نبوت کی نشانیاں([1])
بے شک تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اس سے مدد اور مغفرت طلب کرتے ہیں، ہم اپنے نفس کی برائی اور اعمال بد سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، ان پر اور ان کے آل واصحاب پر اللہ کی بے پناہ رحمتیں نازل ہوں۔
حمد وصلاۃ کے بعد:
اللہ کے بندو! اللہ سے کما حقہ ڈرو، اور خلوت و جلوت ہر جگہ اس کا خوف اپنے دلوں میں زندہ رکھو۔
اے مسلمانو!
اللہ تعالی نے مخلوق کی ہدایت کے لئے رسولوں کو مبعوث فرمایا، جنہوں نے فطرت([2]) کو اپنی لائی ہوئی وحی کی روشنی سے مکمل کی، اللہ کی عبادت، نیک اعمال اور حسن اخلاق کی دعوت دی۔بندوں کے لئے رسولوں کی ضرورت کھانے پینے اور سانس لینے کی ضرورت سے کہیں بڑھ کر ہے، کیوں کہ سعادت وخوش بختی، فلاح وکامرانی اور اللہ کی خوشنودی کا حصول ان کے علاوہ کسی اور کے ذریعہ نا ممکن ہے۔
اللہ تعالی مکمل بے نیازی، کامل قدرت اور وسیع وبے پناہ علم میں منفر د ہے، رسول علیہم السلام بھی انسان ہیں، انہیں بھی ان تین اوصاف کا وہی حصہ حاصل ہوتا ہے جو اللہ انہیں نوازتا ہے، اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: ﴿قُل لَّآ أَقُولُ لَكُمْ عِندِى خَزَآئِنُ ٱللَّه وَلَآ أَعْلَمُ ٱلْغَيْبَ وَلَآ أَقُولُ لَكُمْ إِنِّى مَلَكٌ﴾
ترجمہ:آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔
چنانچہ اللہ تعالی نے اپنی قدرت، علم اور بادشاہت کے ذریعہ اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں سے سرفراز کیا، تاکہ بندوں کے سامنے یہ ظاہر کر سکے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور وہ جس بات کی خبر دیتے ہیں، اس میں وہ سچے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "ہر نبی کو ایسے ایسے معجزات عطا کیے گئے ہیں جنہیں دیکھ کر لوگ ایمان لاتے رہے" (متفق علیہ)۔
چنانچہ صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کےسامنے (بطور نشانی) ایک بڑی اونٹنی پیش کی جو پہاڑ سے نکلی۔
ابراہیم علیہ السلام کو دہکتے ہوئے انگارہوں کے سپرد کر دیا گیا ، لیکن آگ سے ان کو کچھ نقصان نہ ہوا۔
موسی علیہ السلام کو (9) نو نشانیاں دی گئیں، آپ نے سمندر پر لاٹھی ماری، جس سے دریا پھٹ گیا اور پانی کا ہر ایک حصہ مثل بڑے پہاڑ کے ہوگیا۔ اور انہوں نے (جادوگروں کے سامنے) اپنی لاٹھی ڈالی تو وہ بڑے اژدہے میں تبدیل ہوگئی۔
داود اور سلیمان علیہما السلام کو پرندوں کی زبان([3]) کا علم دیا گیا اور انہیں ہر چیز سے نوازا گیا۔
عیسی علیہ السلام اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دیتے اور مُردوں کو زندہ کردیتے تھے۔وہ ماں کی گود میں ہی بول پڑے،اپنی ماں کی براءت بیان کی اور اپنے رب کی وحدانیت کا اعلان کیا۔
رسولوں کی صداقت وسچائی پر دلالت کرنے والی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ: وہ اچھے اخلاق وکردار کے حامل تھے، اللہ نے انہیں اور ان کے پیروکاروں کو اپنی نصرت ومدد اور حسن انجام سے نوازا، اور انہیں جھٹلانے والوں اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ہلاکت اور عذاب سے دوچار کیا ۔
اللہ تعالی نے ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیائے کرام سے زیادہ اور عظیم نشانیوں سے سرفراز کیا، شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "آپ کے معجزات کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے، متواتر خبروں ([4])کے ذریعہ دنیا میں جو علم بھی حاصل کیا جاتا ہے، اس سے کہیں زیادہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نشانیوں اور دین کے احکام وتعلیمات کا علم ظاہر اورروشن ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَىٰ بِاللَّه شَهِيدًا﴾"۔
ترجمہ:وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب کرے، اور اللہ تعالی مکمل گواہی دینے والا ہے۔
آپ کی نبوت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل ہی نبیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت دی، ابرہیم اور اسماعیل علیہما السلام نے فرمایا: ﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ﴾
ترجمہ:اے ہمارے رب! ان میں انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب وحکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے۔
عیسی علیہ السلام نے فرمایا: ﴿وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ﴾
ترجمہ: اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوش خبری سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک فرشتہ آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ چاک کیا اور اس میں سے شیطان کا حصہ نکال باہر کیا۔
اللہ تعالی نے بعثت سے قبل بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جاہلیت کے نا زیبا امور اور اس کی غلاظت سے محفوظ رکھا، چنانچہ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بے پردہ دیکھا گیا، نہ ہی آپ نے کسی بت کو ہاتھ لگایا ، نہ ہی کبھی شراب کو منہ لگایا اور نہ ہی کوئی حرام کاروبار کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو پیغام الہی آتا اس کی حفاظت کے لئے آسمان کی نگہبانی ان شعلوں کے ذریعہ بڑھا دی گئی جن سے شیطان کو مارا جاتا، جِنوں نے کہا: ﴿وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُباً﴾.
ترجمہ: اور ہم نے آسمان کو ٹٹول کر دیکھا تو اسے سخت چوکیداروں اور سخت شعلوں سے پُر پایا۔
کچھ نشانیاں ایسی بھی ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی تھیں اور آج تک باقی ہیں، جیسے قرآن مجید، علم اور ایمان جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں نے حاصل کیا۔
کچھ نشانیاں وہ بھی ہیں جن کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی طرف سے مطلع کردہ علم کی بنا پر دی، یعنی ماضی میں واقع ہونے والے بہت سے حوادث اور مستقبل میں پیش آنے والے غیبی امور کی خبر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حوادث وواقعات کی اتنی تفصیلی خبر دی کہ کسی بھی انسان کو اس کا علم اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب اسے اللہ تعالی با خبر کرے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَذَا﴾.
ترجمہ:یہ خبریں غیب کی خبروں میں سے ہیں جن کی وحی ہم آپ کی طرف کرتے ہیں انہیں اس سے پہلے آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماضی کے جو قصے ہمیں بتائے ان میں سے یہ بھی ہے: آدم کی خبر اور فرشتوں کی جانب سے آدم کا سجدہ، ابلیس اور اس کا کبر وغرور، انبیائے کرام کے قصوں کی عجیب وغریب تفصیلات، ہم سے ماقبل قوموں کا آپسی اختلاف، غار والوں اور ہاتھی والوں کا قصہ۔
اللہ نے تمام مخلوقات کویہ چیلنج دیا کہ وہ قرآن کی طرح کوئی ایک سورت ہی پیش کردیں، آپ نے یہ خبردی کہ قیامت تک کوئی انسان اس چیلنج کو قبول نہیں کرسکتا، چنانچہ کوئی ایسا نہ کرسکا، آپ نے کافروں کے بارے میں خبر دی –جبکہ آپ مکہ میں کمزور وناتواں تھے- : ﴿سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ﴾
ترجمہ:عنقریب یہ جماعت شکست دی جائے گی اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گی۔
چنانچہ بہت سالوں کے بعد اس کی تصدیق بھی ہوگئی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر سے پہلے مسلمانوں کو قریش کے سرداروں کی جائے قتل دکھائی، اور فرمایا:" یہ فلاں کے مرنے کی جگہ ہے"۔ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "آپ زمین پر اپنا ہاتھ رکھتے تھے (اور فرماتے تھے) یہاں اور یہاں۔ (انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: "ان میں سے کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کی جگہ سے (ذرہ برابر بھی) ادھر ادھر نہیں ہوا"(اسے مسلم نے روایت کیا ہے)، آپ خیبر کی طرف نکلے ، اللہ اکبر کہا اور فرمایا: "خیبر ویران وبرباد ہوا" چنانچہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر فتح عطا فرمائی۔(متفق علیہ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو رومیوں سے جنگ لڑنے کے لئے موتہ کی طرف روانہ فرمایا اور ابھی ان کی کوئی خبر بھی نہ آئی تھی کہ آپ نے ان میں سے شہید ہونے والوں کی شہادت کی خبر دے دی۔ (بخاری)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا کہ آپ کی زندگی میں ہی اہل فارس کو روم پر فتح ملے گی، اور جب کسری کا قاصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کا پیغام لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "میرے پروردگار نے تمہارے سردار کو آج رات قتل کردیا"۔(احمد)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تبوک کے راستہ ہی میں تھے کہ فرمایا: "آج رات تیز آندھی چلے گی، لہذا کوئی شخص کھڑا نہ ہو" (متفق علیہ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی موت کی آمد اور رفیق اعلی (اللہ تعالی) سے ملنے کی خبر بھی پہلے ہی دے دی، منبر پر بیٹھے اور ارشاد فرمایا: "اللہ تعالی نے ایک بندے کو اختیار دیا ہے کہ اگر وہ دنیا کی ظاہری رونق میں سے جو چاہے اللہ اسے وہ دے دے گا یا وہ نعمتیں پسند کرلے جو اللہ کے پاس ہیں تو اس نے ان نعمتوں کو پسند کیا جو اللہ کے پاس ہیں۔ یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا: ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں"۔(متفق علیہ)، اس واقعہ کے کچھ ہی دنوں بعد آپ اس دنیا سے کوچ کر گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ کی وفات کے سو سال بعد کوئی بھی صحابی اس روئے زمین پر زندہ نہ ہوگا (متفق علیہ) ، چنانچہ یہ تمام پیشین گوئیاں ایسے ہی واقع ہوئیں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی فتح کی خبر دی اور بتایا کہ اس کے بعد ایک طاعون رونما ہوگا جس سے کثیر تعداد میں مسلمانوں کی موت ہوگی ([5])۔اس کے بعد مال ودولت کی اتنی بہتات ہوگی کہ کوئی لینے والا نہ ہوگا، چنانچہ آپ کی یہ پیشین گوئی بھی واقع ہوئی، بیت المقدس کی فتح ہوئی اور شام میں طاعون رونما ہوا، یہ دونوں واقعات عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں واقع ہوئے۔اس کے بعد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوران مال ودولت کی اتنی بہتات تھی کہ کسی کو سو دینار دیے جاتے تو وہ لینے سے انکار کردیتا۔
آپ نے یہ بھی خبر دی کہ شہر کے شہر فتح کیے جائیں گے ، چنانچہ مدینہ کے باشندے خوش حالی اور فراخی کی چاہت میں مدینہ سے نکل کر ان شہروں میں جا بسیں گے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کاش انہیں معلوم ہوتا کہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے" (متفق علیہ)۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتایا کہ قیصر وکسری ہلاک ہوجائیں گے اور ان کے خزانے راہ الہی میں خرچ کیے جائیں گے، اور یہ کہ آپ کی امت کو دنیا کی فراخی حاصل ہوگی چنانچہ وہ دنیا حاصل کرنے کے لئے اپنے ماقبل قوموں کی طرح ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرے گی، اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اپنے ماقبل قوموں کی مشابہت اختیار کرے گی اور ان کے طریقوں کی پیروی کرے گی یہاں تک کہ اگر وہ سانڈے کی بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو وہ اس میں بھی داخل ہوگی۔ (متفق علیہ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے رونما ہونے والی نشانیوں کو واضح فرمایا: علم کم ہوجائے گا، جہالت کی کثرت ہوگی، فتنوں کا ظہور ہوگا،قتل وخوں ریزی عام ہوجائے گی، لوگ عمارت سازی میں ایک دوسرے پر فخر ومباہات کریں گے، آپ اپنے صحابہ کے سامنے کھڑے ہوئے اور انہیں قیامت تک پیش آنے والے واقعات سے با خبر کیا، حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے کھڑے ہوئے اور آپ نے کھڑے ہونے کے اس وقت سے لے کر قیامت تک ہونے والی کوئی (اہم) بات نہ چھوڑی مگر اسے بیان فرما دیا، جس نے اس (بیان) کو یاد رکھا اس نے اسے یاد رکھا اور جس نے اسے بھلا دیا اس نے اسے بھلا دیا" (متفق علیہ)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے ان مشاہدات کو بیان فرمایا جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان میں دیکھا تھا، اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روح اور جسم کے ساتھ مکہ سے مسجد اقصی تک راتوں رات سیر کرایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان کی طرف لے جایا گیا حتی کہ سدرۃ المنتہی تک پہنچ گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی رات مکہ لوٹ آئے، اور اپنے صحابہ کو جنت وجہنم اور جنتیوں وجہنمیوں اور سدرۃ المنتہی کے بارے میں بتایا، اور کائنات کی تدبیر لکھنے والے قلموں کی سرسراہٹ کو بھی بیان کیا جو آپ نے سنی تھی۔
اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید آیات کونیہ کے ذریعہ بھی کی جن کا مشاہدہ کیاگیا: چنانچہ اللہ تعالی نے آپ کے لئے بطور نشانی چاند کےٹکڑے کردئے یہاں تک کہ اس کے دو حصے ہوگئے جنہیں لوگوں نے مکہ اور دوسرے مقامات سے دیکھا۔
نبوی نشانیاں انسانوں میں بھی نمودار ہوئیں: چنانچہ حجۃ الوداع کے خطبہ میں اللہ تعالی نے لوگوں کے کان کو کھول دیا تھا یہاں تک کہ تمام موجود افراد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی، حالانکہ ان کی تعداد ایک لاکھ سے بھی متجاوز تھی (اسے ابو داود نے روایت کیا ہے)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انس رضی اللہ عنہ کو کثرت مال واولاد کی دعا دی، چنانچہ انہوں نے اپنی زندگی میں ایک سو بیس سے زیادہ صلبی اولاد کو دفن کیا (متفق علیہ)۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ان کی والدہ کے حق میں یہ دعا فرمائی کہ اللہ تعالی انہیں تمام مومنوں کی نظر میں محبوب بنادے، ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : "جس مومن نے بھی میرے بارے میں سنا گرچہ اس نے مجھے نہیں دیکھا، مجھے اپنا محبوب بنا لیا" (مسلم)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عروہ البارقی رضی اللہ عنہ کے لئے تجارت میں برکت کی دعا فرمائی، چنانچہ اگر وہ مٹی بھی فروخت کرتے تو اس میں بھی انہیں منافع ہوتے۔ (بخاری)
عبد اللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کا پاؤں ٹوٹ گیا تو آپ نے اس پر اپنا ہاتھ پھیر دیا جس سے ان کا پاؤں ٹھیک ہوگیا (بخاری)۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں شکایت تھی آپ نے ان میں اپنا لعاب دہن لگایا تو ایسے ٹھیک ہو گئے کہ گویا انہیں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیلیں چوپایوں میں بھی ظاہر ہوئیں: ایک دن نبی علیہ الصلاۃ والسلام ایک انصاری صحابی کے باغیچہ میں تشریف لے گئے جس میں ایک اونٹ تھا، جیسے ہی اونٹ کی نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی تو وہ رونے لگا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس پر اپنا دست شفقت پھیرا تو وہ چپ ہو گیا، پھر آپ نے اونٹ کے مالک سے فرمایا: "کیا تو اس جانور کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتا جس کا اس نے تجھ کو مالک بنایا ہے، اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تو اسے بھوکا رکھتا اور بہت تھکاتا ہے"۔(ابوداود)
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: "آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جنگلی جانور تھا، چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلتے تو وہ کھیلنے اور اچھل کود کرنے لگتا اور آگے پیچھے کرنے لگتا، جب وہ محسوس کرتا کہ آپ (گھر میں) داخل ہوچکے ہیں تو وہ بیٹھ جاتا، اور جب تک آپ گھر میں موجود رہتے تب تک نہ کوئی حرکت کرتا اور نہ ہی کوئی آواز نکالتا، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف نہ پہنچے" ۔(مسند احمد)
نبوت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماکولات ومشروبات کی مقدار بڑھانے کا (معجزہ ) عطا ہوا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صلح حدیبیہ کے موقع پر پندرہ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک ایک چھوٹے سے برتن میں رکھا تو آپ کی انگلیوں کے درمیان سے چشمے کی طرح بہت زیادہ پانی نکلنے لگا، تو ہم لوگ خوب سیراب ہوئے اور وضو بھی کیا، راوی سے دریافت کیا گیا: آپ کی تعداد کیا تھی؟ تو انہوں نے کہا: اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی ہمارے لیے کافی ہوتا، البتہ ہم پندرہ سو کی تعداد میں تھے"۔ (بخاری)
غزوہ ذات الرقاع میں ایک برتن میں تھوڑا سا پانی جمع کیا گیا، پھر اس سے پورے لشکر نے اپنے اپنے برتن بھر لئے۔
غزوہ خیبر میں کھانے کی قلت ہوگئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ لوگوں کے پاس جو کچھ موجود ہے اسے اکٹھا کریں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں برکت کی دعا فرمائی، پھر پوری فوج نے شکم سیر ہوکر کھانا تناول کیا۔یہ بھی پندرہ سو کی تعداد میں تھے۔
غزوہ تبوک میں آپ کے ساتھ تیس ہزار کے قریب افراد تھے جنہیں پانی کی ضرورت تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چشمہ سے وضو کیا تو اس سے بہت زیادہ پانی بہہ پڑا حتی کہ سبھی افراد سیراب ہوئے۔ (مسلم)
سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : "ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک بڑے برتن میں صبح سے شام تک کھاتے رہے، دس آدمی اٹھتے تھے اور دس بیٹھتے تھے۔ تو ہم نے (سمرۃ سے) کہا: تو اس پیالہ نما بڑے برتن میں کچھ بڑھایا نہیں جاتا تھا؟ انہوں نے کہا: تمہیں تعجب کس بات پر ہے؟ اس میں بڑھایا نہیں جاتا تھا مگر وہاں سے۔ اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی جانب اشارہ کیا " (ترمذی)
اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی نشانی کے طور پر درختوں اور پتھروں کو آپ کے تابع کردیا تھا: ایک وادی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ اترے، پھر آپ نے دو درختوں کو پکڑا اور وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے دونوں اکٹھے ہوگئے۔ (مسلم)
جب آپ مکہ میں تھے تو جنوں کی ایک جماعت آپ سے قرآن مجید سننے کے لئے اکٹھا ہوئی ، تو ایک درخت جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی موجودگی کی خبر دی۔ (متفق علیہ)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد میں کھجور کے ایک تنے کے سہارے خطبہ دیا کرتے تھے، پھر آپ کے لئے ایک منبر بنایا گیا، پھر جب آپ نے اس پر خطبہ دیا تو وہ تنا بچے کی طرح رونے لگا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا، تو وہ چپ ہوگیا۔ (بخاری)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مکہ کے اندر میں ایک پتھر کو جانتا ہوں جو بعثت سے قبل مجھ سے سلام کیا کرتا تھا، میں اسے ابھی بھی پہچانتا ہوں" (مسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کرام کے ساتھ احد پہاڑ پر چڑھے تو وہ لزرنے لگا، آپ نے اس پر مارا اور فرمایا: "اے احد! ٹھہر جاؤ" تو وہ ٹھہر گیا۔ (بخاری)
اللہ تعالی نے فرشتوں کے ذریعہ نبوت کی نشانی کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی تائید فرمائی جو آپ سے قبل کسی کی نہیں فرمائی۔ مکہ کے اندر پہاڑ کے فرشتہ نے کفار کو مکہ کے دو پہاڑوں کے درمیان پیس دینے کی اجازت طلب کی تو آپ نے کافروں کی (ہدایت کی امید میں) اسے ٹال دیا۔
ہجرت کے تعلق سے فرمان باری تعالی ہے: ﴿ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَا﴾
ترجمہ: دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرماکر ان لشکروں سے ان کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں۔
جنگ بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے افضل فرشتہ نے قتال کیا، غزوہ احد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبرئیل ومیکائیل علیہما السلام کے درمیان ہیں اور وہ دونوں آپ کی حفاظت کی خاطر زبردست قتال کر رہے ہیں (متفق علیہ)، جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خندق سے بنو قریظہ تک گئے۔ (بخاری)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی نشانی یہ بھی ہے کہ: اللہ تعالی نے نبوت کی حالت میں آپ کو دشمنوں سے محفوظ رکھا، اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾
ترجمہ: اور آپ کو اللہ تعالی لوگوں سے بچا لے گا۔
چنانچہ کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قابو نہیں پاسکے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی کثرت تعداد اور قوت وطاقت کے باوجود ان پر غالب رہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی یہودی نے جادو کردیا تو اللہ نے ان کے جادو پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غلبہ عطا کیا ([6])اور اسے بے کار ثابت کردیا، انہوں نے ہی بکری کے گوشت میں زہر ڈال کر (آپ کو کھلانے کی کوشش کی) تو اللہ نے اس سے بھی آپ کو باخبر کردیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبوت کی نشانی: آپ کا پاکیزہ اخلاق اور آپ کی مکمل خلقت بھی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امر (دین) کے غالب ہونے، مخلوق کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع وفرمانبردار ہونے اور ان کی جانب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جان ومال پر فوقیت دیے جانے کے باوجود جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ نے (اپنے ترکہ میں) کوئی درہم ودینار اور بکری واونٹ نہیں چھوڑا، لیکن ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خچر، ایک ہتھیار اور ایک زرہ تھا جو تیس صاع جَو کے عوض ایک یہودی کے یہاں گروی رکھا ہوا تھا جسے آپ نے اپنے اہل خانہ کے لئے خریدا تھا۔
اے مسلمانو!
جو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مہد سے لحد تک کی سیرت پر غور کرے گا اسے یہ یقین ہوجائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت میں اللہ کے رسول ہیں، وہ ایسا کلام لے کر آئے جیسا کلام نہ تو پہلےکے لوگوں نے سنا اور نہ ہی بعد کے لوگوں نے، وہ ہر لمحہ اپنی امت کو توحید کی دعوت دیتے تھے ، انہیں ہر قسم کی بھلائی کی طرف رہنمائی فرماتے تھے، اور ہرقسم کی برائی سے روکتے تھے اور اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عجیب وغریب نشانیاں ظاہر فرمائیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ مکمل دین لے کر آئے، (جس میں) تمام امتوں کی خوبیاں اور محاسن جمع ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہر ایک فضیلت میں تمام قوموں پر فائق ہوگئی، اس امت کو یہ تمام فضائل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے حاصل ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی انہوں نے یہ فضیلتیں سیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی انہیں اپنانے کا حکم دیا، چنانچہ یہ لوگ روئے زمین کے سب سے زیادہ جانکار، سب سے دیندار، سب سے زیادہ انصاف پسند اور سب سے زیادہ افضل قرار پائے۔
أعوذ باللَّه من الشيطان الرجيم
﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا﴾.
ترجمہ:آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں۔ ہاں میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے، تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہئے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو قرآن مجید کی برکت سے بہرہ ور فرمائے...
دوسرا خطبہ:
اللہ کی تمام تعریفیں ہیں اس کے احسانات پر، اور ہر طرح کا شکر ہے اس کی توفیق اور انعامات پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اس کی شان نرالی ہے، اور گواہی دیتا ہوں کی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، ان پر اور ان کے آل واصحاب پر اللہ کی بے شمار رحمتیں نازل ہوں۔
اے مسلمانو!
ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو نشانیاں اور صداقت وراست گوئی کے جو دلائل عطا کیے گئے، ان پر غور وفکر کرنےسے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے، آپ کے خیرہ چشم محاسن اور صاف وشفاف شریعت پر بکثرت غور کرنے سے رفعت وبلندی حاصل ہوتی ہے، اور اللہ کی معرفت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتی ہے۔
جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی سچائی اور اس رسالت کے روشن دلائل سے روشناس ہونا چاہتا ہو، اسے چاہئے کہ قرآن مجید کو بغور پڑھے۔
چونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی ضرورت، مخلوق کے لیے تمام چیزوں کی ضرورت سے بڑھ کر ہے، اس لئے اللہ نے ایسے دلائل میسر فرمائے جن کے ذریعہ نبیوں کی صداقت آشکار ہوتی ہے، نیز ان دلائل کو اتنی کثیر تعداد میں اور اتنا واضح اور نمایاں انداز میں ظاہر فرمایا کہ کوئی سرکش ہی ان پر ایمان لانے سے انکار کر ے گا اور کوئی متکبر ہی ان کی تصدیق کرنے میں تردد سے کام لے گا۔
ہر طرح کی خیر وبھلائی اس بات میں مضمر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر ثابت قدم رہا جائے۔
آپ یہ بھی جان رکھیں کہ اللہ نے آپ کو اپنے نبی پر درود وسلام بھیجنے کا حکم دیا ہے...
([1])یہ خطبہ جمعہ کے دن مورخہ ۲۱ ربیع الاول، سنہ ۱۴۴۳ھ کو مسجد نبوی میں دیا گیا۔
دلائل النبوۃ سے مراد ایسی حجت وبراہین اور دلیلیں ہیں جن سے انسان کو پتہ چلے کہ انبیا علیہم السلام اللہ تعالی کے رسول ہیں اور وہ جس بات کی خبر دیتے ہیں، اس میں وہ سچے ہیں۔
([2])فطرت سے مراد: اللہ کے وجود کا اقرار، اس کی معرفت، توحید اور اس کی بندگی ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کی سرشت میں پیوست کر رکھی ہے۔
([3])منطق الطير : پرندوں کی زبان ۔
([4])خبر متواتر: اسے کہتے ہیں جسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے ہی جیسے لوگوں سے ہر زمانے میں روایت کرے۔
([5])یفنی المسلمين: جس (طاعون) سے کثیر تعداد میں مسلمانوں کی موت ہوگی ۔
([6])یعنی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے باخبر کیا کہ آپ پر جادو کیا گیا ہے اور جادو کی جگہ بھی آپ کو بتائی گئی۔