وخون (لوگوں پر)حرام ہوگیا، اور اس کا حساب (باقی معاملہ) اللہ پر ہوگا ([5]) ‘‘۔
اوریہی وہ کلمہ ہے جس کا کفار کو اسلام کی دعوت دیتے وقت سب سے پہلے مطالبہ کیا جاتا ہے،کیونکہ نبی کریمﷺ نے جب معاذرضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا توان سے فرمایا تھا کہ:
(إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ،فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ شَهَادَةِ أَنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ..)الحديث.
’’بے شک تم اہل کتاب کی ایک قوم کے پاس جاؤگے،لہذا تم انہیں سب سے پہلے لاالہ الا اللہ کی شہادت کی طرف بلانا ([6])... حدیث‘‘۔
(اسے بخاری ([7])اورمسلم نے اپنی صحیح کے اندر روایت کیا ہے ہے)
اور اسی سے اس(کلمہ) کا دین میں مقام ومرتبہ اور زندگی میں اس کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے، اور یہ کہ بندوں پر واجب ہونے والی سب سے پہلی چیزہے کیونکہ یہی تمام اعمال کی اساس وبنیاد ہے۔
لاالہ الا اللہ کی بہت ساری فضیلتیں ہیں، اور اللہ کے ہاں اس کا کافی بلند مقام ہے، جو شخص اسے سچے دل سے کہے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا،اور جو اسے جھوٹے طور پرکہے گا تویہ (کلمہ) دنیا میں اس کے خون اوراس کے مال کوبچالے گا، اور اس کا حساب اللہ عزوجل پرہوگا۔
یہ ایسا کلمہ ہے جو لفظ کے اعتبارسے مختصر ،حروف کے اعتبارسے کم ، زبان پر ہلکا اور میزان میں بھاری ہے۔
جیسا کہ امام ابن حبّان اور حاکم نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قراردیا ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: )قَالَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ : يَا رَبِّ عَلِّمْنِي شَيْئًا أَذْكُرُكَ بِهِ وَأَدْعُوكَ بِهِ ، قَالَ : يَا مُوسَى قُلْ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ، قَالَ : يَا رَبِّ كُلُّ عِبَادِكَ ، يَقُولُ هَذَا ، قَالَ : قُلْ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ، قَالَ : لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ يَا رَبُّ ، إِنَّمَا أُرِيدُ شَيْئًا تُخِصُّنِي بِهِ ، قَالَ : يَا مُوسَى لَوْ كَانَ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ ، وَعَامِرُهُنَّ غَيْرِي ، وَالأَرَضِينَ السَّبْعُ فِي كِفَّةٍ ، وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ فِي كِفَّةٍ مَالَتْ بِهِنَّ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ (
’’موسیٰ علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے عرض کیا:اے پروردگار! مجھے کچھ ایسی چیز بتلا جس سے تجھ کو یاد کیا کروں اور اس کے ذریعہ تجھ سے دعائیں مانگا کروں،تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے موسیٰ! ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کہا کرو، موسیٰ علیہ السلام نے کہا:(اے میرے رب!) اسے تو تیرے سبھی بندے کہتے ہیں،اللہ نے فرمایا:’’لاالہ الا اللہ‘‘ کہو،موسیٰ علیہ السلام نے کہا:’’لاإلہ إلا أنتَ‘‘ (میرے) رب،میں تو اپنے لئے کوئی خاص وظیفہ چاہتا ہوں،تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ اے موسیٰ ! اگرساتوں آسمان اوران کی مخلوق بجز میرےاور ساتوں زمین کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائےاور ’’لاالہ الا اللہ‘‘ دوسرے پلڑے میں ہو تو ’’لاالہ الا اللہ‘‘ ان سب پر بھاری ہوجائے گا([8]) ‘‘۔
چنانچہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ لاالہ الا اللہ سب سے بہتر ذکرہے۔
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مرفوع حدیث میں ہے کہ:
(خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي: لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)
’’سب سے بہتر دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے ،اور سب سے بہتر کلمہ جو میں نے اور مجھ سے پہلے نبیوں نے کہا ،وہ یہ ہے:
’’اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں،وہ تنہا ہے،اُس کا کوئی شریک نہیں ،اُسی کے لئے مُلک ہے،اور اُسی کے لئے سب تعریف ہے،اور وہی ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔(اسے احمد اور ترمذی([9])نے روایت کیا ہے)۔
اوراس کے میزان میں بھاری ہونے پروہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے ترمذی ،نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے،اورترمذی نے اسے حسن ([10])قراردیا ہے، اور امام حاکم نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے :
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
(يُصَاحُ بِرَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُنْشَرُ لَهُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ سِجِلًّا كُلُّ سِجِلٍّ مَدَّ الْبَصَرِ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: أَتُنْكِرُ مِنْ هَذَا شَيْئًا؟ فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ، فَيَقُولُ: أَلَكَ عُذْرٌ، أَوْ حَسَنَةٌ؟ فَيَهَابُ الرَّجُلُ، فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ، فَيَقُولُ: بَلَى إِنَّ لَكَ عِنْدَنَا حَسَنَاتٍ، وَإِنَّهُ لَا ظُلْمَ عَلَيْكَ، فَيُخْرَجُ لَهُ بِطَاقَةٌ فِيهَا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ مَا هَذِهِ الْبِطَاقَةُ مَعَ هَذِهِ السِّجِلَّاتِ؟ فَيَقُولُ: إِنَّكَ لَا تُظْلَمُ، قَالَ: فَيُوضَعُ السِّجِلَّاتُ فِي كِفَّةٍ، وَالْبِطَاقَةُ فِي كِفَّةٍ فَطَاشَتِ السِّجِلَّاتُ، وَثَقُلَتِ الْبِطَاقَةُ) (هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ)
’’قیامت کے روز میری امت کے ایک شخص کو لوگوں کے سامنے لایا جائے گا اور اس کے لئے۹۹ رجسٹر کھول دیا جائے گا،اورہررجسٹرتاحد نظر طویل ہوگا۔پھراس سے کہا جائے گا کہ: کیا تم ان میں سے کسی چیز کا انکار کرتے ہو؟ تو وہ فرمائے گا : نہیں میرے رب۔ پھراس سے کہا جائے گا کہ :کیا تمہارے پاس کوئی عذر یا کوئی نیکی ہے؟ تو وہ ڈرجائے گا اور کہے گا : نہیں،تواس سے کہا جائے گا:کیوں نہیں ،بلکہ تمہاری ہمارے پاس کچھ نیکیاں ہیں،اور آج تم پر کوئی ظلم نہیں ہوگا، تواس کے لئے ایک کارڈ نکالا جائے گا جس میں(أشھد أن لاالہ اللہ ،وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ) لکھا ہوگا،تو وہ تعجب سے کہے گا کہ اے میرے رب !اس کارڈ کا ان دفتروں کے سامنے کیا وقعت ہے؟تو اللہ کہے گا کہ: آج تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا،پھر دفاترکو ایک پلڑے میں رکھا جائے گا اور کارڈ(بطاقۃ) کو دوسرے پلڑے میں ،تودفاترہلکا پڑجائیں گی،اور کارڈ(بطاقہ) بھاری ہوجائے گا‘‘([11])۔
اس عظیم کلمہ کی بہت ساری فضیلتیں ہیں جن میں سےبعض کا حافظ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ’’کلمۃ الإخلاص‘‘ میں تذکرہ فرمایا ہے، اور ہر فضیلت کی دلیل دی ہے، اور اُنہیں میں سے چند درج ذیل ہیں:
یہ کلمہ جنت کی قیمت ہے، اور جس شخص کا یہ آخری کلام ہوگا وہ جنت میں داخل ہوگا،اور یہ جہنم سے چھٹکارا دلانے والی ہے، اورمغفرت کو واجب کرنے والی ہے، اوریہ سب سے بہترین نیکی ہے، اور یہ گناہوں وغلطیوں کو مٹانے والی ہے، یہ دل سے جوایمان مٹ گیا ہے اس کی تجدید کرنے والی ہے، اور گناہوں کے صحیفے پر بھاری رہنےوالی ہے،اور یہ رکاوٹ وآڑ کو چیر کراللہ عزوجل تک پہنچنے والی ہے۔یہ ایسا کلمہ ہے جس کے قائل کی اللہ تصدیق کرتا ہے، اور یہی نبیوں کی طرف سے کہا جانے والا سب سے بہتر کلمہ ہے، اور یہی سب سے بہتر ذکر ہے،اوریہی سب سے بہتر عمل ہے، اور ثواب کے اعتبار سے دوگنا ہے، اورگردن آزاد کرنے کے برابر ہے،اور شیطان سے حفاظت دلانے والی ہے،اور میدان محشرکی ہولناکی اور قبرکی وحشت سے امن دلانے والی ہے، اوریہی مومنوں کا اپنی قبروں سے اٹھتے وقت شعار ہوگا، اسی طرح اس کے فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ یہ اپنے قائل کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کو کھولوانے والی ہے وہ ان میں جس سے چاہے گا داخل ہوگا۔اسی طرح اس کے فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے کہنےو الے گرچہ اس کلمہ کے حقوق میں کوتاہی کی بناپر جہنم میں داخل کردیئے جائیں لیکن وہ اس سے ضرور نکلیں گے۔
یہ (لاالہ الا اللہ ) کے فضائل کےوہ عناوین ہیں جن کو حافظ ابن رجبؒ نے اپنے رسالہ میں ذکر کیا اور ان میں سے ہرایک فضیلت کی دلیل دی ہے۔
جب معنیٰ کا سمجھنا جملوں کے اعراب کی معرفت پر متوقف ہے ،تو علماء رحمہم اللہ نے کلمۂ لاالہ الااللہ کے اعراب کی جانب توجہ فرمائی ،چنانچہ انہوں نے کہا کہ: (لا) نفی جنس کے لئےہے، اور (الہ) اس کا اسم ہے جو مبنی علی الفتح ہے،اور اس کی خبر محذوف ہے، جس کی تقدیر:(حق) ہے یعنی: لاإلہ حق(نہیں ہے کوئی معبود برحق) إلا اللہ (مگراللہ) یہ خبرمرفوع (حق)سےاستثناءہے، اور الہ کے معنیٰ ہیں: وہ ذات جو عبادت کی مستحق ہو، اور جس کی عبادت میں دل وارفتہ و مائل ہوں اوراسکا قصد کریں،اور حصول نفع یا دفع ضرر کے لئے اسی کی طرف رغبت کریں۔
اوریہاں پر وہ لوگ (نہایت ہی )غلطی پر ہیں جنہوں نے اس کی خبر کو: (موجود یا معبو د )سے مقدّر مانا ہے، اس لئے کہ بتوں اورقبروں وغیرہ کی شکل میں بہت سارے معبودات پائے جاتے ہیں،لیکن سچا معبود تو وہ صرف اللہ ہے، اور اس کے علاوہ جتنے معبود ہیں سب باطل ہیں، اور ان کی عبادت بھی باطل ہے،اوریہی لاالہ الا اللہ کے دونوں رکنوں کا مقتضیٰ ہے۔
لاالہ الا اللہ کے دو رکن ہیں، پہلا نفی اور دوسرا اثبات ہے
نفی سے مراد: اللہ رب العالمین کے علاوہ تمام مخلوقات سے الہ ہونے کا انکار کرنا۔
اثبات کا معنی: اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے الہ ہونے کو ثابت کرنا، کیونکہ وہی معبود برحق ہے، اور اس کے علاوہ مشرکین کی طرف سے بنائے گئے دیگر معبودات سب کے سب باطل ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّـهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ ﴾[الحج:۶۲]
’’ یہ سب اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جسے بھی یہ پکارتے ہیں وه باطل ہےاور بیشک اللہ ہی بلندی والا کبریائی والا ہے ‘‘۔
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’الوہیت کے اثبات پر (لاالہ الا اللہ) کی دلالت اللہ کے قول (اللہ إلہ) یعنی ’’اللہ ایک ہے‘‘ سے زیادہ عظیم وبرترہے،کیونکہ ’’اللہ ایک ہے‘‘ کے قول میں اس کے علاوہ معبود کی نفی نہیں ہے بخلاف’’ لاالہ إلا اللہ‘‘ کے، کیونکہ اس میں الوہیت کی تحدید ہے اور اس کے علاوہ سارے معبودوں کی نفی ہے۔اسی لئے ان لوگوں نے بہت بڑی غلطی کی ہے جو الہ کی تفسیر صرف ایجاد واختراع پرقدرت رکھنے والی ذات سے کرتے ہیں۔
شیخ سلیمان بن عبد اللہ کتاب التوحید کی شرح میں فرماتے ہیں کہ: اگرکہا جائے کہ الہ اور الوہیت کا معنی واضح ہوگیا تواس شخص کے قول کا کیا جواب ہوگا جو کہتا ہے کہ الہ کا معنی اختراع وایجاد پرقادرکےہیں، اور اس جیسی عبارت؟
توکہا جائے گا کہ: اس کا جواب دو طرح سے ہے:
اول: یہ ایک نیا (خودساختہ) قول ہے جسے نہ تو علماء میں سے کسی نے کہا ہے اورنہ ہی ائمہ لغت نے، اور علماء اور ائمہ لغت کے کلام کاوہی معنیٰ ہے جو ہم نے ذکر کیاہے جیسا کہ گزرچکا ،لہذا یہ قول باطل قرار پائے گا۔
دوم:اگرہم اسے تسلیم ہی کرلیں تو یہ سچے معبود کے لیے لازمی امرکے ذریعہ تفسیر ہے،کیونکہ لازمی طورپر خالق کا ایجاد واختراع پر قادرہونا ضروری ہے، اور جب ایسا نہیں ہوگا تو وہ سچا معبو د نہیں ہے گرچہ اسے معبود کہا جاتا ہو، اوراس سے یہ مراد نہیں کہ جس نے یہ جان لیا کہ اللہ ہی ایجاد واختراع پر قادرہے تو وہ اسلام میں داخل ہوگیا، اور سلامتی کے گھرکی کنجی اس کو حاصل ہوگئی۔ کیونکہ یہ بات کوئی نہیں کہتا، اس لیے کہ اس سے تو یہ لازم آئے گا کہ کفار عرب بھی مسلمان تھے، اور اگرمان لیا جائے کہ بعض متاخرین لوگ ایسا خیال کرتے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں، اور ان کی سمعی وعقلی دلائل کے ذریعہ تردید کی جائے گی۔
لاالہ الا اللہ کی سات شرطیں ہیں جن کو پورا کئے بغیریہ کلمہ اس کے کہنے والے کونفع نہیں دے گا،اوروہ درج ذیل ہیں:
۱۔ نفی واثبات کے اعتبار سے لاالہ الا اللہ کے معنیٰ کاعلم رکھنا:(یعنی تمام معبودان باطلہ کی نفی کرکے عبادت کو صرف اللہ کے لئے ثابت کرنا یہی نفی واثبات ہے)،پس جوشخص اس کا اقرار کرتا ہے اور اس کے معنیٰ ومقتضیٰ کو نہیں جانتا ہے تو یہ اسے نفع نہیں دے گا،کیونکہ اس نے اس کے مدلولات پر اعتقاد نہیں رکھا، جیسے وہ شخص جوایسی زبان میں بات کرےجسے وہ سمجھتا نہیں ۔
۲۔یقین: یعنی کلمہ کے بارے میں ایسا کمالِ علم پایا جائے جو شک وریب کے منافی ہو۔
۳۔ایسااخلاص: جو شرک کے منافی ہو،اوراسی پر لاالہ الا اللہ دلالت کرتا ہے۔
۴۔ایساصدق: جو نفاق سے مانع ہو، کیونکہ وہ لوگ اس کلمہ کو اپنی زبانوں سے توکہتے ہیں لیکن اس کے مدلول پر اعتقاد نہیں رکھتے۔
۵۔محبت:اس کلمہ اور اس کے مدلولات سے محبت کی جائے اور اس پر خوشی ومسرت محسوس کی جائے بخلاف منافقین کی۔
۶۔انقیادوتابعداری:اس کلمہ کے حقوق اداکرنے میں انقیاد وتابعداری کا پایا جانا،اوریہ واجب کردہ اعمال کو خالص اللہ کے لئے اس کی رضا وخوشنودی چاہتے ہوئے بجالانا ہے،اور یہی اس کلمہ کا تقاضا ہے۔
۷۔ایسی قبولیت: کا پایاجانا جو رد وانکار کے منافی ہو اوریہ اوامرالہی کی بجاآوری اوراس کے نواہی سے اجتناب کرکےہوگا۔
اور ان شرطوں کو علمائے کرام نے کتاب وسنت کی ان نصوص سے استنباط کیا ہے جو اس عظیم کلمہ کی خصوصیت اور اس کے حقوق وقیود کے بیان میں وراد ہوئی ہیں،اور یہ محض زبان سے کہاجانے والا لفظ نہیں ہے۔
سابقہ بیانات سے یہ واضح ہوگیا کہ لاالہ الا اللہ کا معنیٰ ہے: الہ واحد کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں،اوروہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کی ذات ہے،کیونکہ وہی عبادت کا مستحق ہے، تویہ عظیم کلمہ اس بات کو متضمن ہے کہ اللہ کے علاوہ دیگرمعبودات سچے الہ نہیں ہیں، اور وہ باطل ہیں کیونکہ وہ عبادت کےمستحق نہیں ہیں۔
اسی لئے اکثر جہاں اللہ کی عبادت کرنے کا حکم ہوتا ہے وہیں غیر اللہ کی عبادت سے منع کرنا بھی شامل ہوتاہے،کیونکہ اللہ کی عبادت اس کے ساتھ کسی غیرکوشریک کرکے درست نہیں ہوتی،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا﴾[النساء:36]
’’ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو‘‘۔ [سورہ نساء:۳۶]
نیز اللہ تعالی ٰ نے فرمایا:
﴿لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّـهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴾[سورة البقرة:36]
’’دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت ضلالت سے روشن ہوچکی ہے، اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا، جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے‘‘۔ [’’سورہ بقرہ:۲۵۶]
اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ﴾[النحل:36]
’’http://tanzil.net/ - 16:36ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو‘‘۔[النحل:۳۶]
اوررسول ﷺ کا فرمان ہے:
(مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَكَفَرَ بِمَا يُعْبَدُ مَنْ دُونِ اللهِ، حَرُمَ مَالُهُ، وَدَمُهُ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللهِ)
’’جس نے لاالہ الا اللہ کہا، اوراللہ کے علاوہ عبادت کی جانے والی چیزوں کا انکار کیا تو اس کا خون ومال(لوگوں پر) حرام ہوگیا اوراس کا حساب(باقی معاملہ) اللہ پر ہوگا([12]) ‘‘۔
اورہررسول اپنی قوم سے یہی کہتے کہ: ﴿..اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ﴾ ’’تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں‘‘۔[الاعراف:۵۹]...اوراسکے علاوہ دیگربہت سارے دلائل ہیں۔
امام ابن رجب رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’اس معنیٰ کی تحقیق وتوضیح یہ ہے کہ بندہ کا قول: ’’لاالہ الا اللہ‘‘ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کے لئے اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، اور الہ وہ ذات ہےجس کی اطاعت کی جائے،اوراس کی ہیبت وجلال ، تعظیم ومحبت اورخوف وامید کی وجہ سے اور اس پر توکل واعتماد کرتے ہوئے اور اس سے سوال ودعا کرتے ہوئے اس کی نافرمانی نہ کی جائے، اور یہ ساری چیزیں صرف اللہ عزوجل کے لئے ہی مناسب ودرست ہیں۔
اسی لئے جب نبیﷺ نے کفار قریش سے کہا:
(قُولُوا : لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ) ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کہو تو انہوں نے جواب دیا : ﴿أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ ﴾[سورةص:5]
’’کیا اس نےاتنے سارے معبودوں کا ایک ہی معبود کر دیا واقعی یہ بہت ہی عجیب بات ہے‘‘۔[سورہ ص:۵ ([13])]
توانہوں نے اس کلمہ سے یہ سمجھا کہ یہ تمام بتوں کی عبادت کو باطل ٹہراتا ہے،اور عبادت کو صرف اللہ کے لئے محدودکردیتا ہے،حالانکہ وہ ایسا نہیں چاہتے تھے۔تو اس معنیٰ سے یہ واضح ہوگیا کہ لاالہ الا اللہ کا معنیٰ اور اس کامقتضیٰ یہ ہے کہ عبادت کو اللہ کے لئے خاص کیا جائے، اور اس کے علاوہ کی پوجا نہ کی جائے،لہذا جب بند ہ’’ لاالہ الا اللہ ‘‘کہتا ہے توگویا وہ عبادت کو صرف اللہ کے لئے خاص کرنے کا اعلان کرتا ہے اورا س کے ماسوا قبروں،اولیا ء اور صالحین کی عبادت کو باطل قراردیتا ہے۔
اوراس سے موجودہ دور کےقبروں کے پجاریوں اور ان کے ہم مثل لوگوں کےاس اعتقاد کا بطلان ہوجاتا ہے کہ لاالہ الا اللہ کا معنیٰ یہ اقرار کرناہےکہ اللہ موجود ہے،، یا وہ خالق ہے جو ایجاد وغیرہ پرقدرت رکھتا ہے۔یا اس کامعنیٰ یہ کرتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت نہیں ہے، اور یہ گمان کرتے ہیں کہ جس نے اس معنیٰ کا اعتقاد رکھا اور اس کے ذریعہ لاالہ الا اللہ کی تفسیر کیا تو مطلق طور پر وہ توحید کو قائم کرنے والا ہے،چاہے وہ جو کچھ بھی (گناہ) کرے،غیراللہ کی عبادت کرے، مردوں پر اعتقاد رکھے، اور ذبیحے ونذرانے پیش کرکے،ان کی قبروں کا طواف کرکے اور ان کی تربتوں سے تبرّک حاصل کرکے ان کا تقرّب حاصل کرے۔
اوران لوگوں نے یہ نہیں سمجھا کہ عرب کے پہلے کفار ان کے اس اعتقاد میں شریک تھے، اور اس بات کو جانتے تھے کہ اللہ ہی خالق ہے اور ایجاد پر قدرت رکھتا ہے، اوروہ اس کا اقرار کرتے تھے،اورانہوں نے غیراللہ کی صرف اس اعتقاد سے پوجا کی تھی کہ وہ انہیں اللہ سے قریب کردیں گے، نہ کہ وہ پیدا کرنے والے اور روزی دینے والے تھے۔
لہذاحاکمیت لاالہ الا اللہ کے معنیٰ کا ایک حصہ ہے نہ کہ اس کا مطلوبہ حقیقی معنی ٰہے،اس لئے عبادت میں شرک پائے جانے کے ساتھ حقوق،حدود اور خصومات (لڑائی وجھگڑے) میں شریعت کے مطابق حکم کافی نہ ہوگا۔
اگرلاالہ الا اللہ کامعنیٰ ان کے گمان کے مطابق ہی ہوتا تو پھر رسولﷺاورمشرکین کے درمیان جنگ نہ ہوتی، بلکہ وہ رسولﷺ کے حکم کی تعمیل میں جلدی کرتے جب آپ ﷺ ان سے کہتے کہ: اس بات کا اقرار کرو کہ اللہ ہی ایجاد واختراع پر قادرہے، یا اس بات کا اقرار کرو کہ اللہ موجود ہے، یا ان سے کہتے کہ: حقوق،اموال اور جانوں میں شریعت کی طرف رجوع کرو اور عبادت سے خاموش رہتے۔
لیکن وہ قوم عربی زبان سے واقف تھی اس نے یہ سمجھ لیا تھا کہ جب وہ لاالہ الا اللہ کہے گی تو وہ بت پرستی کو جھوٹا قراردینے والی ہو گی، اوریہ کلمہ محض ایک لفظ نہیں ہےجس کا کوئی معنی ٰنہ ہو، اسی لئے انہوں نے اس سےاعراض کیا اور کہہ بیٹھے:
﴿أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ ﴾[سورةص:5]
’’کیا اس نےاتنے سارے معبودوں کا ایک ہی معبود کر دیا واقعی یہ بہت ہی عجیب بات ہے‘‘۔[سورہ ص:۵]
جیسا کہ اللہ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ يَسْتَكْبِرُونَ وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُو آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُونٍ﴾[سورة الصافات:35-36]
’’ یہ وه (لوگ) ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو یہ سرکشی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کی بات پر چھوڑ دیں؟ ‘‘۔[الصافات:۳۵۔۳۶]
لہذا انہوں نے جان لیا کہ لاالہ الا اللہ ان سے غیراللہ کی عبادت ترک کرنے اوراللہ کے لئے عبادت کو خاص کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، اور اگر یہ اس کے کہنے کے بعد بتوں کی پوجا پر مستمررہے تو یہ اپنے نفسوں کے ساتھ تناقض کا شکار ہوں گے جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ وہ تناقض وتضاد سے نفرت کرتے ہیں۔لیکن موجودہ دور میں قبرپرست اس قبیح تناقض وتضاد سے نفرت نہیں کرتے، چنانچہ یہ لاالہ الا اللہ کہتے ہیں، اورپھرمردوں کی عبادت کرکے اورمختلف قسم کی عبادات کے ذریعے مزاروں کا تقرّب حاصل کرکے اس (کلمہ) کی مخالفت کرتے ہیں،لہذا ان لوگوں کے لئے بربادی وہلاکت ہے جن سے ابوجہل اور ابولہب بھی لاالہ الا اللہ کا معنیٰ زیادہ جانتا تھا!۔
حاصل یہ ہے کہ جس نے اس کلمہ کے معنیٰ ومفہوم کوجان کرکہا، اور ظاہری وباطنی طور پراس کے تقاضے کے مطابق عمل کیا، اور شرک کا انکار کیا اور عبادت کو صرف اللہ کے لئے ثابت کیا ،اور اس چیز پر پختہ اعتقاد رکھا جس کو یہ کلمہ شامل ہے اور اس پر عمل کیا تو وہ حقیقی مسلمان ہے، اور جس نے اس کلمہ کو کہا،اور اس کے تقاضے کے مطابق ظاہری طور پرعمل کیا ،اس کے مدلولات پر اعتقاد نہیں رکھا تو وہ منافق ہے، اور جس نے اس کو اپنی زبان سے کہا اور اس کے خلاف شرکیہ کام کیا جو اس کلمہ کے منافی ہے تو تضادکا شکارمشرک ہے، لہذا اس کلمہ کی ادائیگی کے ساتھ اس کے معنیٰ کی جانکاری ضروری ہے،کیونکہ یہ اس کے تقاضے کے مطابق عمل کرنے کا وسیلہ وذریعہ ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِلَّا مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ﴾[الزخرف:86]
’’ الا یہ کہ کوئی علم کی بنا پر حق کی شہادت دے‘‘[الزخرف:۸۶]
لاالہ الا اللہ کے تقاضےکے مطابق عمل کرنے سے مراد:صرف اللہ کی عبادت کرنا اوراس کے ماسوا کی عبادت سے انکار کرنا ہے اوریہی اس کلمہ کا حقیقی مقصود ہے۔
اورلاالہ الا اللہ کے تقاضے میں سے: عبادات ،معاملات، تحلیل اور تحریم میں اللہ کے قانون کو قبول کرنا ،اوراس کے ماسوا کی تشریع وقانون کا انکارکرنا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّـهُ﴾[الشورى:21]
’’ کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں‘‘[شوریٰ:۲۱]
اس لئے عبادات ومعاملات اور لوگوں کے درمیان ذاتی احوال وغیرہ میں اختلاف کردہ مسائل میں فیصلہ کرتے وقت اللہ کے قانون کا قبول کرنا اورخودساختہ قوانین کا انکارکرنا ضروری ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام بدعات وخرافات کا بھی انکار کیا جائے جسے انس وجن کے شیاطین عبادات کے اندرایجاد کررکھے ہیں اور اسے فروغ دے رہے ہیں، لہذا ان میں سے جس نے کچھ بھی قبول کیا تو وہ مشرک ہے جیسا کہ اس آیت کے اندر اللہ کا فرمان ہے:
﴿أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّـهُ﴾[الشورى:21]
’’ کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں‘‘[شوریٰ:۲۱]
اورفرمایا:
﴿وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ﴾[الأنعام:121]
’’ اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناً تم مشرک ہوجاؤ گے‘‘۔[انعام:۱۲۱]
اورارشاد فرمایا:﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِhttp://tanzil.net/ - 9:31﴾[التوبة:31]
’’ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے۔‘‘[توبہ:۳۱]
اورحدیث صحیح میں ہے کہ نبیﷺ نے اس آیت کو عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ پر تلاوت کی(جوپہلے عیسائی تھے) تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول!ہم ان (علماء وبزرگوں)کی عباد ت تو نہیں کرتے،توآپﷺ نے فرمایا:
(أَلَيْسَ يُحِلُّونَ لَكُمُ مَا حرَّمُ اللهُ فَتُحِلُّونَهُ,وَيُحَرِّمُونَ مَا أَحلَّ اللهُ فَتُحَرِّمُونَهُ؟)قَالَ: بَلَى،قَالَ النبيُّ صَلّى اللهُ عليه وسلَّمْ:(فَتلِكَ عِبَادَتُهُمْ ).
’’کیا وہ لوگ اللہ کی حرام کردہ چیزکو تمہارے لیےحلال نہیں ٹہراتے توتم اسے حلال جانتے ہو،اوراللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام نہیں ٹہراتے تو تم اسے حرام سمجھتے ہو؟‘‘ توانہوں نے کہا: کیوں نہیں، آپﷺ نے فرمایا:’’ یہی ان کی عباد ت ہے‘‘ ([14]) ۔
شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’ان کی معصیت میں اطاعت کرنا یہی غیراللہ کی عبادت ہوگئی، اوریہی ان کا رب بنانا ہوا جیسا کہ اس امت میں پایا جاتا ہے، اور یہ شرک اکبرمیں سے ہے، اوراس توحید کے منافی ہے جو لاالہ الا اللہ کی شہادت کا مدلول ہے…‘‘۔
تو یہ واضح ہوگیا کہ کلمہ اخلاص نے ان تمام چیزوں کی نفی کردی کیونکہ یہ امور اس کلمہ کے مدلول کے خلاف ہیں۔
اسی طرح (خودساختہ) قوانین سے فیصلہ طلب کرنے کا انکار ضروری ہے، کیونکہ کتاب اللہ کی طرف فیصلہ کے لئے رجوع کرنا،اوراس کے علاوہ بشری قوانین ونظاموں سے فیصلہ کروانےکوچھوڑنا ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ﴾[النساء:59]
’’ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے‘‘۔[نساء:۵۹]
اوراللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّـهِۚ ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ رَبِّي ﴾[الشورى:10]
’’ اور جس جس چیز میں تمہارا اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہےیہی اللہ میرا رب ہے۔ ‘‘ [شوریٰ:۱۰]
اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان لوگوں کو کافر وظالم اور فاسق قراردیا ہے جو اللہ کےنازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے ہیں، اوران سے ایمان کی نفی کی ہے جواس بات پر دال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم کے علاوہ سے فیصلہ کرنا جب حاکم اسے حلال سمجھے یا اسے اللہ کے حکم سے زیادہ درست وبہتر خیال کرے تو یہ کفروشرک ہے جو توحید کے منافی ہے اور کلمہ لاالہ الا اللہ کے بالکل مخالف ومتناقض ہے۔
اوراگرحاکم اللہ کے نازل کردہ حکم کے علاوہ فیصلہ کرنے کو حلال نہ سمجھے، اور یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ کے حکم کے مطابق ہی فیصلہ کرنا واجب ہے لیکن ہوائے نفس کی بنا پر اس کی مخالفت کرتا ہےتو یہ کفر اصغر اور شرک اصغر ہے جو لا الہ الا اللہ کے معنیٰ اور اس کے تقاضے کو توڑنے والا ہے۔
لہٰذا لاالہ الا اللہ ایک مکمل منہج وطریقہ کار ہے جس کا مسلمانوں کی زندگی اور ان کی تمام عبادتوں اور تصرّفات پر حکمرانی وغلبہ ہونا ضروری ہے۔یہ بطوربرکت دہرایا جانے والا لفظ نہیں ہے، اور نہ ہی صبح وشام کی اوراد ہے جس کو اس کے معنی ٰ کے سمجھے ،اس کے مقتضی پر عمل کئے اور اس کے منہج کے مطابق چلے بغیر کہہ دیاجائے ،جیسا کہ بہت سارے لوگوں کاگمان ہے جو اسے اپنی زبانوں سے تواداکرتے ہیں لیکن اپنے عقیدے اور تصرّفات میں اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
اورلاالہ الا اللہ کے تقاضے میں سے : اللہ کے ان اسماء وصفات کو ثابت کرنا ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو موسوم اورمتصف کیا ہے، یا جن سے اس کے رسول ﷺ نے اسے موسوم ومتصف کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾[الأعراف:180]
’’ اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی ‘‘۔[الأعراف:۱۸۰]
((فتح المجید شرح کتاب التوحید))کے مولّفؒ کہتے ہیں کہ:’’کلام عرب میں اصل الحاد کے معنی ہیں: مقصد سے ہٹنا ،مائل ہونا،اورکجروی وانحراف اختیار کرنا۔اوراللہ کے تمام نام ایسےاسماء واوصاف ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نےاپنے بندوں کو واقف کرایا ہے،اورجو اللہ عزوجل کے کمال پر دلالت کرتےہیں۔
مولّف رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: اسماء کے اندر الحاد یا توان ناموں کا انکار کرکے ہوگا،یا ان کے معانی کے انکار اور تعطیل (بے معنی کرنا) کےذریعہ ہوگا،یا تو درست (معنیٰ) سے تحریف کرکے اور تاویلات کے ذریعہ حقیقی معنیٰ سے نکال کرہوگا،یا انہیں ان مخلوقات کا نام دے کر ہوگاجیسے اہل اتحاد کا الحاد جنہوں نے انہیں اس کائنات کے اچھوں اور بروں کےنام بنادیے ہیں…‘‘مولّفؒ کا کلام ختم ہوا۔
لہذا جس نے اللہ کے ناموں اور صفات میں تعطیل([15] )وتاویل ([16]) یا تفویض([17])کے ذریعہ الحاد وکجروی سے کام لیا،اورجن عظیم معانی پروہ (اسماء وصفات)دلالت کرتی ہیں ان کا اعتقاد نہیں رکھا جیسے جہمیہ، معتزلہ اوراشاعرہ،تواس نے لاالہ الا اللہ کے مدلول کی مخالفت کی،کیونکہ الہ وہ ذات ہے جس کو پکارا جائے اورجس کی طرف اس کے ناموں اور صفات کے ذریعہ وسیلہ پکڑاجائے۔جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا﴾[الأعراف:180]
’’ اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو‘‘۔[اعراف:۱۸۰]
اورجس کے نام یا صفات نہ ہوں، تو وہ معبود کیسے ہوسکتا ہے اور اسےکیسے پکاراجائےگا اور کس نام سے پکارا جائےگا؟!
امام ابن القیّم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’بہت سارے احکام میں لوگوں نے تنازعہ کیا ہے، لیکن صفات کی آیات اوراس کی خبروں میں ایک جگہ بھی تنازعہ نہیں کیا ہے، بلکہ صحابہ وتابعین ان کے معانی کوسمجھنے اوران کے حقائق کو ثابت کرنے کے ساتھ ان کا اقرار کرنےاورانہیں اسی طرح گزارنے پر متفق ہیں (جس طرح وہ وارد ہوئی ہیں) ۔اوریہ اس بات پر دال ہے کہ یہ دونوں قسموں میں بیان کے اعتبار سے سب سےبڑھ کر ہے، اوراس کی وضاحت کا اہتمام کرناسب سے اہم ہے،کیونکہ یہ شہادتین کے اثبات کی تکمیل سے ہے، اوراس کو ثابت کرنا توحید کے لوازمات میں سے ہے، اسی لئے اللہ اور اس کےرسولﷺ نے اسے تسلی بخش انداز میں بیان کردیا ہے جس میں کوئی لبس واشکال نہیں ہے۔
آیات احکام کوچند مخصوص لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں،اور رہی بات آیات صفات کی تو ان کے معنیٰ کوسمجھنے میں خاص وعام سب مشترک ہیں، میری مراد: اصل معنیٰ کا سمجھنا ہے نہ کہ حقیقت وکیفیت کا سمجھنا۔
اور(انہوں نے) یہ بھی کہا کہ: یہ بات فطرت ،عقول سلیمہ اور آسمانی کتابوں سے معلوم ہے کہ: صفات کمال سے عاری معبود،مدبّر اور رب نہیں ہوسکتا،بلکہ وہ مذموم ،عیب دار اور ناقص ہے،اوراس کے لیے دنیا وآخرت میں کوئی حمد وتعریف نہیں ہے، بلکہ دنیا وآخرت میں حمد وستائش اس کے لئے ہے جو صفات کمال اورنعوت جلال سے متصف ہوجن کی وجہ سے وہ حمد کا مستحق ٹہرا، اسی لئے سلف رحمہم اللہ نے اپنی ان کتابوں کو توحید کا نام دیا ہے جنہیں انہوں نے سنت ،رب تعالیٰ کی صفات کے اثبات،اس کے مخلوق پرعلووبلند ہونے اوراس کے کلام اورتکلمّ کرنے کے بارے میں تالیف فرمائیں،کیونکہ ان چیزوں کا انکار وکفرکرنا صانع(اللہ) کا انکار ونفی کرنا ہے،اور اس کی توحید اس کی صفاتِ کمال کو ثابت کرنے اور اس کی ذات کو تشبیہ ونقائص سے منزّہ وپاک قرار دینے میں ہے۔
جیساکہ ہم بتلا چکے ہیں کہ لاالہ الا اللہ کہنے کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ ہم اس کے معنیٰ کو جانیں اور اس کے مقتضیٰ کے مطابق عمل کریں، لیکن چونکہ کچھ ایسے نصوص ہیں جن سے یہ وہم واشکال پیدا ہوتا ہے کہ صرف اس کلمہ کا زبان سے کہہ دینا ہی کافی ہے،اور بعض لوگ اس وہم کا شکار بھی ہیں، لہذا گفتگواس کے وضاحت کی متقاضی ہوئی تاکہ متلاشیانِ حق کے لئے اس وہم کا ازالہ کیا جاسکے۔
شیخ سلیمان بن عبد اللہ رحمہ اللہ حدیث عتبان پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں جس کے اندر ہے کہ:
(فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ)
’’جوشخص محض رضائے الہی کی نیت سے ’’لاالہ الا اللہ‘‘کہے تو اللہ تعالیٰ اس پر آگ کو حرام کردیتا ہے([18]) ‘‘:
فرمایا:’’جان لو کہ بعض احادیث ایسی وارد ہوئی ہیں جن کے ظاہرسے یہ پتہ چلتا ہے کہ جس نے شہادتین کا اقرار کیا اس پر آگ حرام ہے جیسا کہ اس حدیث کے اندرہے،اور انس رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں وہ کہتے ہیں کہ :( ایک مرتبہ) معاذ بن جبلؓ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر سوار تھے، آپ ﷺ نے فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوبارہ)فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سہ بارہ)فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں، اورآپ کی خدمت میں نیک بختی حاصل کرتا ہوں، توآپﷺ نے فرمایا:
(مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ، إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ...الحديث)-
’’ جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس کو (دوزخ کی (آگ پر حرام کر دیتا ہے ([19]) ‘‘۔
اورمسلم نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے:
(مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ النَّارَ)
’’جس نے اس بات کی شہادت دی کہ اللہ کے علاوہ کوئی برحق معبود نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں تواللہ نے اس پر جہنم کو حرام کردیا ہے ([20]) ‘‘۔
اوربعض حدیثیں ایسی وارد ہوئی ہیں جن میں اس بات کا ذکر ہے کہ جس نے شہادتین کو ادا کیا تو وہ جنت میں داخل ہوگا،اوراس میں یہ نہیں ہےکہ وہ آگ پرحرام ہوگا،انہی میں سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جوقریب ہی گزری ہے، اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں ہے کہ لوگ نبی ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک میں تھے۔۔۔اوراسی میں ہےکہ آپ ﷺ نے فرمایا:
(أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ، لَا يَلْقَى اللَّهَ بِهِمَا عَبْدٌ غَيْرَ شَاكٍّ ، فَيُحْجَبَ عَنِ الْجَنَّةِ )
’’میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی برحق معبود نہیں اور میں اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں، جوبھی شخص ان دونوں باتوں کے ساتھ بغیرکسی شک کے، اللہ سے ملاقات کرے گا تووہ جنت میں داخل ہوگا([21]) ‘‘۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول:
’’اس کے معنیٰ کے سلسلے میں سب سے بہتروہ بات ہے جس کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ وغیرہ نے کہا ہے کہ: ’’یہ سب احادیث ان لوگوں کے بارے میں ہیں جنہوں نے لاالہ الااللہ کہا اور اسی پران کا انتقال ہوگیا،جیسا کہ تقیید کے ساتھ وارد ہے کہ: ’’اس کو خالص دل سے صدق ویقین کے ساتھ بغیرشک کے کہا،کیونکہ توحید کی حقیقت اللہ کی طرف روح کا مکمل طور سے مائل ہوجانا ہے،لہذا جس نے لاالہ الا اللہ کو خالص دل سے کہا وہ جنت میں داخل ہوگا، اس لئے کہ اخلاص نام ہے اللہ تعالیٰ کی طرف دل کے کھنچنے کا ،اس طورپر کہ بندہ اپنے گناہوں سے سچے دل سے توبہ کرلے،اوراگراسی حالت پرمرجائے تو وہ اس (جنت) کو حاصل کرسکےگا، کیونکہ بہت ساری متواترحدیثیں ہیں جن میں اس بات کا ذکرہے کہ جہنم سے ہراس شخص کو نکال باہرکیا جائے گا جس نے لاالہ الا اللہ کہا اور اس کے دل میں جَو،رائی اور ذرہ برابر بھلائی ہوگی۔
اوریہ بھی تواترکے ساتھ منقول ہے کہ بہت سارے ایسے ہیں جو لاالہ الا اللہ کہتے ہیں، جہنم میں داخل ہونگے، پھراس سے نکالے جائیں گے۔اسی طرح تواترسے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آگ پربنی آدم کے سجدے کے نشان کو کھانا حرام کردیا ہے۔چنانچہ یہ لوگ نماز پڑھتے اور اللہ کے لئے سجدہ کرتے تھے۔
اوریہ بھی تواترسے منقول ہے کہ:’’ آگ پروہ شخص حرام ہے جس نے لاالہ الا اللہ کہا‘‘، اور’’جس نے لاالہ الا اللہ اورمحمد رسول کی گواہی دی‘‘،لیکن یہ بہت بھاری قیود سے مقیّد وارد ہوئی ہیں،اوراکثراس کلمہ کے کہنے والے اخلاص ویقین کے معنیٰ کو جانتے ہی نہیں، اورجو اس کو نہیں جانتا تو اندیشہ ہے کہ وہ اس کے بارے میں موت کے وقت آزمائش میں پڑجائےاوراس شخص کے اور کلمہ کے درمیان کوئی رکاوٹ پیدا ہوجائے، اور بہت سارے لوگ اس کلمہ کو بطوررسم وعادت کہتے ہیں،اور عموماً ان کے دل کی گہرائی میں یہ کلمہ جاں گزیں نہیں ہوتا، اورغالبا موت کے وقت اور قبروں میں ایسے لوگ ہی آزمائے جاتے ہیں جیساکہ حدیث میں ہے:(سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ)۔
’’میں نے لوگوں کو کچھ کہتے ہوئے سنا تو میں نے بھی اسے کہدیا([22]) ‘‘۔
اورعمومی طورپر ا ن کے اعمال اپنے جیسے لوگوں کی اندھی تقلید اور پیروی کے نتیجے میں ہوتے ہیں،اوریہ لوگ اللہ کے درج ذیل قول کے زیادہ قریب ہیں:
﴿بَلْ قَالُوا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِم مُّهْتَدُونَ﴾[الزخرف:22]
’’ بلکہ یہ تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک مذہب پر پایا اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل کر راه یافتہ ہیں‘‘۔[الزخرف:۲۲]
اورایسی صورت میں احادیث کے درمیان کوئی اختلاف وتعارض نہیں رہ جاتا، کیونکہ جب اس(کلمہ) کو اخلاص ویقین تام کے ساتھ کہے گا توایسی صورت میں وہ گناہ پر قائم نہیں رہے گا، اس لئے کہ اس کا مکمل اخلاص ویقین اس بات کو واجب کرتا ہے کہ اس کے نزدیک اللہ تعالیٰ تمام چیزوں سے زیادہ محبوب وپسندیدہ ہو،تواس وقت اس کے دل میں اللہ کی حرام کردہ اور اس کی ناپسندیدہ ومکروہ چیزوں کے بارے میں کوئی ارادہ باقی نہیں رہے گا،اوریہی وہ ہے جس پر آگ حرام ہوگی۔ اوراگراس سے پہلے اس کے کوئی گناہ ہوئے ہوں گے تو یہ ایمان، توبہ، اخلاص،محبت اور یقین اس کے گناہ کو ویسے ہی مٹادیں گے جیسے دن کے آنے سے رات کی تاریکی مٹ جاتی ہے ‘‘ا.ھ۔
اوران لوگوں کا دوسرا شبہ بھی ہے کہتے ہیں کہ: نبیﷺ نے اسامہ رضی اللہ عنہ پرلاالہ الا اللہ کے اقرار کرنے والے کی قتل کردینے پرنکیر فرمائی تھی،اورکہاتھا: (أَقَتَلْتَهُ بَعْدَمَا قَالَ لا إِلهَ إِلاَّ اللَّهُ؟)
’’کیا تم نے اس کو ’’لاالہ الا اللہ ‘‘ کہنے کے بعد قتل کرڈالا؟([23]) ‘‘۔
اوردیگرحدیثیں ہیں جولاالہ الا اللہ کہنے والے کے(قتل) سےروکتی ہیں، اوران جاہلوں کی مراد یہ ہے کہ جس نے اس (کلمہ) کو کہہ لیا تو اس کو نہ کافرکہا جائے گا اور نہ ہی قتل کیا جائے گا گرچہ وہ جو چاہے (شرکیہ کام)کرے۔
توان جاہلوں سے کہا جائے گا: یہ بات معلوم ہے کہ رسولﷺ نے یہود سے جنگ کیااور ان کو برابھلاکہا حالانکہ وہ بھی لاالہ الااللہ کہتے تھے،اور رسولﷺ کے صحابہ نے بنوحنیفہ سے قتال کیا حالانکہ وہ لاالہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کی گواہی دیتے تھے، اور نماز پڑھتے تھے اور اسلام کا دعویٰ کرتے تھے۔اسی طرح وہ لوگ بھی جن کو علیؓ نے جلا دیا ۔اور یہ جاہل لوگ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بعث بعد الموت کا منکر کافر ہے اور اس سے قتال کیا جائے گا گرچہ وہ لاالہ الا اللہ کا قائل ہو، اور جو اسلام کے ارکان میں سے کسی بھی چیز کا انکارکرے وہ کافرہے اور اس سے جنگ کی جائے گی گرچہ وہ اس کلمہ کا قائل ہو۔
تو کیسے (یہ کلمہ )فروع میں سے کسی چیز کے انکارکرنے والے کو نفع نہیں دے گا اور توحید جو رسولوں کے دین کی اصل اورسرمایہ ہے اس کے منکرکو نفع دے گا! لیکن اللہ کے دشمن احادیث کے مفہوم کو نہ سمجھ سکے۔
اور آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: رہی بات حدیث اسامہؓ کی تو انہوں نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا تھا جس نے اسلام کا دعویٰ کیا لیکن انہوں نے یہ گمان کیا کہ اس نے جان ومال کی خوف سے ایسا کیا ہے ، اورآدمی جب اسلام کا اظہار کرے تواس سے رکنا ضروری ہے یہاں تک کہ اس سے کوئی ایسی چیز ظاہرہو جو اس کے دعویٰ کے خلاف ہو، اوراسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَتَبَيَّنُوا﴾[النساء:94]
’’اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راه میں جا رہے ہو تو تحقیق کر لیا کرو‘‘۔[النساء:۹۴]
یعنی :تحقیق کرلیا کرو،چنانچہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے رکنا اور اس کا تثبت کرنا ضروری ہے، پس اگراس کے بعد اس سے اسلام کے مخالف چیز ظاہر ہوجائے تو اس سے قتال کیا جائے گا اللہ کے قول(فتبیّنوا)’’تم اس کی تحقیق کرلیا کرو‘‘کی وجہ سے،اور اگراس(کلمہ) کے کہنے پر اسے قتل نہیں کیا جاتا توپھر تحقیق وجانچ پڑتال کرنے کا کوئی معنیٰ ہی نہیں رہ جاتا۔
اسی طرح دیگرحدیثیں اورجو اس معنیٰ میں ہیں ان کا بھی یہی مفہوم ہے اوروہ یہ ہےکہ جس نے اسلام اور توحید کو ظاہر کیا تواس سےرکنا ضروری ہے مگریہ کہ اس سے اس کے مخالف چیزظاہرہو۔اور اس کی دلیل یہ ہے کہ رسولﷺ نے(اسامہ ؓ سے) کہا:
(أَقَتَلْتَهُ بَعْدَمَا قَالَ لا إِلهَ إِلاَّ اللَّهُ؟)
’’کیا تم نے اس کو ’’لاالہ الا اللہ ‘‘ کہنے کے بعد قتل کرڈالا؟([24]) ‘‘اور فرمایا کہ:(أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ)
’’مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک قتال کرتا رہوں جب تک کہ وہ لاالہ الا اللہ کا اقرار نہ کرلیں ([25])‘‘۔
تو آپﷺنے ہی خوارج کے بارے میں یہ فرمایا: (فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ)
’’جہاں بھی تم اُن کو پاؤ قتل کرو ([26]) ‘‘۔اور فرمایا:(لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ)
’’اگرمیں ان کو پاتا تو(قوم) عاد کی طرح قتل کرتا ([27]) ‘‘
حالانکہ یہ (خوارج) سب سے زیادہ تہلیل(لاالہ الا اللہ) کہنے والے تھے،یہاں تک کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے مقابلے میں اپنے آپ کو کمترسمجھتے تھے،اوران لوگوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہی علم حاصل کیا تھا، لیکن ان کو لاالہ الا اللہ کچھ بھی نفع نہیں دیا، اورنہ ہی ان کی کثرتِ عبادت ان کےکوئی کام آسکی، اور نہ ہی ان کا اسلام کا دعویٰ کرناانہیں کوئی فائدہ پہنچاسکا ،کیونکہ ان سے شریعت کے مخالف امورظاہرہوئی۔ اسی طرح (گزشتہ سطور میں) جو ہم نے یہود سےجنگ کرنے اور بنوحنیفہ سے صحابہ کرام کے قتال کرنے کی بات ذکر کی ہے انہیں بھی اس کلمہ سے کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔
حافظ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور کتاب ’’کلمۂ اخلاص‘‘میں نبیﷺ کے فرمان: )أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ([28]))
’’مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک کہ وہ اس بات کی گواہی نہ دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں ہے اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں‘‘۔
پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’عمررضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے یہ سمجھا کہ جوشخص شہادتین کا اقرار کرے تو وہ محض اس کے نطق کی وجہ سے دنیامیں سزا سے محفوظ ہوگیا، اسی لئے وہ لوگ مانعین زکاۃ سے قتال نہیں کئے،جبکہ صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ ان سے قتال کرنے سے توقّف نہیں اختیار کیا جائے گا مگر یہ کہ وہ اس کے حقوق کو اداکردیں،رسولﷺ کےاس فرمان کی وجہ سے:
(فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ)
’’جب وہ ایسا کرلیں تو انہوں نے مجھ سے اپنا جان ومال محفوظ کرلیا مگر اسلام کا حق باقی ہے، اور ان کاحساب (با قی معاملہ)اللہ پرہوگا۔ ([29]) ‘‘اور فرمایا: ’’زکاۃ مال کا حق ہے([30]) ‘‘۔
اورجو ابوبکرصدّیقؓ نے سمجھا اس کو نبیﷺ سے بہت سارے صحابہ کرام جیسے ابن عمر اور انس وغیرہما نے صراحت کے ساتھ روایت کیا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
(أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ...الحديث)
’’مجھے اس بات کاحکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک قتال کرتا رہوں جب تک کہ وہ لاالہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کی شہادت نہ دیدیں،اورنماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں… ([31]) ‘‘۔
اور اس پر اللہ تعالیٰ کا درج ذیل قول بھی دلالت کرتا ہے :
(فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ﴾[التوبة:5]
’’ ہاں اگر وه توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوٰة ادا کرنے لگیں توتم ان کی راہیں چھوڑ دو‘‘۔[توبہ:۵]
اسی طرح اللہ کا فرمان:
﴿فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ ۗ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ﴾[التوبة:11]
’’ اب بھی اگر یہ توبہ کر لیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوٰة دیتے رہیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔ ہم تو جاننے والوں کے لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کر رہے ہیں‘‘۔[توبہ:۱۱]
اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دین میں بھائی چارگی توحید کے ساتھ فرائض کی ادائیگی کے ذریعہ ہی ثابت ہوسکتی ہے،کیونکہ شرک سے توبہ صرف توحید کے ذریعہ ہی حاصل ہوتی ہے،اور جب ابوبکررضی اللہ عنہ نے اس بات کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے ثابت کردیا تووہ لوگ آپ رضی اللہ عنہ کی بات کی طرف واپس ہوئے اور اسے درست تسلیم کئے۔پس جب معلوم ہوگیاکہ دنیا کی سزائیں مطلق طور پرشہادتین کی ادائیگی سے نہیں ہٹائی جاسکتی ہیں،بلکہ اسلامی حقوق میں سے کسی ایک حق میں گڑبڑی وکمی کرنے کی بنا پر وہ سزاوار ہوگا تو اسی طرح آخرت کی سزا کابھی حال ہے۔
اوریہ بھی کہا کہ: علماء کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ: ان احادیث سے مراد یہ ہے کہ:لاالہ الا اللہ کا زبان سے اداکرنا یہ جنت میں جانے اور مجرموں کے جہنم سے نکلنے کا سبب اور اس کا مقتضیٰ ہے۔
لیکن مقتضیٰ اپنا عمل اسی وقت کرے گا جب اس کی تمام شرطیں پوری ہوں گی اور اس میں کوئی ممانعت نہیں پائی جائے گی،کیونکہ بسا اوقات اس کا مقتضیٰ شرطوں میں سے کسی شرط کے فوت ہونے یا کسی مانع پائے جانے کی وجہ سے پیچھے رہ جاتا ہے،اور یہ حسن بصری اور وہب بن منبہ رحمہما اللہ کا قول ہے،اور یہی سب سے زیادہ ظاہرہے۔
پھر انہوں(حافظ ابن رجبؒ) نے حسن بصریؒ کا واقعہ نقل کیا جس میں انہوں نے فرزدق سے اس وقت کہا تھاجب وہ اپنی بیوی کو دفنا رہا تھا:
’’اس دن کے لئے تونے کیا تیاری کررکھی ہے ؟ ‘‘ تو اس نےجواب دیا:’’ستّر سال سے لاالہ الا اللہ کی گواہی کا‘‘ ،توحسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا:’’ کیاہی عمدہ تیاری ہے‘‘،لیکن یادر ہے کہ لاالہ الا اللہ کے کچھ شروط ہیں،لہذا پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانے سے بچو‘‘۔
اورحسن بصریؒ سے کہا گیا : کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ: ’’جس نے لاالہ الا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہوگیا‘‘ ،توانہوں نے فرمایا: ’’جس نے لاالہ الا اللہ کا اقرارکیا اور اس کاحق وفریضہ ادا کیا تو جنت میں داخل ہوگا‘‘۔
اور وہب بن منبّہؒ سے کسی نے پوچھا کہ :’’کیا لاالہ الا اللہ جنت کی کنجی نہیں ہے؟‘‘ تو فرمایا: ’’کیوں نہیں، لیکن کوئی چابی دندانے کے بغیر نہیں ہوتی،پس اگرتم ایسی چابی لاؤ جس کےدندانے ہوں تو یہ دروازہ کھلے گا ورنہ نہیں‘‘۔
اور میرے خیال سے اہل علم سے جو کچھ میں نے نقل کیا ہے اس شبہ کے رد کے لئے کافی ہے جس سے وہ لوگ چپکے ہوئے ہیں جو یہ گمان کرتے ہیں کہ لاالہ الا اللہ کہنے والا کافر نہیں ہوگا چاہے وہ مزاروں اور صالحین کی قبروں پر کیے جانے والے شرک اکبر کے انواع میں سے جوبھی کام کرے جو کہ کلمہ لاالہ الا اللہ کے بالکل مخالف ومتضاد ہیں۔
اور یہ گمراہ لوگوں کا طریقہ ہے جو مجمل نصوص میں سے اس چیز کو لیتے ہیں جنہیں وہ اپنے حق میں حجت ودلیل گمان کرتے ہیں،اور اس کو بیان اوراس کی توضیح کرنے والے مفصّل نصوص کو ترک کردیتے ہیں، ان کی حالت ان لوگوں کی طرح ہے جو بعض کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کردیتے ہیں، اوراللہ تعالیٰ نے انہی جیسے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ﴾[آل عمران:7-9] ’’وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اوربعض متشابہ آیتیں ہیں۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وه تواس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حالانکہ ان کے حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ ومضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لاچکے، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کردے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، یقیناً تو ہی بہت بڑی عطا دینے والاہے اے ہمارے رب! تو یقیناً لوگوں کوایک دن جمع کرنے والاہے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ وعده خلافی نہیں کرتا ۔‘‘[آل عمران:۷۔۹]
اے اللہ!ہمیں حق کو حق دکھااور اس کی اتباع کی توفیق دے، اور باطل کو باطل دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق دے۔
جب کلمۂ طیبہ(لاالہ الااللہ) کو صدق دل اور اخلاص کے ساتھ کہا جائے اور ظاہروباطن کےلحاظ سے اس کے تقاضوں پر عمل کیا جائے تو فرد وجماعت پر اس کے بہت اچھے اثرات مرتّب ہوتے ہیں،ان میں سے چند اہم اثرات درج ذیل ہیں:
۱۔کلمہ کا متّحد ہونا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو قوّت وشوکت اوردشمنوں پر غلبہ وتمکنت حاصل ہوتی ہے، کیونکہ یہ لوگ ایک ہی دین اور ایک ہی عقیدہ کو اپنانے والے ہوتے ہیں،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾[آل عمران:103]
’’ اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو‘‘۔[آل عمران:۱۰۳]
اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴾[الأنفال:62-63]
’’ اسی نے اپنی مدد سے اور مومنوں سے تیری تائید کی ہے ان کے دلوں میں باہمی الفت بھی اسی نے ڈالی ہے۔ زمین میں جو کچھ ہے تو اگر سارا کا سارا بھی خرچ کر ڈالتا ہے تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتا۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے وه غالب حکمتوں والاہے‘‘[انفال:۶۲۔۶۲]
اور عقیدہ میں اختلاف کرنا افتراق وانتشار،لڑائی وجھگڑااورخون ریزی وباہمی قتل وغارت گری کا سبب بنتا ہے،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّـهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ﴾[الأنعام:159]
’’بےشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جُدا جُدا کردیا اور گروه گروه بن گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں بس ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔ پھر ان کو ان کا کیا ہوا جتلادیں گے‘‘۔[انعام:۱۵۹]
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ زُبُرًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ﴾ [المؤمنون:53]
’’ پھر انہوں نے خود (ہی) اپنے امر (دین) کے آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیئے، ہر گروه جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر اترا رہا ہے‘‘۔[مومنون:۵۳]
لہذا لوگوں کا اتحاد واتفاق اورملت کا اتحاد صرف عقیدہ ایمان وتوحید ہی سے ہوسکتا ہے جو کہ لاالہ الا اللہ کا مدلول ہے،اوراسلام سےقبل اور اس کے بعد عربوں کی حالت سے عبرت حاصل کریں۔
۲۔توحید پرست معاشرہ جو لاالہ الا اللہ کے تقاضوں کو اپناتا ہے اس کے اندر (یہ کلمہ)امن وسکون اور طمانینت پیدا کرتا ہے،کیونکہ معاشرہ کا ہرفرد اس عقیدہ کے ساتھ تفاعل کرتے ہوئے اسی چیزکو لیتا ہے جس کو اللہ نے حلال قرار دیا ہے، اور اس چیز سے باز رہتا ہے جس کو اللہ نے حرام ٹہرایا ہے،چنانچہ ظلم وزیادتی اور سرکشی سے رُک جاتا ہے اوراس کی جگہ باہمی تعاون،محبت اور اللہ کی خاطردوستی جگہ لے لیتی ہے اللہ کےدرج ذیل قول پر عمل کرتے ہوئے کہ:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾[الحجرات:10]
’’(یاد رکھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں‘‘۔[حجرات:۱۰]
اوراس چیز کا نمایاں اظہار اس کلمہ کے اپنانے سے پہلے اور بعد میں عربوں کے حالات سے ہوتا ہے، چنانچہ وہ اس(کلمہ کے اپنانے) سے پہلے آپس میں ایک دوسرے کے دشمن،باہم دست وگریباں اور خون کے پیاسے تھے، ایک دوسرے کاقتل،لوٹ مار،چھینا جھپٹی کرنے پر فخر کرتےتھے لیکن جب انہوں نے اس کلمہ کو اپنایا تو باہم محبت کرنے والے بھائی بن گئے(اورمعاشرہ امن وسکون اور بھائی چارہ کا گہوارہ بن گیا)،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ﴾[الفتح:29]
’’ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں‘‘۔[فتح:۲۹]
اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا ﴾ [آل عمران:103]
’’ اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے‘‘۔[آل عمران:۱۰۳]
۳۔اس کلمہ سے زمین میں جانشینی وسرداری حاصل ہوتی ہے اور دین میں نکھار وخلوص آتا ہے اور مختلف مبادیات وافکار کے لہروں کے سامنے ثابت قدمی واستقلال پیدا ہوتا ہے،جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾[النور:55]
’’ تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وه پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف وخطر کو وه امن وامان سے بدل دے گا، وه میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وه یقیناً فاسق ہیں‘‘۔
چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان بلند مقاصد کے حصول کو اپنی خالص عبادت کے ذریعہ مربوط کردیا ہے جس میں کسی کو شریک نہ بنایا جائے، اور یہی لاالہ الا اللہ کا معنیٰ اورمقتضیٰ ہے۔
۴۔جوشخص لاالہ الا اللہ کہتا ہے اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا ہے تو اسے اطمینان قلب اورذہنی سکون حاصل ہوتا ہے،کیونکہ وہ ایک ایسے رب کی عبادت کرتا ہے جس کی مراد اوراس کی مرضی کی چیز کو جانتا ہے اور اسے بجالاتا ہے،اور اسے ناراض کرنے والی چیز کو جانتا ہے اوراس سے اجتناب کرتا ہے،بخلاف اس شخص کے جو متعدد معبودوں کی پوجا کرتا ہے جن میں سے ہرایک کی مراد جداہوتی ہے ،اورہرایک کی تدبیردوسرے سے مختلف ہوتی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّـهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُhttp://tanzil.net/ - 12:39﴾[اليوسف:39]
’’ اے میرے قید خانے کے ساتھیو! کیا متفرق کئی ایک پروردگار بہتر ہیں؟ یا ایک اللہ زبردست طاقتور؟‘‘۔[یوسف:۳۹]
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ الْحَمْدُ لِلَّـهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ﴾[الزمر:29]
’’ اللہ تعالیٰ مثال بیان فرما رہا ہے ایک وه شخص جس میں بہت سے باہم ضد رکھنے والے ساجھی ہیں، اور دوسرا وه شخص جو صرف ایک ہی کا (غلام) ہے، کیا یہ دونوں صفت میں یکساں ہیں، اللہ تعالیٰ ہی کے لئے سب تعریف ہے۔ بات یہ ہے کہ ان میں کے اکثر لوگ سمجھتے نہیں‘‘۔[زمر:۲۹]
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:’’یہ ایک مثال ہے جسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مشرک وموحّد شخص کے لئے بیان فرمایا ہے،چنانچہ مشرک تو اس غلام کی طرح ہے جس کے کئی ایک مالک ہوں اور ہوں بھی وہ سب آپس میں مختلف اور پھر ایک دوسرے کے مخالف،ایک دوسرے سے بدی رکھنے والے،(اب اس غلام کی کیسی درگت ہوگی یہ ظاہر ہے) چونکہ مشرک کئی ایک معبودوں کا پرستار ہوتا ہے نا ممکن ہے کہ وہ سب کو خوش رکھ سکے، اور موحّد صرف پرستار واحدہوتا ہے ،پس اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی ایک کا غلام ہو اس کی طبیعت سے واقف ہو، اس کے مزاج کو جانتا ہو، اس کی رضا مندی کے طریقے کو پہچانتا ہو(پس اس کی نگاہیں اسی پر ہیں،ہرخدمت سے اسے خوش کرسکتا ہے)۔دوسرے سب سے بے پرواہ ہے۔ کسی کا نہ اسے ڈر نہ لحاظ، پھر اس کا مالک سلیم المزاج رافت وشفقت اوراحسان وسلوک والا ہے،کوئی اس کا ساتھی نہیں، وہ اپنےاس غلام سے خوش ہےاس پراحسان کرتا ہے اس کی تمام ضروریات کا خیال رکھتا ہے تو کیا یہ دونوں غلام برابر ہوسکتے ہیں؟‘‘(اعلام الموقعین:۱؍۱۴۴)۔
۵۔لاالہ الا اللہ والوں کودنیا وآخرت میں رفعت وبلندی حاصل ہوتی ہے ،جیسا کہ ارشادباری تعالی ٰہے:
﴿حُنَفَاءَ لِلَّـهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍhttp://tanzil.net/ - 22:31﴾[الحج:31]
’’ صرف اﷲ کے ہوکر رہو اس کے ساتھ (کسی کو) شریک نہ ٹھہراتے ہوئے، اور جو کوئی اﷲ کے ساتھ شرک کرتاہے تو گویا وہ (ایسے ہے جیسے) آسمان سے گر پڑے پھر اس کو پرندے اچک لے جائیں یا ہوا اس کو کسی دور کی جگہ میں نیچے جا پھینکے‘‘۔[الحج:۳۱]
چنانچہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ توحید بلندی وبالائی ہے،اور شرک پستی وگراوٹ اور تنزّلی ہے۔
علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ایمان وتوحید کو اس کی بلندی ووسعت اور شرف میں آسمان سے تشبیہ دی ہے جواس کے اترنے اورچڑھنے کی جگہ ہے،کیونکہ آسمان سے ہی زمین کی طرف اس کا نزول ہوتااور زمین سے آسمان کی طرف اس کا چڑھنا ہوتا ہے۔اور ایمان اورتوحید کے تارک کو آسمان سے پستی(زمین) کی طرف گرنے سےتشبیہ دی ہے جہاں اس کوسخت تنگی اورمسلسل تکالیف لاحق ہوتی ہے۔اورپرندہ جو اس کے اعضاء کو اچک لیتا ہےاوراس کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالتا ہے ان شیاطین سے(تشبیہ دی گئی ہے) جنہیں اللہ تعالیٰ ان کی طرف بھیجتا ہے جو اسے اکساتے ہیں اور پریشان کرتے ہیں اور اسے ہلاکت کی جگہوں تک پہنچادیتے ہیں،اور ہوا جو اسے دورمکان میں اٹھاکر پھینک دیتی ہے وہ در حقیقت اس کی خواہش (نفس) ہے جو اسے آسمان سے اٹھا کربہت دورزمین کی گہرائی میں پھینکنے پر ابھارتی ہے‘‘۔(إعلام الموقعين عن رب العالمين :1/ 138)
۶۔اس کلمہ سے اس کا خون ومال اور آبرو محفوظ ہوتا ہے نبیﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے : ’’مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک قتال کرتا رہوں جب تک کہ وہ لاالہ الا اللہ کا اقرار نہ کرلیں،پس جب وہ اسے کہہ لیں تو مجھ سے ان کے خون اور مال محفوظ ہوجائیں گے مگراس کے حق کے ساتھ ‘‘ ([32]) ۔
آپ ﷺ کا فرمان(بحقّھا)’’اس کے حق کے ساتھ ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ :جب وہ لوگ اس کلمہ کو کہیں اور اس کے حق کی ادائیگی نہ کریں۔یعنی جوان سے توحید قائم کرنے،شرک سے بچنے اور اسلام کے ارکا ن بجالانے کا مطالبہ ہے اسے پورا نہ کرسکیں۔تو ایسی صورت میں ان کی جان ومال محفوظ نہیں رہیں گی،بلکہ وہ قتل کئے جائیں گے،اور ان کے مالوں کو مسلمانوں میں بطورغنیمت تقسیم کردیا جائے گا۔جیسا کہ ان کے ساتھ نبیﷺ اور ان کے خلفائے راشدین نے کیا تھا۔
یہ(لاالہ الا اللہ ) کے چنداثرات اورثمرات وبرکات ہیں،اور اس کے علاوہ عبادات، معاملات،آداب اور اخلاق وغیرہ میں فرد وجماعت پر مرتّب ہونے والے بہت سارے اثرات ہیں…
میں اللہ سے توفیق کا طالب ہوں،اور درود وسلام ہو ہمارے نبی محمد،ان کے آل اور تمام اصحاب پر۔
ڈاکٹرصالح بن فوزان الفوزان۔حفظہ اللہ۔
رکن سپریم علماء کونسل وممبرمستقل فتوی کمیٹی،سعودی عرب
[1])) نوٹ:اس کتاب کے ترجمہ میں’’الميراث النبوي للنشروالتوزيع‘‘ کے عربی نسخہ پر اعتماد کیا گیا ہے۔
[2]) ) مصنف حفظہ اللہ نے شہادتین کے پہلے جزء کلمہ(لاالہ الا اللہ )کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے اور دوسرے جزء (محمد رسول اللہ) کا تذکرہ نہیں کیا ہے،لہذا مناسب سمجھا گیا کہ اس کی طرف مختصر اً اشارہ کردیا جائے تاکہ شہادتین کا حقیقی مفہوم سمجھنے میں آسانی ہوسکے،محمد رسول اللہ کی شہادت کا مطلب:دل کی گہرائیوں سے مکمل طور پراس بات کی تصدیق کرنا کہ محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب : اللہ کے بندے اور تمام انس وجن کے لئے اُس کےآخری رسول ہیں، چنانچہ محمد ﷺ کی شہادت کا مختصروصحیح مفہوم یہ ہے کہ: آپﷺ کی خبرکردہ تمام چیزوں کی تصدیق کرنا،اورآپ ﷺ کے تمام اوامرکو بجالانا،اور آپﷺ کے تمام نواہی ومنع کردہ چیزوں سے اجتناب کرنا ، اور اللہ تعالیٰ کی عبادت آپﷺ کی مشروع کردہ طریقے کے مطابق کرنا (م۔ر)
[3]))(صحیح مسلم :۱۱۴۱،مسند احمد :۵/۷۵)۔
[4]))(ترمذی:۳۵۸۵)
[5]))(مسلم، حدیث:۲۳،واحمد(۶؍۳۹۴)۔
[6]))( بخاری :1458،مسلم :رقم:۱۹ ،ترمذی:۶۲۵ ،نسائی:۲۴۳۵ ،ابوداود:۱۵۸۴)، ابن ماجہ:۱۷۸۳ ،احمد:۱؍۲۳۳ ،الدارمی:۱۶۱۴)
[7]) ) بلکہ صحیح بخاری حدیث :۱۴۵۸ میں( فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ عِبَادَةُ اللَّهِ )کا لفظ آیا ہے۔اورحدیث : ۷۳۷۲ میں (إِلَى أَنْ يُوَحِّدُوا اللَّهَ تَعَالَى)کا لفظ آیا ہے (م.ر)
[8]) ) (مستدرک علی الصحیحن للحاکم:۱۹۳۶)۔
[9]))(ترمذی:۳۵۸۵)
[10]) ) (ترمذی(رقم:۲۶۳۹)، ابن ماجہ(رقم:۴۳۰۰)۔
[11]) ) (مستدرک علی الصحیحین ،۱۹۳۷)
[12]) ) (مسلم:حدیث نمبر۲۳)،احمد(۶؍۳۹۴)۔
[13]) ) (مسند احمد :۱؍۲۲۷)۔
[14]) ) (سنن ترمذی، حدیث:۳۰۹۵)،ملاحظہ:مولّف حفظہ اللہ نے جو الفاظ ترمذی کے حوالے سے ذکر کئے ہیں وہ میں نہیں پاسکا بلکہ ترمذی کے الفاظ یوں ہیں:(عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي عُنُقِي صَلِيبٌ مِنْ ذَهَبٍ. فَقَالَ: يَا عَدِيُّ اطْرَحْ عَنْكَ هَذَا الوَثَنَ، وَسَمِعْتُهُ يَقْرَأُ فِي سُورَةِ بَرَاءَةٌ: {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ}، قَالَ: أَمَا إِنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا يَعْبُدُونَهُمْ، وَلَكِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَهُمْ شَيْئًا اسْتَحَلُّوهُ، وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَيْهِمْ شَيْئًا حَرَّمُوهُ.( حدیث:۳۰۹۵)[م .ق]
[15])) تعطیل کے لغوی معنی ٗچھوڑدینے کے ہیں،اوراصطلاح میں اس سے مقصود یہ ہے کہ: اللہ کی ذات سے صفات الہی کی نفی کی جائے،اوران کے قائم بذات اللہ ہونےکا انکار کیا جائے یا اُن میں سے بعض صفات کا انکار کیا جائے۔(م.ر)
[16])) توحید اسماء و صفات کے بیان میں اہل سنت والجماعت یعنی صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ اربعہ اور محدثینؒ کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ کتاب وسنت میں بیان شدہ اسماء وصفاتِ باری تعالیٰ کے حقیقی و اصلی معنی کا اثبات کرتے ہیں جبکہ اس کی کیفیت بیان نہیں کرتے مثلاً قرآن میں اللہ تعالیٰ کے لیے صفت 'ِید' کا اثبات ہے تو اہل سنت والجماعت اللہ کے لیے صفت ِ'ید' کے حقیقی لغوی و عرفی معنی کا اثبات کرتے ہیں اور اس کی کیفیت یا تشبیہ بیان کرنے کو بدعت قرار دیتے ہیں۔
اہل سنت والجماعت کےاس عقیدہ کے برعکس ایک اُسلوب اہل تاویل کا ہے جو صفاتِ ذاتیہ کے علاوہ دیگراَسماء وصفاتِ باری تعالیٰ کو بھی اُن کے حقیقی معنی کے بجائے مجازی معنی پر محمول کرتے ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات میں 'ید' بمعنی ہاتھ ہے۔اہل سنت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پاؤں وغیرہ مانتے ہیں،لیکن اہلِ تاویل صفتِ ید کا مجازی معنی 'قدرت' بیان کر دیتے ہیں اور اس لفظ کے حقیقی معنیٰ 'ہاتھ'کا اللہ کی ذات کے لیے اِثبات نہیں کرتے ہیں۔ (م.ر)
[17]) ) اہل سنت والجماعت کے بالمقابل تاویل سے بچنے کا ایک دوسرا طریق کار اہل تفویض کا ہے جو اللہ تعالی ٰکی صفات کے لیے کوئی مجازی معنیٰ پیش کر کے تاویل تو نہیں کرتے،لیکن سرے سے عربی الفاظ کا مفہوم ہی تسلیم کرنے سے انکار کر جاتے ہیں اور ان صفات کو اللہ کے سپرد کر دینے کا مقصد یہ بیان کرتے ہیں کہ اُن کا کوئی لغوی معنی بھی بیان نہ کیا جائے ۔(م.ر)
[18]) ) بخاری ،حدیث:۴۱۵،مسلم،حدیث:۳۳)
[19])) (بخاری:۱۲۸،مسلم:۳۲،احمد:۳؍۲۶۱)۔
[20]) ) (صحیح مسلم:۲۹ ،سنن ترمذی:۲۶۳۸ ،احمد:۵؍۳۱۸)۔
[21]) ) (مسلم : ۲۷،احمد:۲؍۴۲۱)
[22]))(بخاری:۸۶،مسلم:۹۰۵،احمد۶؍۳۵۵)۔
[23]) ) (بخاری :۴۰۲۱ ،مسلم:۹۶ ،احمد:۵؍۲۰۰)۔
[24]) ) (بخاری :۴۰۲۱ ،مسلم:۹۶ ،احمد:۵؍۲۰۰)
[25]) ) (بخاری:۲۵،مسلم:۲۲،ترمذی:۲۶۰۸،نسائی:۳۹۶۷،ابوداود:۲۶۴۱،ابن ماجہ:۷۱،احمد:۳؍۲۲۵)۔
[26]) )(بخاری:۳۶۱۱،مسلم:۲۵۱۱،ابوداود:۴۷۶۹،نسائی:۴۱۰۲،ابن ماجہ:۱۷۵،احمد:۱؍۸۱)
[27]) ) (بخاری:7432،مسلم:۲۴۹۹،ابوداود:۴۷۶۶،نسائی:۲۵۷۸،احمد:۳؍۶۸)
[28]))(اس کی تخریج ص۷۲ پر گزرچکی)
[29]) ) (اس کی تخریج ص۷۲ پر گزرچکی ہے)
[30]))(بخاری:۶۹۲۴، ومسلم:۲۰)۔)
[31]) ) (اس کی تخریج ص۷۲ پر گزرچکی)
[32]))(اس کی تخریج ص۷۲ پر گزرچگی ہے)۔