الوصف
زیرمطالعہ کتاب میں حج وعمرہ کے موضوع کوزیربحث بنایا گیا ہے اوراس سلسلے میں بکثرت پوچھے جانے والے مسائل کا کتاب وسنت کی روشنی میں مختصر تشفی بخش جواب دیا گیا ہے۔ حج وعمرہ کے پیچیدہ مسائل کے جوابات کے سلسلے میں نہایت مفید ترتیب ہے ضرور مطالعہ فرمائیں۔
تالیف: فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن صالح الفوزان۔حفظہ اللہ۔
شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی ترجمہ:
مراجعہ:جمشید عالم عبد السلام سلفی
ناشر: دفتر تعاون برائے دعوت وارشاد وتوعیۃ الجالیات،ربوہ،ریاض
مملکتِ سعودی عرب
مسائل يكثر السؤال عنها في الحج: كتاب قيّم مترجم إلى اللغة الأردية يقول المصنف - حفظه الله –عنه:«ففي موسم الحج من كل عام تكثر أسئلة الناس عن أحكام الحج ومناسكه، سواء كان ذلك قبل الحج أو في أيامه، وقد تبين لي من خلال ذلك أن هناك مسائل يتكرر السؤال عنها، ومثلها في أحكام العمرة، مما يدل على شدة الحاجة إليها، وكان يتردد في ذهني بين حين وآخر أن أجمع شيئًا من هذه المسائل وأبين أحكامها، وشجعني على ذلك بعض الأخوة - أثابهم الله - فعزمت - متوكلاً على الله تعالى - وجمعت هذه المسائل بعد حج عام (1422 هـ) وأضفت إليها ما رأيت - حسب اجتهادي - أن الحاجة داعية إلى ذكره، كل ذلك بعبارة واضحة، مقرونة بالدليل معتمدًا على أظهر الأقوال فيما فيه خلاف».
الحمد لله وكفىٰ وسلامٌ على عباده الذين اصطفىٰ، أمابعد:
حج اسلام کے پانچ ارکانوں میں سے ایک اہم رکن ہے جو زندگی میں صاحبِ استطاعت پر ایک بار فرض ہے،اس کے بہت سارے فضائل ومناقب ہیں،ارشاد رسولﷺ ہے: ’’جس شخص نے بیت اللہ کا حج کیا اور فحش کام اور فسق وفجورسے پرہیز کیا تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک وصاف کردیا جاتا ہے جیسا کہ وہ اپنی پیدائش کے وقت تھا‘‘۔(بخاری ومسلم)۔
اوررسولﷺ کا فرمان ہے:’’ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ کرنا ان کے مابین گناہوں کا کفّارہ ہوتا ہے، اور حجِ مبرور(مقبول) کا صلہ جنّت کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘۔(بخاری ومسلم) ،لیکن شرط یہ ہے کہ حج کے تمام ارکان وواجبات اور سنن کو رسولﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق بجالایا جائے۔
اور چونکہ حج میں بہت سارے نئے مسائل پیش آتے رہتے ہیں ،جن کے بارے میں بارہا سوال کئے جاتے ہیں،جن کی معرفت رکھنا ایک حاجی شخص کے لئے ضروری ہے،تاکہ سنت کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کا حج وعمرہ ادا ہوسکے۔
زیر تبصرہ عربی کتاب(مسائل یکثر السؤال عنھا في الحج) ’’حج میں کثرت سے پوچھے جانے والے مسائل‘‘سعودی عرب کے مشہور عالم دین فضیلۃ الشیخ؍ عبد اللہ بن صالح الفوزان۔ حفظہ اللہ۔ کی تالیف ہے،جس میں حج وعمرہ کے بارے میں کثرت سے کیے جانے والے سوالات کا کتاب وسنت کی روشنی میں اختصار کے ساتھ تشفی بخش جواب دیا گیا ہے۔
اسلام ہاؤس ڈاٹ کام کے شعبہ ٔ ترجمہ وتالیف نے افادۂ عام کی خاطراسےاردو قالب میں ڈھالاہے،حتیٰ الامکان ترجمہ کو درست ومعیاری بنانے کی کوشش کی گئی ہے،اور مؤلّف کے مقصود کا خاص خیال رکھا گیا ہے،اور آسان عام فہم زبان اور شُستہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے تاکہ عام قارئین کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہو،مگرکمال صرف اللہ عزوجل کی ذات کا خاصہ ہے، لہذا کسی مقام پر اگر کوئی سَقم نظر آئے تو ازراہ کرم خاکسار کو مطلع فرمائیں تاکہ آئندہ اس کی اصلاح کی جاسکے۔
ربّ کریم سے دعا ہے کہ اس کتاب کو لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنائے،اس کے نفع کو عام کرے، والدین اور جملہ اساتذۂ کرام کے لئے مغفرت وسامانِ آخرت بنائے، اور کتاب کے مولّف، مترجم،مراجع ،ناشراور تمام معاونین کی خدمات کو قبول کرکے ان سب کے حق میں صدقۂ جاریہ بنائے۔آمین۔
وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہرقسم کی تعریفات صرف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہان کا پروردگارہے،اوردرود وسلام نازل ہو نبیوں اوررسولوں کے خاتم ،ہمارے نبی محمد بن عبد اللہ پر ،اوران کے خاندان، ان کے تمام اصحاب،نیز قیامت تک ان کے سچے متّبعین اور پیروکاروں پر۔
حمد وصلاۃ کے بعد: ہرسال موسمِ حج میں،حج اور اس کے مناسک کے بارے میں لوگوں کی طرف سے کثرت سے سوالات کئے جاتے ہیں،خواہ یہ حج سے پہلے کئے جاتے ہوں یا حج کے ایام میں۔ اس کے ذریعہ مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ حج اوراسی طرح عمرہ سے متعلق کچھ ایسےمسائل ہیں جن کے بارے میں باربار سوال ہوتا رہتا ہے، جواس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ان کی معرفت حاصل کرنا سخت ضروری ہے۔ اوروقتاً فوقتاً میرے دماغ میں یہ بات کھٹکتی رہتی تھی کہ ان مسائل میں سے کچھ کو جمع کروں اوران کے احکام کو واضح کروں،اوراس چیز پر مجھے بعض اخوان ۔اللہ انہیں اجر سے نوازے۔ نے حوصلہ افزائی فرمائی ،اورمیں نے اللہ پراعتماد کرتے ہوئے عزمِ مصمّم کیا ،اور ان مسائل کو میں نے 1422ھ میں حج کرنے کے بعد جمع کیا،اوراپنی اجتہاد کے مطابق جن چیزوں کے اضافے کی ضرورت تھی اس میں اضافہ کیا،اور(یہ) سب واضح عبارت میں،دلیل کے ساتھ ہیں اورمختلف فیہ مسائل میں سب سے زیادہ ظاہرقول پر اعتماد کیا گیا ہے۔
اوریہ مسائل ایسے ہیں جو اضافہ وزیادتی کے لائق ہیں،اور بسا اوقات (ان میں سے)جس کو لوگوں کی ضروریات سے موصوف کیا گیا ہے لوگوں کا نقطۂ نظر مختلف ہوتا رہتا ہے۔ اور میں اس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں نے حاجی کے تمام ضروری (سوالات) کو یکجا کردیا ہے ،لیکن یہ چند (سوالات) ہیں جو مجھےاس وقت میسّر ہوئیں۔
اور مناسکِ حج بھی شریعت کے دیگر احکام کے مطابق آسانی اورسہولت پرمبنی ہیں،بلکہ آسانی وسہولت مناسک حج میں واضح صفت ہے،لیکن اس کا یہ ہرگزمطلب نہیں کہ آدمی (استطاعت) کے باوجود مناسک کی ادایئگی میں تساہل سے کام لے،جوبسا اوقات اس کی یا اس میں سے بعض کی بگاڑ وخرابی کی حدتک پہنچ جاتی ہیں،اور جس کے نتیجے میں بعض لوگ ایسے لوگوں کی طرف رجوع کرنا شروع کردیتے ہیں جو من مانی فتویٰ دیتے ہیں۔
قبل اس کے کہ فقہی مسائل کا آغاز کیا جائے میں درج ذیل (ضروری) وصیتوں کو پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں ،امید کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے(لوگوں کو) فائدہ پہنچائے گا۔
اللہ تعالیٰ کے لئے عبادت کو خالص کرنا اس کے قبولیت کی شرط میں سے ہے،اس طرح کہ بندے کے تمام اعمال مثلاً نماز،دعا،طواف،سعی اوراس کے علاوہ دیگر اقوال،افعال اور انفاق صرف اللہ عزوجل کے لئے ہوں،اور ریاونمود سے پاک ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ انہیں اعمال کو قبول فرماتا ہے جو اس کے لیے خالص ہوں، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہئے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے‘‘[سورہ کہف:۱۱۰] اورفرمایا:’’انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ ابراہیم حنیف کے دین پر اور نماز کو قائم رکھیں اور زکوٰة دیتے رہیں یہی ہے دین سیدھی ملت کا‘‘ [سورہ بیّنہ:۵] اور جب بندہ اپنی تمام صورتوں میں اللہ رب العالمین کے تقرّب کی نیت کرے گا تویہ اس کی نیکیوں میں اضافے اور گناہوں کے کفّارے کا سبب بنے گا، جیسا کہ سنّت مبارکہ اس پر دلالت کرتی ہے۔
حج کا ارادہ کرنے والے کے لئے حج کے احکام اور اس کے ادائیگی کے طریقہ کی معرفت رکھنا ضروری ہے، چناں چہ اس کو احرام کا طریقہ،طواف کا طریقہ، سعی کا طریقہ، اوراسی طرح دیگر مناسک کے بارے میں علم رکھنا چاہئے،کیوں کہ عمل کی قبولیت کی شرط یہ ہے کہ: وہ عمل خالص رضائے الہی کے لئے ہو۔جیسا کہ گذرچکا۔ اور اس چیز کے موافق ہو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مشروع کیا ہے یا اپنے نبی ﷺ کی زبانی یعنی حدیث میں مشروع ٹھرایا ہے، لہذا حج کا ارادہ رکھنے والے کے لیے حج کے احکام کی معرفت وجانکاری کافی اہمیت کی حامل ہے، تاکہ بندۂ مومن بصیرت کے ساتھ اپنے ر ب کی عبادت کرسکے،اور نبیﷺ کی متابعت کو ثابت کرسکے،اور بے شک نبیﷺ کا فرمان ہے:’’مجھ سے اپنے حج کے مناسک سیکھ لو، اس لئے کہ میں نہیں جانتا کہ اس کے بعد حج کروں‘‘۔(صحیح مسلم: حدیث نمبر:۱۲۹۷)
اور اس کے سیکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اہل علم سے مناسک کی ادائیگی کے طریقہ کے بارے میں سوال کرے،یا اگروہ پڑھنے اور سمجھنے والا ہے تو اسے مناسک کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے،یا اسے ایسی جماعت کی مصاحبت اختیار کرنی چاہئے جس کے اندرکوئی طالب علم ہو جس سے وہ استفادہ کرسکے۔
اور لوگوں میں سے بعض حضرات عظیم شعائر کی ادائیگی جیسے طریقۂ احرام، طریقۂ طواف یا سعی یا ان کے علاوہ میں جو غلطی کرتے ہیں اسکے چند اسباب ہیں:
۱۔جہالت اور مناسک کے احکام کا علم نہ حاصل کرنا۔
۲۔معتبروباوثوق اور زہد وپرہیزگار علماء سے سوال نہ کرنا۔
۳۔علماء کو چھوڑکر جاہل لوگوں سے سوال کرنا۔
4۔لوگوں کا آپس میں ایک دوسرے کی تقلید کرنا۔
حالاں کہ مسلمان کے لئے اس چیز کی حرص رکھنا ضروری ہے جو اس کو واجبات دین میں سے اس پر عائد ذمے داری سے بری کردے،اور اپنے رب کی عبادت کے طریقہ کی جانکاری حاصل کرے، اوربندوں کے ساتھ تعامل کے طریقہ کو سیکھے، کیوں کہ اس علم (دین) کا سیکھنا ہرمسلمان مرد وعورت پر فرض عین ہے، تاکہ علم وبصیرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکے۔
مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ مناسکِ حج وعمرہ کی ادائیگی میں اپنے نبیﷺ کی اقتدا کرے، اور اسے اسی طرح ادا کرے جس طرح نبیﷺ کرتے تھے، کیوں کہ آپﷺ کا ارشادہے:’’مجھ سے اپنے حج کے مناسک سیکھ لو، اس لئے کہ میں نہیں جانتا کہ اس کے بعد حج کروں یا نہیں‘‘۔(اسے مسلم نے حدیث نمبر:۱۲۹۷ کے تحت ذکر کیا ہے، اور نسائی:( ۵؍۲۷۰ ) نے بایںالفاظ ذکر کیا ہے: ’’اے لوگو! اپنے حج کے طریقہ کو سیکھ لو، کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ میں اس سال کے بعد دوبارہ حج کرسکوں گا‘‘۔
اسی طرح حاجی کو انبدعات سے بچنا چاہئے جسے لوگوں نے حج سے ملا رکھا ہے اور اللہ تعالی ٰ کے دین میں جس کا کوئی دلیل وثبوت نہیں ہے۔
حاجی کو اس بات کی تاکید کی جاتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم کرے، اور مشاعرِمقدسہ کی فضیلت اور اس کی قدروقیمت کو محسوس کرے، تاکہ اپنے مناسک کو تعظیم واجلال ،محبت ومودت ا ور خشوع و خضوع الہی کے طور پرادا کرے، اوراس کی علامت یہ ہے کہ وہ حج کے شعائر کو سکون ووقار کے ساتھ ادا کرے، اور اپنے اقوال وافعال میں غوروفکر سے کام لے، اورجلد بازی سے بچے جس میں موجودہ زمانہ کے بہتیرے لوگ مبتلا ہیں، اور اطاعتِ الہی میں اپنے نفس کو صبر کا عادی بنائے، کیونکہ یہ قبولیت کے زیادہ قریب اور ثواب کے اعتبار سے بہت بڑھ کرہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولﷺ کا ارشاد ہے:’’ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ دونوں کے درمیان کےگناہوں کا کفارہ ہے، اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے‘‘ (بخاری:1683،ومسلم: 1349)۔
اور حجِ مبرور وہ ہے جس میں چار صفتیں پائی جائیں:
اوّل:اس کے اندر نفقہ و خرچہ، حلال اورپاکیزہ مال سے لگا ہو، ارشاد نبوی ﷺ ہے:’’بےشک اللہ تعالیٰ پاک ہے، اور صرف پاک چیز کو ہی قبول کرتا ہے…) (اسے مسلم نے حدیث نمبر:۱۰۱۵ کے تحت روایت کیا ہے)
دوم:معاصی ،گناہوں ، بدعات وخرافات اورخلاف ورزی کے کاموں سے دوری اختیار کرنا، کیونکہ یہ ساری چیزیں کسی بھی نیک عمل میں اثرانداز ہوسکتی ہیں ،اور بسا اوقات اس کے عدمِ قبولیت کا سبب ہوتی ہیں، تو حج کے اندر بطور اولیٰ اثر انداز ہوں گی۔
سوم: حج کے واجبات اورسنتوں کی محافظت کے بارے میں اجتہاد ومحنت سے کام لینا، اور اس سلسلے میں نبی اکرمﷺ کی اقتدا کرنا اور اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم کرنا ۔ جیسا کہ اس کا بیا ن گذرچکا۔
چہارم: اپنی اقامت گاہ اور سفر و سواری میں،اور دوسروں کے ساتھ تعامل میں اور اپنے تمام احوال میں تواضع وخاکساری، نرم خوئی اور حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کرنا،جس طرح نبیﷺ نے اپنے حج میں کیا تھا۔
اور امام ابن عبد البر ؒ نے(حجِ مبرور کی علامت کے بارے میں) کیا ہی بہترین فرمایا ہے: جیسا کہ ((التمہید:۲۲؍۳۹)) میں ہے:’’حجِ مبرور کے بارے میں کہا گیا ہے : ایسا حج جس میں ریا و نمود اوردکھلاوا نہ ہو، نہ کوئی شہوت اور فسق و فجور کا کام انجام دیا گیا ہو، اور وہ حج حلال مال سے کیا گیا ہو...‘‘۔
مسلمان کو چاہئے کہ اپنے اوقات سے فائدہ اٹھائے،اوراسے اطاعتِ الہی نماز،تلاوت،قرآن،ذکرواذکار، مفید کتابوں کا مطالعہ اورعلم کے پڑھنے پڑھانے میں استعمال کرے،اور یہ نیک ساتھی کے اختیار کرنے سے ہی ممکن ہوگا، کیونکہ حاجی شخص اپنے گھربار اور اہل و عیال کو محض اجر وثواب کے حصول کیلئےچھوڑتااور سفرکرتا ہے،اوراس بات کی امید کرتا ہے کہ جب وہ حج کے سفر سے واپس ہو تو اللہ کی طرف سے اس کے گناہ کو بخش دیا گیا ہو، لہذا اسے فاضل اوقات کو اماکنِ مقدّسہ میں استعمال کرنا چاہئے،اور غیرنفع بخش چیزوں میں اپنے اوقات کو ضائع کرنے سے بچناچاہئے،اور پوری زندگی معاصی وگناہوں کے کاموں سے اجتناب کرنا چاہئے،اور متبرک جگہوں نیز متشرف اوقات میں یہ ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے، اور یہ اس کے طاعت میں اثرانداز ہوتی ہے اور اس کے ثواب کو کم کردیتی ہے۔
اہلِ علم کے کلام میں بارہا حج کا ارادہ رکھنے والے شخص کے لئے تمام گناہوں سے توبہ کرنے،بندوں پر کئے جانے والے تمام مظالم سے بازآنے،حتیٰ الامکان قرض کو ادا کرنے کے بارے میں وصیّت ہوتی رہتی ہے، کیونکہ اسے یہ نہیں معلوم کہ اس کے سفر میں کیا پیش آنے والا ہے۔
جبکہ اس امرکا بہت سارے لوگوں کے یہاں کوئی اعتبار نہیں ،اس لئے آپ ان میں سے ایک شخص کو دیکھتے ہو کہ وہ حج کو جاتا ہے اورگناہوں میں ملوّث ولَت پَت ہوکر آتا ہے،اوراس کا وہ برابرارتکاب کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ فضیلت والے اوقات اورمقدس جگہوں میں بھی۔اس کےدل میں توبہ کا احساس نہیں ہوتا،اوراس کے دماغ میں گناہوں سے پچھتاوا اورترک کرنے کے بارے میں کوئی کھٹک نہیں پیدا ہوتا،اوریہ ایسا معاملہ ہےجس سے آگاہ ہوناچاہیے،لہذا اے میرے بھائی! تم کواللہ تعالیٰ کے درج ذیل قول میں غوروفکر کرنا چاہئے:’’حج میں نہ تو اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنا ہے، اور نہ ہی گناه اورلڑائی جھگڑا کرنا ہے‘‘۔[سورہ بقرہ:۱۹۷]
بے شک فضیلت والے اوقات میں توبہ کرنا کافی بلند شان رکھتا ہے، کیونکہ اکثرو بیشتر دل طاعات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ، اور بھلائی کی طرف راغب ہوتے ہیں،چناں چہ توبہ کے ذریعہ گناہ کا اعتراف اورگزرے ہوئے پر ندامت کا اظہار پایا جاتا ہے، ورنہ توبہ تو ہرزمانے میں فوری طور پر واجب ہے ،کیونکہ انسان کو یہ نہیں معلوم کہ اس کاموت کس پل ہوجائے،اور خاص طور سے وہ شخص جو سفر اورخطرات کا سامنا کرتا ہے، کیونکہ برائیاں برائیوں کو ہی لاتی ہیں۔ اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ ۔رحمۃ اللہ علیہ۔نے مجموع الفتاویٰ (34؍180) میں ذکر کیا ہے کہ:’’فضیلت والےایام اورجگہوں میں برائیاں سخت ہوجاتی ہیں، اوران کی سزائیں زمان ومکان کی قدر ومنزلت کے اعتبار سے ہوتی ہیں‘‘۔جہاں تک قرض ادا کرنے کی بات ہے تو اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ وجوبِ حج میں مشروط استطاعت سے مانع ہے، خواہ یہ قرض اللہ تعالیٰ سے متعلق ہو جیسے:نذریں،کفارات وغیرہ،یا آدمی کے ہوں جیسے قرض،اجرت،سامان کی قیمت وغیرہ۔ پس اگر قرض دار کے پاس اتنا مال ہے جو حج اور قرض ادا کرنے کے لئے کافی ہے تواس صورت میں حج کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس کو قرض کی ادائیگی میں جلدی کرنی چاہئے اگر اس قرض کا مطالبہ جلد ی ہو تاکہ اپنی ذمہ داری سے جلد عہدہ برآ ہوسکے، کیونکہ اسے یہ نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ کیا پیش ہونے والا ہے۔ اوراگر اس قرض کے ادائیگی میں تاخیر ہو تو وہ اپنے مال میں سے اتنا باقی رکھدے جو اس کے قرض کے ادا کیلئے کافی ہو، اوراس کی وصیت کرجائے۔ اسی طرح وہ شخص ہے جس کے اور لوگوں کے درمیان کوئی معاملات ہوں اور اس کے (دوسروں پر) حقوق ہوں اوراس پر(دوسروں کے) حقوق ہوں،تو اس کے لئے حج کرنا جائز ہے، لیکن اس کے لئے اپنے حق کو اوردوسرے کےجواس پر حق ہیں بیان کرنا ضروری ہے
لیکن اگرمال تھوڑا ہوجواس کے حج اورقرض ادا کرنے کے لئے کافی نہ ہو،توقرض کی ادائیگی مقدم ہوگی،اور ایسی صورت میں وہ غیر مستطیع قرار پائے گا، لہذا اللہ تعالیٰ کے اس قول کے عموم میں نہیں داخل ہوگا:’’اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جواس کی طرف راه پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا گیا ہے۔‘‘[سورہ حج: ۹۷] اس سلسلہ میں قرض خواہ سے اجازت طلب کرنا کافی نہ ہوگا،کیونکہ مقصود ذمہ داری سے براءت ہے، نہ کہ صاحب حق سے اجازت طلب کرنا، کیونکہ اگروہ اجازت دے بھی دے تو اس اجازت سے وہ اپنی ذمہ داری سے عہد ہ برآ نہیں ہوگا جب تک کہ وہ اس سے بری نہ کردے
حج کے چند عمومی آداب ہیں جن کا تعلق انسان کا خود اس کی ذات کے ساتھ ہے اور کچھ کا تعلق انسان کا اس کے غیرکے ساتھ ہے،ان میں سے چنداہم آداب درج ذیل ہیں:
۱۔سفرکے آداب کو ملحوظ رکھنا: مثال کے طور پر سواری کے وقت اور اہل و عیال ا ور دوستوں کو الوداع کہتے وقت،اور کسی بلندی سے نزول کے وقت دعا کرنا، اور بلندی پر چڑھتے وقت اللہ اکبر کہنا،اور کسی وادی میں نزول کے وقت سبحان اللہ کہنا، راستہ میں یا راستہ کے قریب نہ اترنا، گاڑی کے ساتھ مہربانی کرنا، او ر اس کے تمام حصے (پارٹس) کا جانچ کرنا ،تاکہ سواری کے لئے درست وصحیح سالم ہو اور منزل تک آسانی سے پہنچا جاسکے۔
۲۔صبرسے کام لینا اور نفس کو مشقت برداشت کرنے کا متحمل بنانا،لہذا لمبے راستے،یا گرمی،یا بھیڑیا قلّتِ طعام(خوراک) وغیرہ سے اکتاہٹ نہ محسوس کرے، کیونکہ حج میں مشقت ہوتا ہے، اور تھکاوٹ ہوتی ہے، گرچہ راستے ہموار ہوں اور تمام طرح کے مواصلات کے وسائل میسرہوں۔
۳۔اے میرے بھائی! تم امربالمعرو ف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو انجام دو، جاہل کو سکھاؤ،بھٹکے شخص کی رہنمائی کرو،بھلائی کے کام کے حریص بنو اور دوسروں کو حسب استطاعت نفع پہنچا ؤ۔
4۔امیر کی اطاعت کرو،اور اپنے ساتھی کی رائے سے ہٹ کر منفرد رائے کے تنفیذ پر مصرّ نہ رہو، اور اپنے ساتھی کی خدمت کرنا پسند کرو اور اسے آرام پہنچانے کے حریص رہو۔
۵۔قیل وقال ، بےہودہ بات اور باطل کلام سے اپنے زبان کی حفاظت کرو، زیادہ مزاح ودل لگی سے بچو،کیونکہ آپ کے اوقات بہت متبرک ہیں،اورآپ کے لمحات بہت قیمتی ہیں، لہذا اسے ان جیسی چیزوں کے ذریعہ سستا مت کرو۔
استطاعت رکھنے والےآباء اور اولیاء کے لئے مناسب ہے کہ اپنے ماتحت بیٹوں اور بیٹیوں کو حج کروائیں، نبیﷺ کے اس عام فرمان کی وجہ سے:’’تم میں سے ہرایک شخص نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال کیا جائے گا‘‘۔ (بخاری حدیث:۷۱۳۸،مسلم حدیث:۱۸۲۹)
اوریہ حج کرانا بیٹی کے حق میں اس کی شادی سے پہلے زیادہ موکّد ہوجاتا ہے ،کیونکہ شادی سے پہلے اس کا حج کرنا سہل وآسان ہے، برخلاف شادی کے بعد، کیونکہ وہ حمل وارضاع(دودھ پلانے) اور تربیتِ اولاد سے دوچارہوجاتی ہے، لہذا شادی سے پہلے اس کا حج کرنا نہایت ہی مناسب ہے۔
اورشوہر کے لئے اپنی بیوی کو اسلامی حج کرنے سے روکنا جائز نہیں ہے،کیونکہ یہ اصل شریعت سے واجب ہے،اور اگر شوہر قادر ہے تو اسےاپنی بیوی کے حج کے سلسلے میں جلدی کرنا چاہئے، اورخاص کر وہ شخص جو نئی شادی کے بندہن سے جڑا ہوا ہو، لہذا اس مشن (حج) کواس کے لیے آسان کرے اس کے ساتھ سفرکرکے،یا اس کے کسی بھائی کو اجازت دے کر،یا ان کےعلاوہ اس کے کسی ایسے محرم کو اجازت دے کر جو اس کو حج کرواسکے، اور خاوند کو چاہئے کہ اس کے اولاد کی حفاظت اور گھرکے رکھوالی کا کسی کو جانشین بنائے، کیونکہ وہ اس پر اجر سے نوازا جائے گا۔
فریضۂ حج کی ادائیگی میں مالی طور سے مستطیع اور جسمانی طور سے عاجز شخص کے لئے استنابت (کسی سے حج بدل کروانا)جائز ہے، جب کہ وہ کمزوری کی وجہ سےمکہ جانے کی قدرت نہ رکھتا ہو،یا اسے ایسامرض لاحق ہوجس سے شفایابی کی امید نہ ہو،یا بڑھاپے کی وجہ سے،اسی طرح وہ شخص بھی جو چلنے پر تو قادرہو لیکن بہت ہی مشقت سے۔
اسی طرح میّت کی طرف سے اس کے ترکہ سے حج کرنا واجب ہے،چاہے وہ اس کی وصیّت کرے یا نہ کرے، جب کہ وہ اپنی زندگی میں حج پر قادر تھا لیکن اس نے حج نہیں کیا،کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا اس پر قرض ہے، اور اللہ تعالیٰ کا قرض چکانے کے اعتبار سے زیادہ حق رکھتا ہے،جیسا کہ سنت سے ثابت ہے۔
رہا وہ شخص جوحج کی استطاعت سے پہلے ہی انتقال کرگیا ، توحج کی شروط نہ ثابت ہونے کی وجہ سے ایسا شخص گناہ گار نہ ہوگا، اور نہ ہی اس پر اللہ کا کوئی قرض ہے۔
اور یہ فریضہ حج کی بات ہے۔رہی بات حجِ نفل میں استنابت کی تو بعض اہل علم نے اس سے منع کیا ہے، کیونکہ حج عبادت ہے، اور عبادت میں اصل توقیفی ہے، اور شریعت میں نفلی حج کی استنابت کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے،اور علماء میں سے بعض نے حجِ فرض پر قیاس کرتے ہوئے اسے جائز قرار دیا ہے۔
اوردوسرے کی طرف سےحج کی نیابت کرنے والے کیلئے شرط یہ ہے کہ وہ اپنی طرف سےاسلامی حج کرچکا ہو۔اوریہ ضروری نہیں ہے کہ نائب کا حج کرنانائب بنانے والے کے شہر سے ہی ہو،بلکہ اگر وہ کسی کواہل مکہ سے نائب بنادے تو جائز ہوگا، اورعورت مرد کی طرف سے حج کرسکتی ہے اورمرد عورت کی طرف سے حج کرسکتا ہے۔
(اسی طرح) نیابت کرنے والے کے لئے مناسب نہیں کہ اس کا مقصد مال کمانا ہو، کیونکہ نیکی کے کاموں کے ذریعہ رزق حاصل کرنا صالحین کا شیوہ نہیں ہے،بلکہ اس کا مقصد اپنے بھائی کے ساتھ اس کو اس کی ذمہ داری سے عہد برآ کرکے احسان کرنا ہو،ساتھ ہی مشاعرکا مشاہدہ اور وہاں عبادت کرنا ہو، تو ایسا شخص محسِن ہے، اور اللہ تعالیٰ احسان وبھلائی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اور جو کچھ مال اسے دیا جائے وہ اسی کا ہوگا، لہذا اس کے لئے اس میں حسب منشا کھانے ،پینے اور سواری میں خرچ کرنا جائزہوگا، پس اگر اس میں سے کچھ بچ جاتا ہے تو وہ اسے لے سکتا ہے، اور اسی پر موجودہ زمانہ میں لوگوں کا عمل ہے،اور اس سلسلہ میں فقہاء کے ہاں لمبی تفصیلات ہیں جن کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
نسک کا طریقہ یہ ہے کہ وہ فلاں شخص کی طرف سے دل سے احرام کی نیت کرے، پھر’’لبیک عمرۃ عن فلان، یا لبیک حجا وعمرۃ ‘‘ ـمطلوبہ نسک کے اعتبار سے ـ کہے،اور جس کی طرف سے حج کررہا ہے اگراس کا نام بھول جائے تو کوئی نقصان نہیں ، بلکہ نیت ہی کافی ہوگی۔
اسی طرح حج کی نیابت کرنے والے پر واجب ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیارکرے، اور نسک کو مکمل طور سے کرنے کا حرص مند ہو، اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے، کیونکہ وہ اس پر امین ہے۔
احرام کہتے ہیں نسک (حج وعمرہ یا ان میں سے کسی ایک عبادت) میں داخل ہونے کی نیت کرنا، اس سے لباسِ احرام زیب تن کرنا مراد نہیں ہے، کیونکہ اس کا پہننا اس احرام کے لئے تیاری ہے جو بغیرنیت کے منعقد نہیں ہوتا۔
مرد کے لئے مستحب ہےکہ نبیﷺ کی اقتدا اور آپﷺ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے، ایک سفید وصاف ستھرا تہبند اورچادر میں احرام پہنے، جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے جس کو مسند احمد (8/500) وغیرہ نے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔
ازار کہتے ہیں: جو بدن کے نچلے حصّے کو ڈھانپ لے،اور کمرپر باندھا جائے۔ اور چادر کہتے ہیں: جوبدن کے اوپری حصّہ کو ڈھانپ لے اور دونوں کندھوں پر رکھا جائے۔
رہی بات مارکیٹ میں جو سلا ہوا تہبند نکلا ہے تو ظاہربات یہی ہے کہ اس کااستعمال جائز نہیں ہے، کیونکہ جب اسے سِل دیا گیا تو وہ ازارکی حد سے نکل گیا ،اوراس کے دواسباب ہیں:
اوّل: لغت کے اعتبار سے،جیسا کہ تاج العروس( ۳؍۱۱) میں آیا ہے کہ ازار وہ ہے جو سلا ہوا نہ ہو، اور اس کی تائید شاعرکے درج ذیل قول سے ہوتی ہے:
یہ ہرمیدان کارزار کے سپاہی ہیں، اور پاک طینت لنگوٹ باندھے ہوئے ہوتے ہیں۔
توازار وہ ہے جودونوں )حقوين[1])کمر پر باندھا جائے اور اسے سلا نہ جائے۔
دوم:حدیث جابررضی اللہ عنہ جس میں نبیﷺ کا فرمان ہے:(اگرلباس کشادہ ہے تواس کے دونوں کناروں کو مخالف کر کے کاندھے پر ڈال لو،اوراگر تنگ ہو تو اس کا ازار بنا لو۔(اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے)۔
توآپﷺ نے اس کو نماز کے لباس کی کیفیت کے بارے میں بتلایا،اور وہ یہ کہ اگر کپڑا کشادہ ہے تو اس سے سارے بدن کو ڈھکا جائے گا، اور اگر تنگ ہو تو صرف نچلےبدن کے ڈھانکنے پراکفتا کیا جائے گا۔اور معلوم رہے کہ اگر کپڑا سلا ہوا ہوتا تو ایسا ممکن نہ ہوتا، تو اس سے پتہ چلا کہ ازار نام ہے اس چیز کا جو نچلے بدن کے (حصہّ) کو ڈھانپ لے،نہ کہ سلا ہوا ہو۔
ابن عمررضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسولﷺ سے پوچھا گیا کہ محرم(حالتِ احرام میں) کون سا کپڑا پہنے، تو آپﷺ نے فرمایا:’’ نہ قمیص پہنو نہ پاجامے، نہ عمامے اور نہ برنس(ایک قسم کی ٹوپی ہے)،اور نہ موزے،لیکن اگر کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ کر پہن لے،اسی طرح کوئی ایسا لباس نہ پہنو جس میں زعفران یا ورس(ایک قسم کا پودا جو رنگائی کے کام میں لایا جاتا ہے) لگا ہو‘‘۔(بخاری: 1542) ،ومسلم : 1177) اورلفظ مسلم کے ہیں۔
یہ حدیث جوامع الکلم میں سے ہے، کیونکہ آپﷺ سے محرم کو پہنے جانے والے لباس کے بارے میں سوال کیا گیا ،توآپ نے اسکو نہ پہنے والے لباس کے بارے میں جواب دیا، تاکہ یہ واضح کردیں کہ ان مذکورہ لباس اور ان کے مشابہ لباس کے ماسوا تمام لباس محرم کے لئے پہننا درست وجائز ہیں، اور اس سلسلے میں چھ انواع (کی لباس ) کا تذکرہ کیا گیاہے:
۱۔قُمُص: قمیص کی جمع ہے، آستینوں والا لباس، اور اس کے ساتھ اس سے مشابہ :کوٹ،چغہ،اور بنڈی وغیرہ بھی شامل ہوگا۔
۲۔عمائم:جمع ہےعمامہ کی،وہ چیز جو سر پر لپیٹی جائے، اور اسی پر قیاس کرتے ہوئے ٹوپی اور جو اس کے معنیٰ میں ہے۔
۳۔سراویلات: جمع ہے سراویل کی، ایسے ازار کو کہتے ہیں جو آستین والا ہو،اور اسی پر جھنگیا( چھوٹے شلوار) کوقیاس کیا جائے گا،اور ازار (تہبند) نہ ہونے کی صورت میں شلوار کا پہننا جائز ہے، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ہے۔
4۔برانس:جمع برنس کی،ایسا کپڑا جو بدن وسرکو شامل ہو، اور اسی سے ملحق عباء (چغہ) ہے۔
۵۔خِفاف:جمع ہے خُف کی، چمڑے کا بنا ہواموزہ جو پاؤں پر اس کو ڈھکنے کے لئےپہنا جائے۔اور جوتے نہ ہونے کی شکل میں اس کا پہننا جائز ہے، اور دونوں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹنا ضروری نہیں ہے، کیونکہ کاٹنے کا حکم منسوخ ہوچکا ہے۔یہ مذکورہ اقسام مردوں کے ساتھ خاص ہیں۔
6۔زعفران یا ورس سے معطّر کپڑا، ورس ایک خوشبودار پودا ہے، جس کا رنگ سرخ ہوتاہے، اور انہی دونوں پر بقیہ خوشبو کے اقسام کو قیاس کیا جائے گا، اور یہ مرد وعورت دونوں پر حرام ہے۔ اوپر گذرے ہوئے تمام چیزوں کا ضابطہ یہ ہے کہ جو جسم کی مقدار یا اس کے کسی جزء یا اس کے اعضاء میں سے کسی عضو کے برابر سلا گیا کپڑا ہو تو اس کا پہننا ممنوع و حرام ہے۔
اور’’مخیط‘‘ کا لفظ کتبِ مناسک میں مشہور ہوگیا ہے ،حالانکہ اس کا ذکرسنّت میں نہیں آیا ہے،بلکہ یہ بعض تابعین([2]) کی زبان پر جاری ہوگیا یہاں تک کہ کتبِ فقہ میں بکثرت استعمال ہونے لگا، پس اکثر لوگوں نے یہ گمان کرلیاکہ اس سے مقصود ہر سلا ہو ا لباس ہے، اور یہ خیال کرنے لگے کہ بُنے ہوئے چادر کا استعمالاس کے چھوٹا ہونے،یا تنگ ہونے،یا سلا ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے،یا اس کے اندر شگاف پائے جانے کی وجہ سے،اسی طرح ان جوتوں اور بیلٹوں کو جن میں دھاگے ہوں ناجائز قرار دیا ہے جب کہ یہ درست نہیں ہے،بلکہ اس سے مراد وہ چیز ہے جو گذرچکی۔نہ کہ اس سے مراد وہ ہے جس میں دھاگا ہو، اور اگر فقہائے کرام جو کچھ سنّت میں وارد ہے اور اسی سے اس کے مشابہ چیزوں کو شامل کردیتے توبہت زیادہ واضح ہوتا اور وہم سے دورہوتا۔
احرام کی حالت میں عورت جو چاہے لباس پہنے، کسی (خاص )معین رنگ کی تقیید( قید) ضروری نہیں ہے،لیکن شرط یہ ہے کہ ایسے زینت کے لباس سے اجتناب کرے جو نظرکو متوجہ کرے، یا اس میں کوئی تشبہ (مشابہت)ہوجیسا کہ سفید لباس،البتہ دو چیزوں سے (اجتناب کرے گی) رکے گی:
اوّل: نقاب، وہ لباس جس میں دونوں آنکھوں کےلئے سوراخ کردیا جاتا ہے،لہذا اس کا پہننا جائز نہیں ہے۔
دوم: دستانہ،اور وہ انگلیوں والا غلاف ہے جس میں ہتھیلی کو داخل کیا جاتا ہے، اور یہ’’ شرّاب یدین‘‘ کے نام سے مشہور ہے، رسولﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے:’’محرم عورت نہ تو نقاب پہنے، اور نہ ہی دستانہ استعمال کرے‘‘ ( اسے بخاری نے حدیث نمبر: 1542 اورمسلم نے حدیث نمبر: 1177کے تحت ابن عمررضی اللہ عنہما کی حدیث سے ذکرکیا ہے، اور یہ بخاری کے الفاظ ہیں)۔
رہی بات بعض ان عورتوں کی جو نقاب لگاتی ہیں اور اس کے اوپر حجاب استعمال کرتی ہیں ،تاکہ راستہ نظر آئے ،تو ۔واللہ اعلم۔ ظاہر یہی ہے کہ نقاب سے ممانعت کی عمومی ممانعت اس کو بھی شامل ہوگی، کیونکہ پہننا پا یا جارہا ہے، پس اگر کہا جائے کہ کیا ضرورت کے وقت جائز نہیں،اور راستہ بھی ظاہر نہیں؟تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ:ممنوعات احرام میں سے جس چیز کو ضرورت کے تحت کیا جائے تو اس پر فدیہ ہے، اورچونکہ یہ غیر ظاہر ہے اس لئے ہوسکتا ہے حکم میں اثرانداز نہ ہو، جیسا کہ گذرچکا۔
اورمرد وعورت دونوں کے لئےاحرام کا لباس بدلنا،اوراس کو احرام کے بعد دھونا جائز ہے، اوربعض عورتوں کا یہ خیال کہ محرم عورت اپنے احرام کے کپڑے میں ہی باقی رہے گی، اس کا تبدیل کرنا اوردھونا جائز نہیں، توان تمام چیزوں کی کوئی اصل اوردلیل نہیں ہے،واللہ اعلم۔
ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے (المغنی:۵؍۸۲) میں اہل علم کا اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ حج کے تینوں قسموں میں سے جس سے بھی چاہے احرام باندھنا جائز ہے، البتہ اختلاف افضلیت کے بارے میں ہے۔
اور سب سے بہتر نسک ہدی (حج کے قربانی کا جانور ) نہ لے جانے والے کے حق میں حجِ تمتُّع کرنا ہے،وہ یہ کہ حج کے مہینے میں عمرہ کا احرام باندھے ،پھر اس سے حلال ہوجائے، پھر آٹھویں (ذی الحجہ) کو حج کا احرام باندھے۔
اور رہی بات ہدی کو لے جانے والے کی تو اس کے حق میں حجِ قران افضل ہے، وہ یہ کہ میقات سے عمرہ اورحج کا ایک ساتھ احرام باندھے،اور یہی نبیﷺ کا حج تھا، کیونکہ آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حج تمتُّع کرنے کا حکم دیا تھا، اور فرمایا:’’اگر میرے ساتھ ہدی(حج کے قربانی کا جانور) نہ ہوتا تو میں حلال ہوجاتا‘‘، اور ایک لفظ میں ہے:’’اگر میرے ساتھ (حج کے قربانی کا جانور ) نہ ہوتا تو میں تمہاری طرح حلال ہوجاتا‘‘۔(بخاری:1651-7367،مسلم:1216)۔ پس اگر قران کا احرام باندھے اوراس کے پاس ہدی نہ ہو تو جائز ہے، لیکن اس پر اہل علم کے دوقول میں سے ایک قول کے مطابق حج تمتُّع پر قیاس کرتے ہوئے ہدی لازم ہوگا، کیونکہ یہ اس کے معنیٰ میں داخل ہے۔
نیزحجِ تمتع اورقران کے حکم میں اہل مکہ اوران کے علاوہ آفاقی لوگوں کے درمیان کوئی فرق نہیں،البتہ اہل مکہ پرہدی نہیں ہے، کیونکہ ان اقوال میں سے ایک قول کے مطابق وہ مسجد حرام کے باشندے ہیں،اوروہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے قول میں اشارہ:’’یہ حکم ان کےلئے ہے جو مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں،لوگو! اللہ سےڈرتےرہواورجان لو کہ اللہ تعالیٰ سخت عذاب والاہے‘‘[سورہ بقرہ:196] ہدی اورصوم کی طرف لوٹتا ہے۔
اور جس نے صرف حج کا احرام باندھا یعنی مفرد،اسی طرح قارن جوہدی کو نہیں لے گیا، تو اس کے حق میں مستحب ہے کہ اپنے حج کو عمرہ میں تبدیل کردے، جیسا کہ امام احمد کا مذہب ہے،اور اہل علم کی ایک جماعت اس کے وجوب کی طرف گئی ہے، کیونکہ نبیﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو اسی بات کا حکم دیا تھا۔
اوراگروقت تنگ ہوجیسا کہ آدمی عرفہ کی صبح کواحرام باندھے تواحتمال ہے کہ ایسے شخص کو کہا جائے:اسے حجِ تمتع بنادے، اور احتمال ہے کہ اس سے کہا جائے:کہ وہ حج افراد کا احرام باندھے یا قران کا، اوریہی زیادہ ظاہرہے، کیونکہ تمتّع کی صورت اس کے حق میں غیرظاہر ہے،اللہ تعالیٰ کےاس قول کی وجہ سے:’’توجو شخص عمرے سے لے کر حج تک تمتع کرے‘‘[سورہ بقرہ:196]اسی بنیاد پر وہ اپنی نسک پرباقی رہے گا،اوراس کے لئے فسخ کرناجائز نہیں ،کیونکہ وقت کی تنگی ہے،اوراس لئے بھی کہ’’اِفراد‘‘حج کی تینوں قسموں میں سے ایک قسم ہے،خاص کرکے اس شخص کےحق میں جو مستقل سفر میں عمرہ کا احرام باندھے، واللہ تعالیٰ اعلم۔
حجِ تمتُّع کرنے والی عورت:جس عورت نے عمرہ کا احرام باندھا ہے اگر اسے طواف سے پہلے حیض آجائے اور اسے حج کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو اس طرح کہ یوم عرفہ سے پہلے پاک نہ ہو تو وہ حج کا احرام باندھے گی اور قارنہ ہوجائے گی، اسی طرح اس کے علاوہ جوبھی عورت حج کے فوت ہونے کا اندیشہ محسوس کرے تو وہ احرام باندھ کر قارنہ بن جائے گی ، جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا تھا۔
بہت سارے اہل علم نبیﷺ کی اقتدا کرتے ہوئے احرام سے پہلے دو رکعت نمازادا کرنا مستحب سمجھتے ہیں، کیونکہ آپﷺ نے حجۃ الوداع میں فرض نماز کے بعد احرام باندھا تھا،حالانکہ ۔واللہ اعلم۔ زیادہ ظاہر یہی ہے کہ اگر فریضہ کی ادائیگی کے وقت احرام کا وقت ہوجائے تو فرض کے بعد احرام باندھنا بہتر ہے، اسی طرح نفل نماز جس کا وہ عادی ہے جیسے :چاشت کی دور کعت تو اس کے بعد بھی باندھنا بہتر ہے،ورنہ احرام کی کوئی مخصوص نماز نہیں ہے، لہذا وہ بغیر نماز کے احرام باندھے گا، کیونکہ نبیﷺ سےاس سلسلہ میں کچھ بھی منقول نہیں ہے،لیکن جو شخص ذوالحلیفہ سے احرام باندھتا ہے اس کے لئے دو رکعت نماز پڑھنا مسنون ہے، جیسا کہ عمررضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ انہوں نے رسول ﷺ سے وادی عقیق میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ:’’میرے پاس رات کے وقت میرے رب کی طرف سے آنے والا ایک آیا اور کہا کہ :اس مبارک وادی میں نمازادا کرو،اور کہو:عمرہ حج میں داخل ہوگیا‘‘۔(صحیح بخاری:1534)۔
اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نماز اس جگہ کے ساتھ خاص تھی، اس مکان کی برکت کی وجہ سے،نہ کہ احرام کی وجہ سے۔ کیونکہ احتمال یہی ہے کہ وہ فرض نماز تھی، نہ کہ احرام کی دو رکعت، اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ نماز احرام کی وجہ سے تھی، لیکن یہ حکم دیگر میقاتوں پر ثابت نہیں ہوگا،واللہ اعلم۔
میل کچیل،اور چکناہٹ وغیرہ کو ختم کرنے کیلئے محرم شخص کیلئے صابن کا استعمال کرنا جائز ہے، کیونکہ یہ خوشبو نہیں کہلاتا، اور اس کا استعمال کرنے والا خوشبو کا استعمال کرنے والا نہیں ہوگا، اسی طرح اس کے لئے اپنے سر کو دھونے کیلئے جدید دور کا نئے تیار کردہ مادّے (جیسے شمپو وغیرہ) کا استعمال کرنا جائز ہے، اسی طرح فقہاء نے بذات خود اگنے والے خوشبودار پودا کےسونگھنے کو جائز قرار دیا ہے،جیسے شیح(ایک قسم کا گھاس جسے چوپائے کھاتے ہیں)،خُزامی(ایک خوشبودار پودا جس کے پھول اور شاخیں انتہائی خوشبودار ہوتی ہیں)وغیرہ کہ جس کا خوشبو نہ بنایا جاتا ہو، یا وہ پودا جسے آدمی خود اگائے، جیسے فارسی میں ریحان یعنی حَبَق(تیز خوشبودار نبات)، اور اسی کے مثل پودینہ کا سونگھنا وغیرہ ۔
رہی بات زعفران کی تو یہ خوشبو ہے، اسی لئے جبتک احرام کی حالت میں رہے تو کافی(coffee) وغیرہ میں ڈالنے سے احتیاط کرنا چاہئے، اور محرم کو اس کپڑے کے استعمال کے بارے میں ممانعت آئی ہے جس پر زعفران لگاہو،اسی طرح اس کے لئے الائچی اور لونگ کا کافی(coffee)میں استعمال کرنا درست ہے، کیونکہ یہ دونوں خوشبوکے مسمی میں داخل نہیں ہیں۔
اسی طرح محرم شخص کے لئے اپنے جسم میں تیل اور اسی طرح جدید دور کے تیار کردہ مادّے وغیرہ سے مالش کرنا جائزہے، البتہ سر میں استعمال کے بارے میں اختلاف مشہور ہے، لیکن اس کا ترک کرنا زیادہ بہتر ہے۔
اضطباع کہتے ہیں کہ چادر کے درمیانی حصہ کو دائیں بغل کے نیچے کرکے،اس کے دونوں کناروں کو بائیں کندھے پر ڈال دیا جائے،اور یہ طواف قدوم کی سنتوں میں سے ہے ۔طواف قدوم وہ طواف ہے جو مکہ آنے پر سب سے پہلے کیا جاتا ہے۔ اور اضطباع کی جگہ طواف کا ارادہ کرتے وقت ہے، نہ کہ جیسا کہ بہت سے احرام باندھنے والے شروع احرام سے لے کر احرام کھولنے تک کرتے رہتے ہیں، کیونکہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے،لہذا ضرورت ہے کہ خود بھی اس کا دھیان رکھیں اور دوسروں کو بھی اس کی تنبیہ کریں۔ ابن عابدین اپنے (حاشیہ:۲؍۵۱۲) میں فرماتے ہیں: ’’مسنون اضطباع طواف سے کچھ پہلے سے لے کر اس کے ختم کرنے تک ہے نہ کہ اس کے علاوہ (اوقات ) میں‘‘۔
جمہوراہل علم طواف میں طہارت کی شرط کی طرف گئے ہیں،ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کی وجہ سے جس میں نبیﷺ نے فرمایا: ’’کعبۃ اللہ کا طواف کرنا نمازہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس میں بات چیت کوجائزقراردیاہے‘‘۔ (سنن ترمذی:960،سنن دارمی:1؍374،صحیح ابن خزیمہ:4/222،حاکم:1/409،(2/267) اس حدیث کے مرفوع وموقوف ہونے میں علماء کا اختلاف ہے۔
اورعائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول کی وجہ سے:’’نبی ﷺ جب مکہ تشریف لائے تو سب سے پہلے وضو کیا ،پھر طواف کیا‘‘(بخاری:1536،مسلم:1235)،اور یہ اگرچہ فعل کے قبیل سے ہے، مگراس کے قائلین کے نزدیک یہ فعل اللہتعالیٰ کے درج ذیل قول کی وضاحت کرنے والا ہے:’’اور اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں‘‘[سورہ حج:29] اورنبیﷺ سے یہ منقول نہیں ہے کہ آپ نے طواف کے لئے طہارت کا حکم دیا ہے،اور نہ ہی حدث والے شخص کو طواف سے منع کیا ہے، لیکن آپﷺ نے پاکی کی حالت میں طواف کیا ہے، اور حائضہ کو طواف سے منع کیا ہے،اورحائضہ کے منع کرنے سےمُحدِث شخص کو منع کرنا مستلزم نہیں ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ طہارت کے ساتھ طواف کرنا زیادہ بہتر،زیادہ احتیاط اور ذمہ داری سے بری ہونا ہے، اور ساتھ ہی اس میں نبیﷺ کی اتباع پائی جاتی ہے، اور بے شک آپﷺ کا فرمان ہے:’’مجھ سے اپنے حج کے مناسک سیکھ لو‘‘۔ لیکن اگر دوران طواف اس کا وضو ٹوٹ جائے، خاص کر آخری چکّر میں اور حج کا ایام ہو جس میں سخت بھیڑ ہو، تو یہ کہنا کہ اس کے لئے ضروری ہے کہ جائے اور وضو کرکے طواف کو شروع کرے تو اس میں بہت مشقت ہے، اور جب معاملہ اس طرح ہے، اور کوئی واضح دلیل نہیں ہے تو لوگوں کو اس چیز کا لازم ٹہرانا محل نظر ہے، اورحج کے مناسک آسانی پر مبنی ہیں، واللہ اعلم
جب طواف کے دوران نماز قائم ہوجائے،یا جنازہ حاضرہوتو نمازپڑھنے کے بعد اسی جگہ سے طواف شروع کرے جہاں پر رُکا تھا،اورطواف منقطع کرنے سے پہلے کے بعض کیے گئے چکروں کو شمار کرے گا،اس کا حجر اسود سے (طواف) شروع کرنا ضروری نہیں ہے،اوریہی اہل علم کے دوقولوں میں سے راجح قول ہے،کیونکہ یہ ایسا انقطاع ہےجو معفو عنہ ہے، اوراس چکّر کےشروع کےباطل ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
لیکن جب طواف میں ہوا وغیرہ خارج ہونے کی وجہ سے اس کا وضو ٹوٹ جائے اورطہارت کے لئے جانے کا ارادہ کرے توجب واپس ہو تو ـاہل علم کے دوقولوں میں سے راجح قول کے مطابق نماز پر قیاس کرتے ہوئے نئے سرے سے اس کی ابتدا سےہی طواف کرے گا، اس لیے کہ طواف منجملہ نماز کے جنس سے ہے، جیسا کہ شیخ ابن باز ۔رحمہ اللہ ۔نےاس کا فتویٰ دیا ہے(فتاوی17/216)
بسا اوقات انسان اپنے ساتھ کسی محرِم بچے کو لاد کر طواف کرتا ہے تو سوار کرنے والے اور سوار ہونے والےشخص کی طرف سے طواف واقع ہوتا ہے، اور سوار کرنے والے شخص کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنا طواف مستقل طور پر کرے، کیونکہ ان میں سے ہر ایک نے صحیح نیت کے ساتھ طواف کیا ہے،اور ان پر بیت اللہ کا طواف کرنا صادق آتا ہے، اور اگر بچہ تمییز رکھتا ہے تو وہ خود طواف کی نیت کرے، اور اگر وہ غیر ممیّز ہے تو اس کا ولی اس کی طرف سے نیت کرے،اور یہی راجح ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔اور اس کی تائید ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں خثعمیہ عورت کے قصہ کا ذکر ہے،اور اس کے اندر اس بات کا تذکرہ ہے کہ: ایک عورت نے اپنے بچہ کو اٹھاکر کہا: کیا اس کی طرف سے حج ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا:’’ہاں،اور اس کا ثواب تم کو ہے (یعنی ماں باپ کو)‘‘۔( صحیح مسلم:1336)
وجہ دلالت یہ ہے کہ: نبیﷺ نے عورت کو بچہ کے حج کے صحیح ہونے کی خبردی، اور اسے مستقل طور سے طواف کرنے کا حکم نہیں دیا،جبکہ یہ مقام ،مقامِ بیان تھا اور وقتِ حاجت سے بیان کو مؤخّر کرنا جائز نہیں ہے، تو جب آپﷺ نے اسے (مستقل طور پر طواف کا) حکم نہیں دیا تو یہ چیز اس بات پر دال ہے کہ اس عورت کا اس کو سوار کرکے اس کے ساتھ طواف کرنا جائز ہے،اور ان دونوں سے ایک ساتھ طواف کافی ہوگا۔
اور بعض علماء اس بات کی طرف گئے ہیں کہ جب بچہ تمییز نہ رکھتا ہو تو اس کے سرپرست کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اپنا طواف کرے پھر بچہ کی طرف سے طواف کرے،یا اس کو کسی معتمد آدمی کے سپرد کردے جواس کے ساتھ طواف کرے، کیونکہ بچہ کی طرف سے کوئی نیت اور عمل نہیں پایا گیا، بلکہ نیت اس کے لادنے والے کی طرف سے پایا گیا،اور ایک شخص کا عمل دونیّتوں سے دوشخصوں کے لئے کرنا صحیح نہیں ہے، اور اس حکم میں سعی کا حکم بھی طواف کے مانند اسی تفصیل کے مطابق ہوگا۔
اسی طرح اگر کوئی گاڑی کو چلائے(ڈھکیلے) جس پر بچہ ،یا بوڑھا،یا بیمار شخص سوار ہو تو وہ(طواف) اس سوار کی طرف سے اور گاڑی کو چلانے والے کی طرف سے کافی ہوگا۔ واللہ اعلم۔
مسجد حرام کا تحیہ دیگرمساجد کی طرح عمومی دلائل کی وجہ سے دو رکعت نماز ہے ،اور یہ اس شخص کے حق میں ہےجو نمازکی انتظار ،یا کسی ساتھی وغیرہ کے انتظار کے لئے داخل ہوا ۔
لیکن جو شخص طواف کی غرض سے داخل ہوا، خواہ حج کا ہویاعمرہ کا یا نفلی طواف ہو،تو ایسا شخص طواف سے شروع کرے، اور یہی طواف کرنا اس کے حق میں تحیۃ المسجد ہوگا، اس کے لئے درست نہیں ہے کہ وہ پہلے دو رکعت نماز پڑھے پھر طواف کرے۔جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں۔کیونکہ یہ سنت کے خلاف ہے، اس لئے کہ جب نبی ﷺمسجد حرام میں داخل ہوئے تو طواف سے شروع کیا ،جیسا کہ جابر رضی اللہ عنہ وغیرہ کی حدیث میں ہے، کیونکہ مقصود عبادت کی جگہ کو عبادت سے شروع کرنا ہے، اور طواف کی عبادت اس مقصود کو حاصل کردیتی ہے۔
نبیﷺ کی اقتدا کرتے ہوئے سنّت یہ ہے کہ طواف کو سعی پر مقدّم کیا جائے، چاہے حج میں ہو یا عمرہ میں،بلکہ جمہور اہل علم کا کہنا ہے کہ:سعی کا طواف پر مقدم کرنا جائز نہیں ہے، لہذا جو اسے مقدم کرے گا اسکو طواف کے بعد دوبارہ سعی کرنا ہوگا۔
اس سلسلے میں ان کی دلیل نبیﷺ کا فرمان:’’تم مجھ سے اپنے حج کے طریقہ کو سیکھ لو‘‘ہے،اور اسی بات کو ایک مسلمان کو اپنانا چاہئے، لیکن اگرکوئی شخص جہالت یا بھول کر طواف سے پہلے سعی کرلے، تو ان شاء اللہ اس کا سعی کرنا درست ہوگا، اور اس کو طواف کے بعد دوبارہ سعی کرنا ضروری نہ ہوگا، اور قدیم وجدید دورسے بعض اہل علم اسی کے قائل ہیں، لیکن بعض نے اس کو بھول سے مقیّد کیا ہے نہ کہ جان بوجھ کر ، اور بعض نے مطلق کہا ہے،اور کوئی تقیید نہیں کی ہے۔
اور اس سلسلہ میں اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے:کہتے ہیں کہ: میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حج کے لیے نکلا، لوگ آپ کے پاس آتے تھے جب کوئی کہتا: اے اللہ کے رسول! میں نے طواف سے پہلے سعی کر لی یا میں نے ایک چیز کو مقدم کر دیا یا مؤخر کر دیا تو آپ ﷺ فرماتے:’’کوئی حرج نہیں، کوئی حرج نہیں، حرج صرف اس پر ہے جس نے کسی مسلمان کی جان یا عزت و آبرو پامال کی اور وہ ظلم کرنے والا ہو، ایسا ہی شخص ہے جو حرج میں پڑ گیا اور ہلاک ہوا‘‘۔(سنن ابوداود:۲۰۱۵)،اس کی سند صحیح ہے،جیساکہ شیخ ابن باز اور علامہ البانی رحمہما اللہ نے اسے صحیح قراردیا ہے۔اور (اقترض)کے معنی اقتطع کے ہیں،اور اس سے مراد: عزّت وآبرو پامال کرنا ہے۔
اوریہ عام ہے عمرہ کی سعی میں اور حج کی سعی میں، لیکن بعض ائمہ نے لفظ(سعیتُ قبلَ أَنْ أطوفَ) کے لفظ پر طعن کیا ہے، جیسا کہ حافظ بیہقی رحمہ اللہ نے (سنن کبریٰ: 5/146)میں کہا ہے کہ:یہ لفظ (سعیتُ قبلَ أَنْ أطوفَ)غریب ہے،جریر اس لفظ کے ساتھ شیبانی سے تفرّداختیار کئے ہیں، پس اگر محفوظ ہے تو گویا انہوں نے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا تھا جس نے طواف قدوم کے بعدطواف افاضہ سے قبل سعی کیاتھا،تو فرمایا:’’کوئی حرج نہیں‘‘،واللہ اعلم)۔اوراس سلسلہ میں ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد:(۲؍۲۵۹) میں امام بیہقی کی متابعت کرتے ہوئے فرمایا ہے:’’آپﷺ کا فرمان:(سعیتُ قبلَ أَنْ أطوفَ)اس حدیث میں محفوظ نہیں ہے،بلکہ محفوظ:’’رمی اورقربانی اورحلق میں سے بعض کا بعض پر مقدم ہونا ہے‘‘۔
اسی لئے احوط ومحفوظ طریقہ یہی ہے کہ سعی کو مقدم نہ کیا جائے،لیکن جس نے جہالت یا بھول کر اس کو پہلے کرلیا پھر طواف کیا تو امید ہے کہ یہ اس سے کافی ہوگا،اوراگراپنے لئے احتیاط کا دامن اختیار کرے اورعلماء کے اختلافات سے نکل کر طواف کے بعد دوبارہ سعی کرلے تو یہ زیادہ کامل اوربہتر ہے، کیونکہ حدیث جیسا کہ آپ نے دیکھا متکلم فیہ ہے، اورعلم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔
جمہور اہل علم اس بات کی طرف گئے ہیں کہ دن کے وقت عرفہ میں وقوف کرنے والے کیلئے غروب شمس تک عرفہ میں باقی رہنا حج کے واجبات میں سے ایک واجب ہے،لہذا جوشخص غروب سے پہلے نکلے گاتو وہ واجب کو ترک کرنے والا ہوگا،اور اس کا حج صحیح ہوگا۔ اور واجب دن اور رات کے کچھ حصّہ کو جمع کرنے کا نام ہے،اور یہ درج ذیل اسباب کی بنا پر ہے:
۱۔نبیﷺ نے اسی طرح (دن ورات کا کچھ حصہ ) وقوف فرمایا ہے، اور فرمایا: ’’تم مجھ سے اپنے مناسک(طریقۂ حج) کو سیکھ لو‘‘،اور چونکہ رسولﷺ عرفہ میں غروب کے بعد تک ٹہرے پھر وہاں سے کوچ کئے،اس سے اس کے وجوب کی دلیل کا پتہ چلتا ہے، کیونکہ دن کے وقت کوچ کرنا زیادہ آسان تھا، خاص کر اس زمانہ میں جب لوگ اونٹ سے اور پیدل چلا کرتے تھے، اس کے باوجود غروب کے بعد ہی (عرفہ سے) کوچ کئے۔
۲۔رسولﷺ عرفہ سے مغرب کی نمازادا کئے بغیر نکلے،حالانکہ مغرب کا وقت داخل ہوچکا تھا،پس اگرغروب سے پہلے(عرفہ سے) نکلنا جائز ہوتا توآپﷺ(پہلے ہی)روانہ ہوتے، اور مغرب کی نمازمزدلفہ میں جاکراس کے اوّل وقت میں ادا کرتے([3])۔
اور عروہ بن مضرِِّس کی حدیث میں آیا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:جو ہمارے ساتھ اس نماز فجر میں حاضر رہا،اور ہمارے ساتھ (مزدلفہ سے روانہ ہونے تک) وہاں باقی رہا،اور اس سے پہلے رات یا دن کو عرفہ میں ٹھہر چکا ہو تو اس کا حج پورا ہو گیا، اوراس نے اپنا میل کچیل دور کر لیا‘‘۔
(ابوداود:۱۹۵۰، نسائی:۵؍۲۶۳،ترمذی: ۸۹۱،ابن ماجہ:۳۰۱۶
،احمد:۲۶؍۱۴۲،اور ترمذی نے فرمایا: کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے)۔
اس سے وہ لوگ دلیل پکڑتے ہیں جو عرفہ سے غروبِ شمس سے پہلے نکلنے کو جائز قرار دیتے ہیں ،کیونکہ آپﷺ کا فرمان (أو نهاراً)یا دن کے حصہ میں وقوف کیا ہواس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو شخص دن کو وقوف کرے اور غروب سے پہلے نکل جائے تو اس کا حج پورا ہوگا، اور لفظ تمام کی تعبیر سے ظاہری طور پر(غروبِ شمس سے پہلے نکلنے) کے جواز کا پتہ چلتا ہے، اوراسے کوئی دمِ نقصان نہیں دینا ہوگا، اور یہ استدلال واضح ہے، لیکن یہ نبیﷺکےفعل اور آپﷺ کے بعد آپﷺکے نیک خلفاء کے فعل سے متصادم ہے، کیونکہ وہ لوگ غروب شمس کے بعد ہی عرفہ سے کوچ کئے تھے، تواس سے مطلق حدیث کی تقیید ہوگئی۔
سنّت سے اس بات کی دلیل ملتی ہے کمزورعورتوں،بچوں اور ان کے ہمراہ لوگوں کا چاند کے غائب ہونے کے بعد مزدلفہ سے منیٰ کی طرف واپس ہوناجائزہے، جیسا کہ ابن عباس، ابن عمر اور اسماء رضی اللہ عنہم کی حدیث میں ہے، جو کہ صحیحین میں ہے، اسی طرح دیگر حدیثیں بھی ہیں۔
لہذا جب وہ لوگ منیٰ آئیں تو جمرۂ عقبیٰ کو کنکری مارَیں ،اور حلق کریں اور بیت اللہ کا طواف کریں۔
رہی بات طاقت ورلوگوں کی تو طلوع شمس سے پہلے ان کا کنکری مارنا جائز نہیں،کیونکہ طلوعِ شمس سے پہلے کنکری مارنے کی وارد تمام حدیثیں کمزوروں کے سلسلے میں ہیں، ان میں سے کوئی بھی طاقتور مردوں کے بارے میں نہیں ہے۔
لیکن جو شخص کمزوروں کے ماتحت ہے تواس کا بھی انہیں جیسا حکم ہے،جیسا کہ ظاہری دلیلوں سے پتہ چلتا ہے۔اوررہی بات ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث جس میں وہ کہتے ہیں کہ: ہم سے نبیﷺ نے فرمایا:’’جمرہ کی رمی مت کرو یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے۔ اسے احمد اوراصحابِ سنن نے روایت کیا ہے، تو اس کی سند ضعیف ہے،اوراسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب (التاریخ الصغیرص:۱۳۵) میں ضعیف قرار دیا ہے،اور اگراسے صحیح بھی مان لیا جائے ۔جیسا کہ امام ترمذی اور ابن حبان رحمہما اللہ کا خیال ہے۔ تو یہ مندوب و مستحب ہونے پر محمول ہوگا، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب (فتح الباری :۳؍۵۲۹) میں اس سے باخبر کیا ہے،واللہ اعلم۔
اور دلیلوں سے مستفاد یہ آسانی اس زمانہ کے لحاظ سے بہت مناسب ہے،اس لیے کہ تابع شخص جب کمزوروں کے ساتھ جاتا ہے جیسے: عورتوں کو جمرۂ عقبہ لے کرجاتا ہے اور وہ کنکری مارتی ہیں ،اور پھر وہ اپنی کنکری نہیں مارتا ،اسی طرح انہیں طواف کرانے کیلئے بیت اللہ جائے تو وہ بذات خود کب کنکری مارے گا؟اور پھرآخری رات میں عورتوں کو سخت ازدحام میں رمی کروانے پراس کا کیا حال ہوگا؟اورپھر طلوع شمس کے بعد ازدحام میں جاکر اپنی طرف سے رمی کرنے پر اس کاکیا حال ہوگا؟۔
یوم نحر کو کئے جانے والے چار اعمال ہیں: ۱۔جمرۂ عقبہ کو کنکری مارنا،۲۔ہدی(حج کی قربانی) کرنا۔اوریہ اس شخص کے لیے ہے جو حج تمتع یا حج قران کا احرام باندھا ہو۔۳۔حلق کرانا(بال منڈوانا) (یا تقصیر کروانا ) 4۔طواف افاضہ(زیارہ) کرنا۔ اورتحلّل اوّل کےسلسلہ میں زیادہ ظاہر یہی ہے کہ یہ : رمی اور حلق کے ذریعہ حاصل ہوجاتا ہے،اورتحلّل میں ہدی کا کوئی اثر نہیں ہوتا، لیکن قارن شخص کے لئے زیادہ بہتر ہے کہ وہ نبیﷺ کی اقتدا کرتے ہوئے قربانی کرنے تک حلال نہ ہو۔
اورحاجی کے لئے بہتر ہے کہ ان اعمال کو ترتیب سے انجام دے، جیسا کہ نبیﷺ نے کیا تھا اس طرح کہ آپﷺ نے سب سے پہلے رمی کیا،پھرقربانی دی، پھرحلق کروایا، پھربیت اللہ طواف کیا تھا۔ اور ان میں سے بعض کو بعض پرجان بوجھ کر مقدّم نہ کرے، الّایہ کہ وہ بھول گیا ہو یا نہ جانتا ہو، ـجیسا کہ سنت سے اس کی دلیل ملتی ہے اور یہ محل اجماع ہےـ رہی بات عامد(جان بوجھ کر کرنے والے )کی تو یہ اہل علم کے ہاں اختلافی مسئلہ ہے، اسی لئے مکلف کے لئے زیادہ احوط و بہتر یہی ہےکہ وہ جب بغیر کسی مشقت کے ترتیب پر قادر ہوتو کسی چیزکو جان بوجھ کر مقدّم نہ کرے،بلکہ اسےنبیﷺ کی اقتدا کرتے ہوئے،اورعلماء کےاختلافات سے باہرنکل کر ترتیب سے کرنا چاہئے۔ اگرچہ میرا میلان اس بات کی طرف ہے کہ یہ حکم عام ہے ،اس میں جاہل اور غیرجاہل سب شامل ہیں، لیکن لوگوں میں سےکچھ لوگ نبیﷺ کی ترتیب کی معمولی سبب یا بلاسبب کے مخالفت کرتے ہیں، اوریہ ان کے لئے زیب نہیں دیتا،اس لئے کہ ترتیب ہی اصل ہے، کیونکہ آپﷺ نے مناسک (حج وعمرہ) کو امّت کے سامنے کیا ،اور فرمایا:’’(لوگو!) تم مجھ سے طریقۂ حج سیکھ لو‘‘۔
جمہوراہل علم اس بات کی طرف گئے ہیں کہ ہدی کی قربانی حرم (مکہ،یامنیٰ،یامزدلفہ) میں ضروری ہے،چاہے نفلی ہدی ہو،یا ہدی تمتع ہو،یا قران ہو،اللہ تعالیٰ کےاس فرمان کی وجہ سے:’’پھران کے حلال ہونے کی جگہ بیتِ عتیق(خانہ کعبہ) ہے‘‘۔[سورہ حج:۳۳]،اوراس سے مراد پوراحرم ہے، جیسا کہ مفسرین کرام نے بیان کیا ہے۔اور نبی ﷺ کا فرمان ہے:’’میں نے تویہاں(منیٰ) میں نحر کیاہےاور پورا منیٰ قربان گاہ ہے‘‘۔
اسے امام مسلم :جابررضی اللہ عنہما کی حدیث(نمبر:149، ۱۲۱۸)کے تحت لائےہیں،اورابوداود(۱۹۳۷)،ابن ماجہ (3048)، اوراحمد (۲۲؍۳۸۱)کے یہاں یہ لفظ آیا ہے:’’مکہ کے تمام راستے چلنے کی جگہیں ہیں اورہرجگہ نحردرست ہے۔اور بیہقی (۵؍۲۳۹) نے عطاء کے طریق سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے:’’اونٹ کےنحر کرنے کی جگہ مکہ ہے،لیکن یہ خون سے پاک کردیا گیا ہے،اور منیٰ مکہ سے ہے‘‘۔اوراس کی سند صحیح ہے۔اسی بنیاد پرعرفہ یا اس کےعلاوہ حِل میں ہدی کی قربانی کرنا جائز نہیں ،کیونکہ حدود حرم سے باہر ہے،اس لئے اہل علم کی مشہور قول کے مطابق کفایت نہیں کرے گا، لیکن بعض لوگ اس سے غافل ہوتے ہیں ،اس لئے اس سے متنبّہ ہونا چاہیے۔
رہی بات کسی محظور وممنوع کام کے ارتکاب جیسے:سرمنڈوانے پر ہدی کرنا تواسے ممنوعہ کام کی جگہ پر کرنا جائز ہے،اور حرم میں بھی جائز ہے،اس لئے کہ جو چیزحل میں جائز ہے وہ حرم میں بھی جائز ہے سوائے شکار کے ،کیونکہ اس کا حرم میں ہونا ضروری ہے،اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے:’’اور جو شخص تم میں سے اس کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس پر فدیہ واجب ہوگا جو کہ مساوی ہوگا اس جانور کے جس کو اس نے قتل کیا ہے جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر شخص کردیں خواه وه فدیہ خاص چوپایوں میں سے ہو جو نیاز کے طور پر کعبہ تک پہنچایا جائے‘‘۔[سورہ مائدہ:۹۵]
اور رہا ہدی احصار(بیت اللہ تک پہنچنے سے رکاوٹ ہونے پر) تو اس کو احصار کی جگہ ہی ذبح کرے گا، اللہ تعالی ٰ کے اس فرمان کی وجہ سے:فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ [البقرة/196] ’’ہاں اگر تم روک لئے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو، اسے کرڈالو‘‘۔[سورہ بقرہ:۱۹۶] لیکن اگر اسے حرم کے مسکینوں تک پہنچانا چاہے تو جیسا کہ گذرچکا اس میں کوئی حرج نہیں ہے، واللہ اعلم۔
ہدی کے گوشت کو حدود حرم کے اندر تقسیم کیا جائے گا، پھر اگر ہدی تمتع،یا قران،یا نفل ہو تو اس کے لئے اس میں سے کھانا ،ہدیہ دینا اور حرم کے مسکینوں پر تقسیم کرنا جائز ہے،کیونکہ آپﷺ نے ہدی کے گوشت سے کھایا تھا، جیسا کہ صحیح مسلم میں جابررضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے،اور اس لئے کہ یہ دم نسک ہے تو اس اعتبار سے یہ اضاحی کے درجہ میں ہے، اور اگر اس(گوشت) میں سے عالم اسلام کے فقیروں ومحتاجوں کے پاس بھجوائے تو یہ قابل شکرعمل اور بہترین کاوش ہے۔
اور اگر یہ دم کسی واجب کے ترک کی بنا پر ہے۔توایک قول کے مطابق ۔ اس کے تمام گوشت کو حرم کے مسکینوں پر تقسیم کردے گا،اور اس میں سے کچھ بھی نہیں کھائے گا۔
حلق یا تقصیر حج وعمرہ کے نسک میں سےہے،کیونکہ نبیﷺ نے اس کے کرنے والے کے حق میں اپنے اس قول کے ذریعہ مغفرت کی دعا فرمائی ہے:’اے اللہ! سر منڈوانے والوں کی مغفرت فرما! صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اور کتروانے والوں کے لیے بھی (یہی دعا فرمائیے) لیکن نبی کریم ﷺنے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا اے اللہ! سر منڈوانے والوں کی مغفرت کر۔ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اور کتروانے والوں کی بھی! تیسری مرتبہ نبی کریمﷺنے فرمایا اور کتروانے والوں کی بھی مغفرت فرما‘‘۔(صحیح بخاری:۱۷۲۸،صحیح مسلم: ۱۳۰۲ بروایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں :’’رحمت کی دعا کا ذکر ہے‘‘۔(صحیح بخاری:۱۷۲۷،صحیح مسلم:۱۳۰۱)
تقصیر:قینچی یا دیگرمعروف اوزار سے سر کے تمام اطراف سے بال کو چھوٹا کروانا۔
اورحلق کروانا قارن ،مفرد اور صرف عمرہ کرنے والے کے حق میں افضل ہے،اوراس سے صرف وہی متمتع شخص مستثنیٰ ہوگا جو مکہ بہت آخر میں آیا ہواس طور سے کہ حج سے پہلے اس کے بال اگنے کی امید نہ ہو،تو یہ تقصیر کرانا اس کے حق میں افضل ہوگا،جیسا کہ نبیﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے صحابہ کو اس کو کرنے کا حکم دیا تھا،تاکہ عمرہ میں تقصیر کروانے اور حج میں حلق کروانے کے درمیان جمع ہوجائے،اوراگروہ لوگ اُس وقت عمرہ میں حلق کروالیتے توحج میں حلق کروانے کیلئے سرمیں کوئی بال نہ بچتا،اوران(اوپرذکر کردہ امور )کے علاوہ میں حلق کروانا افضل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نےاپنے اس قول میں حلق کو مقدّم کیا ہے:’’سرمنڈواتے ہوئے اور سر کے بال کترواتے ہوئے‘‘[سورہ فتح:۲۷] اوراس لئے کہ یہ نبیﷺ کا فعل ہے، جیسا کہ مسلمؒ (1304،1305) نے انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے نقل کیا ہے،اورجو عمل آپﷺ کے فعل کے زیادہ موافق ہو تو وہ زیادہ افضل ہے،اوراس لئے کہ نبیﷺ نے سرمنڈوانے والوں کے لئے مغفرت ورحمت کی دعا فرمائی ہے، اور تقصیر کروانے والوں کے لئے صرف ایک بار دعا کی ہے۔جیساکہ گذرچکا۔،اور اس لئے بھی کہ یہ(حلق کروانا) اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی تعظیم میں زیادہ کامل ہے۔
لیکن بہت سارے لوگوں کو دیکھا گیا ہےاور خاص کونوجوان (طبقہ) کہ یہ لوگ سرکے بال کو نہیں منڈواتے،بلکہ تقصیر پر ہی اکتفا کرتے ہیں،اوراس کا اظہار،گرمی یا رمضان کی چھٹی میں ـواضح طور پر عمرہ کے اندر پایا جاتا ہے ۔اوراس میں افضل عمل کےانجام دینے سے بےرغبتی پائی جاتی ہے، اوربال کے ساتھ بخل سے کام لیا جاتا ہے، اورجب نسک کے اندر مال وجان کے ساتھ بخل[4] کرنا مکروہ ہے، تو بال کے ساتھ یہ کیسے(درست)ہوگا؟!
اہل علم کے درمیان سرکے بال کی تقصیر(چھوٹا کرانے) کے مقدار کے سلسلے میں اختلاف پایاجاتا ہے،لیکن سب سے درست قول ۔واللہ اعلم۔ یہی ہے کہ سر کے تمام بال کو چھوٹا کرانا ضروری ہے،اس طور سے کہ پورے سر کے ظاہر کی (تقصیر) ہو،اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہرہربال کو بعینہ لے،اوراس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:’’سرمنڈواتے ہوئے‘‘[سورہ فتح:۲۷] اورسرکی طرف مضاف فعل پورےسرکو شامل ہے، اورجس شخص نے بعض سر کی تقصیر کروائی تو نہیں کہا جائے گا کہ:اس نے اپنے سر کی تقصیر کرائی،بلکہ اس نے بعض سر کا بال کٹوایا، اوراس لئے کہ نبیﷺ نے اپنے ان اصحاب کو جو ہدی نہیں لائے تھے طواف وسعی سے فارغ ہونے کے بعد انہیں تقصیر کروانے کا حکم دیا تھا، اور ظاہر یہی ہے کہ تمام سر کی تقصیرتھی، کیونکہ لفظ کا ظاہر اسی طرف جاتاہے، اور اس لئے کہ تقصیر حلق کے قائم مقام ہے، اور حلق تمام سر کا ہوتا ہے، اسی طرح تقصیر بھی پورے سر کی ہونی چاہئے۔
جمہورعلماء اس بات کی طرف گئے ہیں کہ رمی کی صحت کی شرطوں میں سے سات کنکریاں مارنا شرط ہے،پس اگران میں سے ایک بھی کم ہوا تورمی صحیح نہیں ہوگا، بلکہ دوبارہ اس کمی کو پورا کرنا ہوگا،اس لئے کہ نبیﷺنے تمام جمرہ کوسات کنکریاں ماری تھیں،جیسا کہ جابراوردیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسےنقل کیا ہے،اور آپﷺ نے فرمایا:’’مجھ سے اپنے حج کے طریقہ کو سیکھ لو‘‘۔اس لئے اس چیزمیں نبیﷺ کی اقتدا کرنا ضروری ہے، اور یہ بات معروف نہیں ہے کہ آپﷺ نے کسی کو سات سے کم (کنکری) مارنے کی اجازت دی ہو۔
اورامام نسائیؒ(۵؍۲۷۵)وغیرہ نے جومجاہدؒ سے نقل کیا ہے کہ:سعد رضی اللہ عنہ نے کہا’’ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج میں لوٹے۔تو ہم میں سے کوئی کہتا تھا:ہم نے سات کنکریاں ماریں اورکوئی کہتا تھا:ہم نے چھ ماریں،توان میں سے کسی نے ایک دوسرے پرنکیرنہیں کی‘‘۔تو یہ اثر منقطع ہے،کیونکہ مجاہدرحمۃ اللہ علیہ کا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے،جیسا کہ ابن قطان،اورطحاوی وغیرہما نے کہا ہے،اسے(الجوہر النقی: (5/149میں نقل کیا گیاہے،اوریہ ذکرکیا گیاہے کہ سات کنکریوں کے وجوب کے بارے میں دلائل بھرے پڑے ہیں،اوریہ ثابت نہیں ہے کہ رسولﷺ نے صحابہ کواس(یعنی کم کنکریاں مارنے) پرباقی رکھا،اور نص کے ہوتے ہوئےکوئی اجتہاد نہیں
جمرات کی کنکری چننے کی کوئی خاص جگہ نہیں ہے، بلکہ کسی بھی جگہ مزدلفہ،یا منیٰ،یا راستہ سے لیا جاسکتا ہے،کیونکہ نبیﷺنے اس کی کوئی تحدید نہیں فرمائی ہے، اسی لئے سنت کا یہ طریقہ نہیں کہ حاجی شخص مزدلفہ میں رات کو پہنچتے ہی جمرہ ٔعقبہ یا ایامِ تشریق کے جمرات کے لئےکنکری چننے میں مشغول ہوجائے، جیسا کہ بعض حجاج کرتے ہیں۔
اور ا بن عباس رضی اللہ عنہما [اور ایک روایت میں فضل ابن عباس ہے] کی حدیث میں ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے عقبہ کی صبح جب کہ آپ اپنی سواری پر تھے مجھ سے فرمایا:(هاتِ الْقُطْ لي… الحديث) ’’میرے لئے(چھوٹی چھوٹی) کنکریاں چن لاؤ...الحدیث‘‘ (احمد:۳؍۳۵۰،نسائی:۵؍۱۹۷،ابن ماجہ:۳۰۲۹،اور اس کی سند مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے)۔
حدیث کےاندرمکان کی کوئی تحدید نہیں ہے،اگرچہ ظاہر یہی ہے کہ انہوں نے مزدلفہ سے چنا تھا،کیونکہ آپﷺ کا فرمان(غداۃ العقبۃ) اس بات پر دال ہے کہ یہ دن کے ابتدائی حصہ میں تھا،اورآپﷺ دن کی ابتدا میں مزدلفہ میں تھے،لیکن اس میں (مزدلفہ) کی صراحت نہیں ہے،بلکہ احتمال ہے کہ انہوں نے جمرہ کے پاس منیٰ سے لیا ہو،کیونکہ آپ ﷺ کے بارے میں یہ مذکور نہیں کہ مزدلفہ سے چلنے کےبعد منیٰ تک کہیں رکے ہوں،اوراس لئے کہ یہی اس کی ضرورت کا وقت تھا، مگر آپ ﷺنےاس سے پہلے کوئی فائدہ نہ ہونے اوراس کے اٹھانے کی تکلیف کی وجہ سے اس کے چننے کا حکم نہیں دیا، اورپہلے معنیٰ کو ہی فرض کرلیا جائے تب بھی یہ تمام جمرات کے لئے عام نہیں ہے،بلکہ یہ جمرۂ عقبہ کے لئے خاص ہے،اور مقصود یہی ہے کہ جمرات کی کنکری کسی بھی جگہ سےچُنی جاسکتی ہے،واللہ اعلم۔
ایام تشریق میں تینوں جمرات میں سے ہر جمرہ کو سات کنکری مارنا واجب ہے،اور جو شخص کنکری مارنے میں ایک یا اس سے زیادہ کی کمی کردے تو واپس ہوکر اس کمی کو پورا کرے۔
اور جس سے ایک یا اس سے زیادہ کنکری رمی سے پہلے کم ہوجائے تو حوض کے پاس موجود کنکری کو لے کر ماردے، گرچہ اس کنکری کو استعمال کیا جا چکا ہو، اور اس مسئلہ میں یہی بات درست ہے، اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے جواز کی صراحت کی ہے،کیونکہ منع کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور اس لئے کہ یہ ایک پتھر ہے جس میں سے کسی چیز کی تبدیلی نہیں ہوئی ہے،اور اس کو دوبارہ مارنا جائز ہے،اور وہ معنیٰ جس کی وجہ سےرمی مشروع کیا گیا ہے اس کے اندر موجود ہے، ساتھ ہی اس میں لوگوں کے لئے آسانی ہے، کیونکہ انسان سے بسا اوقات حوض پرکوئی کنکری گرجاتی ہے، تواسے یہ حکم دینا کہ جاکر دور سے اسے لے کر آئے،اور پھر دوبارہ رمی کے لئے داخل ہو۔ساتھ ہی بھیڑ ہو۔ تویہ مشقّت سے خالی نہیں ہے۔
اور جو شخص کنکری کی تعداد میں شک کرے، تو فقہاء کا قاعدہ ہے کہ عبادت سے فارغ ہونے کے بعد شک کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا،اس کے باوجود اگر وہ جمرہ کے پاس ہے تو احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ شک کو یقین کے ذریعہ زائل کردے،پس اگر وہ اپنی قیام گاہ واپس ہوگیا تو اس (شک) کی طرف توجہ نہ کرے، واللہ اعلم۔
اصل یہی ہے کہ حاجی بذات خود کنکری مارے،چاہے وہ آدمی ہو یا عورت،اورکسی کو اپنی طرف سے رمی کے لئے وکیل نہ بنائے، خواہ فرض حج ہو یا نفل،کیونکہ رمی کرنا مناسک حج کے نسک اور اس کے اجزاء میں سے ایک جزءہے، اس لئے اسے خودکرنا ضروری ہے،لیکن اگرکوئی عذر ہوجیسے :بیماری،بڑھاپا،بچپنا ہو،یا ایسی عورت ہو جس کے ساتھ بچے ہوں،اوراس کے پاس اس کی کوئی حفاظت کرنے والا نہیں ہو،اوراس طرح دیگراسباب جس کی وجہ سے رمی کرنا آسان نہ ہو، تواس کی طرف سے رمی کرنے کے لئے نائب بنانا جائز ہے،خواہ موکّل نے کنکری کو چنا ہواوراسے وکیل کے حوالے کردیا ہو،یا وکیل نے خود ہی اسے چنا ہو۔
لیکن قدرت رہنے پر اس نسک میں تساہل کرنا مناسب نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک عبادت ہے، اور مکلف سے اس بات کا مطالبہ ہے کہ وہ اسے خود انجام دے۔
اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وکیل شخص پہلے اپنی طرف سے رمی کرے، پھر ایک ہی جگہ میں اپنے موکّل کی طرف سے نیت کرے، یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے تمام جمرے کو مارے، پھر دوبارہ واپس ہوکر اپنے موکّل کی طرف سے مارے، کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔اور اس لئے کہ اس میں مشقّت ہے،اور خاص کر اس زمانہ میں، اور یہ تعاون ومدد کے کم ہونے کا سبب بنے گا، اور اس سے لوگ اس شخص کی جانب سے رمی کرنے سے رک جائیں گے جس کو استنابت کی ضرورت ہے۔
اور ۔واللہ اعلم۔زیادہ ظاہریہی ہےکہ جب موکّل کا عذر ختم ہوجائے،جیسے مرض سے شفا پاجائے، اور رمی کے کچھ ایام باقی ہوں، تو ان تمام کی رمی(خود) کرے گا جو اس کی طرف سے کیا گیا ہے، کیونکہ توکیل بنا نا ضرورت کے طور پر مباح ہوئی تھی، اور جب عذر ختم ہوگیا اور وقت باقی ہے،تواس کو خود سے عبادت کو کرنا ضروری ہے۔
نبیﷺ نے یوم نحر(دس ذی الحجہ) کے دن چاشت کے وقت جمرہ ٔعقبہ کو کنکری مارا تھا ، اور اس کے بعد ایام تشریق میں زوال کے بعد رمی کیا ،اور فرمایا: ’’مجھ سے اپنے مناسک کو سیکھ لو‘‘۔
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایام تشریق میں غروب شمس تک رمی کرنا جائز ہے، اسی طرح جمرہ ٔعقبہ کی رمی راجح قول کے مطابق یومِ عید کو غروب شمس تک رہتا ہے۔
البتہ اختلاف اس دن کی رات کو رمی کرنے میں ہے جس دن سورج غائب ہوجائے،اورراجح قول جواز کا ہے، کیونکہ نبیﷺ نے اپنے فعل کے ذریعہاوّل وقت کی رمی کی تحدید کی ہے، اور اس کے آخر کی تحدید نہیں کی ہے،اور ابن عمررضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:’’نبیﷺ نے چرواہوں کے لئے رات کو رمی کرنے کی رخصت دی ہے‘‘۔(مسند البزّاربحوالہ مختصرزوائدہ:۷۸۲، بیہقی:۵؍۱۵۱) اورحافظ ابن حجر نے ( التلخیص:۲؍۲۸۲ )میں اسے حسن قرار دیا ہے، اورابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث اس کی شاہد ہے، جسے طحاوی نے (شرح معانی الآثار:۲؍۲۲۱)،اور طبری نے (تہذیب الآثار:۱؍۲۲۲) میں روایت کیا ہے۔
اور مؤطا (1/409) میں امام مالکؒ سے روایت ہے وہ ابوبکر بن نافع سے روایت کرتے ہیں،ان سے ان کے والد نے روایت کیا ہے کہ:’’صفیہ بنت ابی عبید کی بھتیجی مزدلفہ میں حیض سے ہوگئی،تو وہ اور صفیہ پیچھے رہ گئیں یہاں تک کہ میرے پاس یوم نحر کو غروب شمس کے بعد تشریف لائیں،پس عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے ان کی تشریف لانے پر جمرہ کو مارنے کا حکم دیا، اور ان پر کوئی حرج نہیں سمجھا، اور اس کی سندصحیح ہے‘‘۔
اور مصنف ابن ابی شیبہ(4/30) میں عبد الرحمن بن سابط سے مروی ہے کہ:’’رسولﷺ کے اصحاب حج کو تشریف لاتے ،اور اپنی سواری چھوڑدیتے،اور رات کو تشریف لاتے اور رمی کرتے‘‘۔اس کی سند صحیح ہے۔
اس لئے کہ دن میں رمی کا وقت ہے، اور رات اس میں اس کے تابع ہے، جیسے نحر کی رات طلوع فجر تک وقوف کے صحیح ہونے میں یوم عرفہ کے تابع ہے۔
پس جس پر دن کو رمی کرنا شاق گذرے جیسے عورت ، ناقص الخلقت ،اور سن رسیدہ شخص تو ان کے لئے رات میں رمی کرنا جائز ہے،اسی طرح جس کے لئے رات میں رمی کرنا زیادہ آسان اور اطمنان بخش ہے تو وہ رات میں رمی کرے، بلکہ میں اس بات کی تاکید کرتا ہوں کہ جس کے ساتھ عورت ہو تو وہ صرف رات میں ہی رمی کرے،اور خاص کرگیارہویں کو سخت ازدحام کی وجہ سے، رہی بات بارہویں دن کی اور یہی نفراوّل(منیٰ سے روانگی کا پہلا دن) ہے تو غروب سے کچھ پہلےبغیرمشقت کے رمی کرنا ممکن ہے حتیٰ کہ عورت کے لئے بھی، اور خاص کر جلدی کرنے والے شخص کے لئےتاکہ منیٰ سے غروب شمس سے پہلے نکل سکے۔
گیارہویں کی رات،اور بارہویں کی رات ـاسی طرح جلدی نہ کرنے والے کے لئے تیرہویں راتمنیٰ میں گذارنا حج کے واجبات میں سے ایک واجب ہے، کیونکہ نبیﷺ نے منیٰ میں رات گذارا ہے، اور فرمایا: ’’لوگو تم مجھ سے اپنے مناسک(طریقۂ حج) کو سیکھ لو‘‘۔ اور اس لئے کہ آپﷺنے پانی پلانے والوں، چرواہوں کے لئے منیٰ کی رات نہ گذارنے کی رخصت دی ہے، اور رخصت کی تعبیربغیر عذر والوں کے لئے مبیت(رات گزارنا) کے وجوب پر دلالت کرتا ہے۔
اور جو شخص کوشش کرے،اور مبیت کے لئے مناسب جگہ نہ پائے تو اس سے مبیت ساقط ہوجائے گا، اور اس کے لئے منیٰ کے باہر مبیت کرنا جائز ہوگا، اور اس پر کچھ بھی نہیں ہوگا، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے:’’پس جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔ [سورہ تغابن:16] اور اللہ کا فرمان:’’اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ‘‘۔[سورہ بقرہ:286]۔ اور نبیﷺ کا فرمان ہے:’’جب میں تمہیں کسی بات کے کرنے کا حکم دوں تو جہاں تک ہوسکے تم اسے بجالاؤ‘‘۔(بخاری:۷۲۸۸،مسلم:۱۳۳۷)
لیکن اس میں سڑکوں پر،یا لوگوں کے راستوں میں فٹ پاتھوں پر اورگاڑیوں میں رات گذارنا شامل نہیں ہے،کیونکہ اس میں بہت بڑا نقصان اوربہت زیادہ خطرہ ہےجس کی شریعت میں کوئی مثال نہیں۔اور خاص کر ایسے مناسکِ حج میں جو مکلفینکی آسانی وسہولت پر مبنی ہے،اوراس سے بڑھ کر یہ کہ سڑکوں یا فٹ پاتھوں پرعورتو ں کے ساتھ رات گذارے،تواس میں اوراس سے ما قبل صورت میں اس سے مبیت ساقط ہوجائے گا،کیونکہ اس میں ضرر پایا جارہا ہے، اس لئے کہ اگرعورت بیٹھی ہی رہے تو اس میں مشقت ہے، اوراگر سوئی رہے تو لوگوں کے راستوں میں سونا ادب کے خلاف ہے،اور کبھی کبھار اس کی بدن کا بعض حصّہ ظاہر ہوجاتا ہے اوراس کا اسے احساس تک نہیں ہوتا، اورجوایسا کرتا ہے تو یہ واجب کی ادائیگی میں حرص کی بنا پرکرتا ہے، اور یہ امر مناسک میں مطلوب ہے، لیکن جب عذر پایا جائے گا تو واجب ساقط ہوجائے گا، واللہ اعلم۔
ایّام تشریق میں زوال سے پہلے رمی کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ نبیﷺ نے زوال کے بعد رمی کیا تھا، اور فرمایا تھا: ’’تم مجھ سے اپنے مناسک کو سیکھ لو‘‘۔ تو رمی کرنا بھی اس عموم میں داخل ہوگا۔
اور نبیﷺ نے یوم نحر کو چاشت کے وقت اور ایام تشریق میں زوال کے بعد رمی کیا تھا،جیسا کہ جابر رضی اللہ عنہ نے اس کو بیان کیا ہے۔تو یہ حکم کے اختلاف پر دلالت کرتا ہے ،پھر اگر زوال سے پہلے رمی کرنا جائز ہوتا تو نبیﷺاسے کرتے، کیونکہ اس میں عبادت کو اس کے اولِ وقت میں کرنے کی مبادرت پائی جاتی ہے، اور اس لئے کہ اس میں لوگوں کے لئے آسانی ہے، اور رمی کے وقت کو طول دینا ہے۔
اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ:’’ہم (زوال کے وقت کا) انتظار کرتے رہتے تھے،پس جب سورج ڈھل جاتا تو ہم کنکریاں مارتے‘‘(بخاری:1746)
اور یہی جمہور اہل علم کا قول ہے،اور یہی اس مسئلہ میں راجح ہے۔ ان شاء اللہ ۔،لہذا جس نے زوال سےقبل کنکری مارا تو اس کو لوٹانا ضروری ہوگا، کیونکہ اس نے رمی کے وقت داخل ہونے سے پہلے مارا،اور اس سلسلے میں بارہویں تاریخ ،جو کوچ کرنے کا پہلا دن ہے،یا اس کے علاوہ تشریق کے دنوں کے درمیان کو ئی فرق نہیں ہے، اگر چہ بعض علماء نے بارہویں دن جو نفراول(منیٰ سے روانگی کا پہلا دن) ہے زوال سے پہلے کنکری مارنے کو جائز قرار دیا ہے،اور اس آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے: فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ [البقرة/20 ’’اور جو دو دن میں جلدی کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے‘‘۔ [سورہ بقرہ:۲۰۳]،لیکن یہ چیز رسولﷺ کے فعل کے مخالف ہے۔جیسا کہ اوپر گذرچکا۔
اللہ کا شکر ہے کہ رمی کے وقت میں کشادگی ہے ۔ اور زوال سے پہلے رمی کو واجب کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے،سوائے اس جلد بازی کے جس پر موجودہ زمانے کے اکثرلوگوں کا عمل ہے، واللہ المستعان۔
جوشخص بارہویں ذی الحجہ کو منیٰ سے نکلنے میں جلدی کرے لیکن سورج غروب ہوجائے:
جس شخص نےمنیٰ سے نفر اوّل کے دن نکلنے میں جلدی کی،اور وہ بارہویں (ذی الحجہ) ہے جو کہ ایام تشریق کا (دوسرا دن ہے)، اس طور سے کہ وہ اپنا سامان لے کر غروبِ (شمس) سے پہلے گاڑی پر سوار ہوا ،پھر گاڑیوں کی بھیڑ کی وجہ سے یا دیگر سبب کی بنا پر راستہ جام ہوگیا،تو ایسا شخص جلدی کرنےوالا شمار ہوگا، اور اپناسفر جاری رکھے گا، اوراس کو اس رات منیٰ میں مبیت(رات گزارنا) کرنا اور اس کی صبح کو کنکری مارنا لازم نہیں ہوگا،کیونکہ اس نے تعجّل کو اختیار کیا،اور اس کے لئے تیاری بھی کی،پھر بغیر اس کے اختیار کے روک دیا گیا، اسی طرح وہ شخص جو غروبِ شمس سے پہلے منیٰ سے نکلا،پھر وہ منیٰ کو کسی بھولی ضرورت وغیرہ کے سبب واپس ہوا،تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے سفر کو جاری رکھے،اور اس پر کوئی مبیت لازم نہیں ہوگا، لیکن جس نے رمی کو غروب شمس کے بعد تک مؤخّر کردیا تو اس پر مبیتِ منیٰ لازم ہوگا،کیونکہ اس پر تعجلّ کا وصف صادق نہیں آتا،واللہ اعلم۔
جب کوئی شخص طواف افاضہ یعنی طوافِ حج کو مؤخر کردے، اور اسے مکہ سے نکلنےکے وقت کرے تو یہ طواف وداع سے کفایت کرے گا،لیکن نیّت طوافِ حج(افاضہ) کا کرے گا، کیونکہ یہ رکن ہے، اور طواف وداع واجب ہے، تو اعلیٰ ادنیٰ سے کافی ہوگا نہ کہ عکس،اور طواف افاضہ طواف وداع سے اس لئے کافی ہوگا ،کیونکہ اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ حاجی کی آخری عہد(کام) بیت اللہ کا (طواف )ہو،اوراس شخص نے اسےانجام (بھی) دیا ہے، اور یہ دونوں عبادتیں ایک ہی جنس سے ہیں لہذا ان میں سے ایک دوسرے کے لئے کافی ہوگی۔
اور یہ مفرِد اور اس قارن کے بہ نسبت زیادہ واضح ہے جس نے طواف قدوم کے ساتھ حج کی سعی کی ہو، کیونکہ اس کے بعد اس پر طواف کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے، اور اس کا آخری عہد(کام) بیت اللہ (کا طواف ) ہوگا۔
لیکن متمتع شخص جس نے طواف افاضہ کو مکہ سے نکلنے کے وقت تک مؤخر کر رکھا ہے تو اس پر اس کے بعد بھی سعی ہے، اوراس کا آخری عہد بیت اللہ کا (طواف ) نہیں ہوگا، تو کیا اس کو بعد میں (طواف) وداع کی ضرورت ہے؟
زیادہ ظاہر یہی ہےکہ ـواللہ اعلمـ وہ سعی کے بعد وداع کی ضرورت نہیں رکھتا،کیونکہ سعی طواف کےتابع ہے،اس لئے طواف اورسعی سے نکلنے کے درمیان فصل کرنا کوئی نقصان نہیں دے گا، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے(صحیح بخاری 3/612) میں باب باندھا ہے اورکہا ہے:’’باب:(حج کے بعد) عمرہ کرنے والاعمرہ کا طواف کر کےمکہ سے چل دے توطواف وداع کی ضرورت ہے یا نہیں ہے؟‘‘۔پھرانہوں نے حدیث عائشہ کو ذکرکیا ہے،اوراس میں ہے:’’اپنی بہن کو حدودِ حرم سے باہر (تنعیم)لے جا تاکہ وہ وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ لیں،پھر طواف اورسعی کرو ہم تمہارا یہیں انتظارکریں گے‘‘اورحدیث سے یہی ظاہر ہورہا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو طواف وداع کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ ( صحیح بخاری:4/445)کی شرح میں کہتے ہیں:’’علماء کے ہاں اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ معتمر شخص جب(حج کے بعد عمرہ کا) طواف کرے،اوراپنےملک کی طرف چل دےتو یہ(طواف)اس کےطوافِ وداع کیلئے کافی گا، جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا‘‘۔اور حافظ ابن حجر رحمۃاللہ نے اسے فتح الباری میں نقل کیا ہے، اوراس کا اقرار کیا ہے۔
لیکن اس پرعائشہ رضی اللہ عنہا سےصحیح بخاری حدیث نمبر(1560) میں مروی دوسری حدیث سے اشکال ہورہا ہے جس میں وہ فرماتی ہیں جب رسولﷺنے ان کے بھائی کو انہیں عمرہ کرانے کیلئے بھیجا:(فَخَرَجْنَا حَتَّى إِذَا فَرَغْتُ وَفَرَغْتُ مِنَ الطَّوَافِ) ’’عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم (نبی کریم ﷺ کی ہدایت کے مطابق) چلے یہاں تک کہ میں فارغ ہوگئی،اورمیں طواف سے فارغ ہوگئی‘‘۔تو اس کے ظاہر سے یہی پتہ چلتا ہے کہ پہلی فراغت سے عمرہ سے فارغ ہونا ہے، اور دوسری فراغت سے طوافِ وداع سے فارغ ہونا ہے، اور شاید اسی بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ترجمہ ٔباب کو استفہام کے لفظ سےلائے ہیں، اور کوئی قطعی حکم نہیں بیان کئے ہیں ،واللہ اعلم۔
جو شخص کسی ضرورت سے جدّہ کا سفر کرے اور(پھر) عمرہ کا ارادہ کرے:
جوشخص کسی ضرورت کے لئے جدّہ جائے اور عمرہ کا ارادہ رکھتا ہو ،تو اس مسئلہ میں تفصیل ہے،اگر اس کے سفرکا ارادہ نسک یعنی عمرہ کی ادائیگی کا ہےاور ضرورت اس کے تابع ہے، تو ایسے شخص پر میقات پہنچنے پر یا مواقیت میں سے کسی ایک کے بالمقابل ہونے پراحرام باندھنا واجب ہوگا جیسے ذوالحلیفہ وغیرہ ، مواقیت کے بارے میں نبیﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے:’’یہاں سے ان مقامات والے بھی احرام باندھیں اور ان کے علاوہ وہ لوگ بھی جو ان راستوں سے آئیں اور حج یا عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں‘‘۔(بخاری:1524،ومسلم:۱۱۸۱ بروایت ابن عباس رضی اللہ عنہما) اور اس شخص پر یہ(وصف) صادق آتا ہے کہ وہ میقات پر آیا اور عمرہ کا ارادہ رکھتا ہے، اس لئے اسے احرام باندھناضروری ہے۔
اوراگراسکے سفرکا ارادہ کسی حاجت کے لئے ہو، اور نسک(عمرہ )اس کے تابع ہو، یعنیاگر میسّر ہوا اوراس کے پاس وقت میں کشادگی ہو ئی تو وہ عمرہ کرلے گا، تو ایسے شخص کے لئے میقات سے گذرنے پراحرام باندھنا لازم نہیں ہوگا،بلکہ اسے بغیراحرام کے گذرنا ہوگا، کیونکہ میقات پر گذرتے وقت اس کا حج اور عمرہ کا ارادہ نہیں تھا۔
پس جب اس کی ضرور ت پوری ہوجائے اور وہ جدّہ میں ہو اور عمرہ کرنا چاہے تو وہاں سے احرام باندھے گا،کسی میقات پر اس کو جانے کی ضرورت نہیں ہوگی، کیونکہ جدّہ وہاں کے باشندے کی میقات ہے، اور اس کی (بھی) جو وہاں حج اورعمرہ کے ارادےکے بغیر تشریف لےجائے، پھروہیں سے حج یا عمرہ کا ارادہ کرے، لیکن جو وہاں حج یاعمرہ کی نیت سے تشریف لائے تو جدّہ ایسے لوگوں کی میقات نہیں ہے، کیونکہ یہ مواقیت کے اندر داخل ہے، لہذا جوشخص وہاں سے احرام باندھے گا وہ میقات سے تجاوز کرنے والا ہوگا، واللہ اعلم۔
جب محرم شخص طواف ا ورسعی کرلے پھر بھول کر حلق یا تقصیر کرنے سے پہلے اپنے کپڑے کو پہن لے تو یاد آنے پر اپنے لباس کو اتاردے، اور احرام کا کپڑا پہن لے ، پھر حلق یا تقصیر کروائے ، پھر عام کپڑا پہنے ۔خواہ اسے یہ چیز مکہ میں یاد آئے، یا اس کے علاوہ(جگہ)میں، کیونکہ حلق یا تقصیر نسک ہے، جس کا حالت احرام میں کرنا ضروری ہے۔
اور اگر اس نے حلق یا تقصیر جہالت یا بھول کر کروالیا اور اس پر کپڑا بھی تھا، تو اس پر کوئی چیز نہیں ہے، اسی طرح جو شخص حلق سے پہلے ممنوعات احرام میں سے کسی چیز کو بھول کرکرڈالے تو اس پر بھی کوئی چیز نہیں ہے،اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے:’’اے ہمارے رب !ہم سے بھول چوک یا خطا ہونے پر ہمارا مؤاخذہ نہ کر ‘‘[سورہ بقرہ:286]اور نبیﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے:’’بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امّت سے خطا،بھول چوک اور اس چیز کو جس پر آدمی مجبور کردیا جائے معاف فرما دیاہے‘‘ (ابن ماجہ:2045،بیہقی:7/356 وغیرہما)۔ اور یہ کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، اور اس کے متعدّدطریق ہیں،اور قرآنی شواہد اس کی صحت پر دلالت کرتی ہیں۔
سنت صحیحہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ طواف وداع حج کے مناسک اور اس کے شعائر میں سے ہے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے: ’’لوگوں کواس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ ان کا آخری کام اللہ کے گھر کا طواف ہونا چاہیے، مگر حیض والی عورت پر تخفیف کردی گئی ہے‘‘۔ (بخاری:۱۷۵۵،مسلم:۱۳۲۸،۳۸۰)۔ اور انہی سے مروی ہے کہ: لوگ جہاں سے چاہتے رخصت ہو جاتے تھے ،تو رسول ﷺنے فرمایا:’تم میں سے کوئی اس وقت تک نہ کوچ کرے یہاں تک کہ اس کا آخری کام بیت اللہ کا (طواف کرنا) ہو‘‘(مسلم:۱۳۲۷) اور ایک لفظ میں ہے کہ: لوگ منیٰ سے اپنے اپنے علاقوں کی طرف رخصت ہوجاتے تھے، تو رسولﷺ نے اس بات کا حکم دیا کہ ان کا آخری عہد(کام) بیت اللہ کے ساتھ ہو، البتہ حائضہ کو اس سےرخصت دی گئی ہے‘‘ (اسےحاکم (1/476) نے روایت کیا ہے ،اور فرمایا: یہ حدیث شیخین کی شرط کے مطابق صحیح ہے ،اور امام ذہبی نے اس پران کی موافقت کی ہے)۔
اولّ: نبیﷺنے اسے حجۃ الوداع کے موقع پر کہا ہے، اور اس کے ذریعہ حاجیوں سے خطاب فرمایاہے، اور آپ ﷺ سے اسے کبھی کسی عمرہ میں کہنامنقول نہیں ہے۔
دوم: مذکورہ اوصاف صرف حج پر منطبق ہوتی ہیں، کیونکہ اگر طواف وداع نہ ہوتا تولوگ منیٰ سے رمی جمرات کے بعد جس طرح چاہتے کوچ کرتے، لہذا انہیں یہ حکم دیا گیا کہ ان کا آخری عہد(کام) بیت اللہ کا(طواف) ہو۔
جہاں تک عمرہ کی بات ہے تواس میں کوئی طوافِ وداع نہیں ہے،بلکہ علامہ ابن رشد القرطبی نےاپنی کتاب(بدایۃ المجتہد:2/266) میں اس بات پراجماع نقل کیا ہےکہ:’’معتمر شخص پرصرف طواف قدوم یعنی طواف عمرہ ہے،اور جمہور نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ طواف وداع حاجی کے علاوہ شخص پر واجب نہیں ہوتا،اورایسا اس لئے کہ نبیﷺ سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپﷺ نے اپنی امّت کو عمرہ میں طوافِ وداع کرنے کا حکم دیا ہو،اوراس وجہ سے بھی کہ نبیﷺ نے چارمرتبہ عمرہ کیا ہےلیکن آپﷺ کا ان میں سے کسی ایک میں بھی طوافِ وداع کرنا منقول نہیں ہے،اورنہ ہی آپﷺ نے اپنے صحابہ میں سے کسی کو اس کے کرنے کا حکم دیا ہے۔ اوراگرایسا ہوتا تو ہم تک یہ بات اسی طرح منقول ہوتی جس طرح ساری مناسک منقول ہوئیں،اورانہی میں سے حج میں وداعی طواف کرنا ہے۔(اورعمرہ میں کوئی طواف وداع نہیں)
اسی طرح آپﷺ کے صحابہ اوران کی اچھی پیروی کرنے والے (تابعین) نےعمرہ کیا، لیکن ان سے بھی عمرہ کے لئے وداعی طواف کرنا منقول نہیں ہے،اورنہ ہی اس سلسلے میں انہوں نے کوئی گفتگو فرمائی ہے،اورچیزوں میں اصل ذمہ داری سے بری ہونا ہے،لہذا اس سے اسی صورت میں منتقل ہونا درست ہے جب کوئی ایسی صحیح سالم دلیل ہوجومخالفت سےپاک ہو۔اسی بنیاد پرعمرہ کے لئے کوئی وداعی(طواف) نہیں ہے،چاہے معتمر شخص مناسک ادا کرنے کے بعد نکلے،یا مکہ میں اقامت کرے اورپھراس کے بعد وہاں سےنکلے، واللہ اعلم۔
احادیث صحیحہ عمرہ کی فضیلت ،اور اسے کثرت سے کرنے کے استحباب پر دلالت کرتی ہیں،اور انہی میں سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اوپر گذری ہوئی وہ حدیث ہے جس میں رسولﷺ نے فرمایا ہے:’’ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ دونوں کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور(مقبول) کا ثواب صرف جنّت ہے‘‘۔(متفق علیہ)۔
اورابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسولﷺ نے فرمایا:’’حج وعمرہ پے درپے کیاکرو،کیونکہ یہ دونوں فقر ومحتاجگی اور گناہوں کو اسی طرح مٹادیتے ہیں جیسے(آگ کی )بھٹی لوہے،سونے اور چاندی کی میل کچیل کو صاف کردیتی ہے،اورحج مبرور کا ثواب صرف جنّت ہے‘‘۔(احمد: ۱؍۳۸۷، نسائی:۵؍۱۱۵، ترمذی:۸۱۰) ،اور یہ حدیث حسن ہے، اوراسے ترمذی نے صحیح قراردیا ہے، اوراس کے کئی شاہد ہیں۔
لیکن اس بات کو جان لینا چاہئے کہ تکرارِ عمرہ جس میں ثواب ثابت ہوتاہے، وہ ایسا عمرہ ہے جو مستقل سفر میں میقات سے کیا جائے، جیسا کہ اہل علم نے اس بات کو ثابت کیا ہے، اور انہی میں سے ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ہیں جنہوں نے (زاد المعاد:(2/94-175-176)میں ذکر کیا ہے۔
رہا مسئلہ عمرہ کا احرام باندھنا،پھر پہلے عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد دوسرا عمرہ کرنا،تو یہ اس امّت کے سلف کا شیوہ نہیں ہے،حالانکہ وہ شریعت کے نصوص کے معانی کو ہم سے زیادہ جاننے والے تھے، اور (اس لئے کہ) عمرہ ایک عبادت ہے، جس کے لئے کسی ایسی دلیل کا ہونا ضرروی ہے جو اس کے(تکرار کے) استحباب پر دلالت کرے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے(فتاوی:26/145) میں فرماتے ہیں کہ:’’طواف کو کثرت سے کرنا اعمال صالحہ میں سے ہے،اور یہ اس عمل سے زیادہ افضل ہے کہ آدمی حرم سے نکل کر باہر جائے اور مکی عمرہ کرے، کیونکہ یہ سابقین اولین مہاجرین وانصار کے اعمال میں سے نہیں ہے، اور نہ ہی اس کی جانب نبیﷺنے اپنی امّت کو ترغیب دلائی ہے،بلکہ سلف نے تو اسے مکروہ جانا ہے‘‘۔
شیخ الاسلامؒ نے:(26/249) یہ بھی فرمایا: ’’جہاں تک بیت اللہ کا طواف کرنا مکہ میں رہنے والے کیلئے عمرہ سے افضل ہوناہے،تو رسولﷺ کی سنت ،آپﷺ کے خلفاء کی سنت،او رآثار صحابہ، سلف امّت اور اس کے ائمہ کے بارے میں جانکاری رکھنے والےشخص کے لئے اس میں کوئی شک وشبہ کی بات نہیں ہے …‘‘۔
انہوں نے: (26/249) مزید فرمایا:’’اور یہ ہم نے ذکر کیا ہے جو طواف کے افضل ہونے پر دلالت کرتا ہے،تویہ اس بات پر (بھی)دلالت کرتاہے کہ مکہ سے(بار بار) عمرہ کرنا، اور طواف کو چھوڑدینا مستحب نہیں ہے، بلکہ مستحب طواف کا کرنا ہے نہ کہ عمرہ کا،بلکہ اس وقت وہا ں (بار بار) عمرہ کرنا ایسی بدعت ہے جسے سلف نے نہیں کیا ہے، اور نہ ہی کتاب وسنت میں اس کا حکم دیا گیا ہے، اور نہ ہی اس کے استحباب پر کوئی شرعی دلیل قائم ہے، اور جو اس طرح ہو تو علماء کی متفقہ رائے کے مطابق مکروہ بدعت میں سے ہے‘‘
اسی بنا پر(ہم کہتے ہیں کہ) بہت سارے لوگ جو رمضان میں یا حج کے بعد یا دیگراوقات میں (مقامِ)تنعیم سے یا دیگر حِل کی جگہوں سے کثرت سے عمرہ کرتے رہتے ہیں، حالانکہ اس سے پہلے وہ میقات سے گذر کر عمرہ کرچکے ہوتے ہیں،تویہ سب غیر مشروع ہے،کیونکہ اس کی دلیل موجود نہیں ہے۔ جیسا کہ(اس کا بیان) گذرچکا۔بلکہ دلیلیں اس کے ترک پر دلالت کرتی ہیں، کیونکہ نبیﷺنے اورآپﷺ کے اصحاب نے حجۃ الوداع اوراس کے علاوہ دیگرمواقع پراسے نہیں کیا،سوائے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ۔جیسا کہ عنقریب اس کا ذکر آئے گا۔،ساتھ ہی اس کی وجہ سے مطاف میں ان لوگوں کے لئے کافی بھیڑ کی جاتی ہےجو لوگ اپنے حج کے مناسک کو مکمل کرنے کے لئے طواف کرتے ہیں۔جیسا کہ حج کے ایام میں ہوتا ہے۔یاجو میقات سے نسک کی احرام باندھ کر طواف کرتے ہیں۔جیسا کہ رمضان یااس کےعلاوہ اوقات میں ہوتا ہے۔یا جو نفلی طواف کرتے ہیں۔حالانکہ وہ لوگ ان لوگوں سے افضل ہیں جیسا کہ اس کا بیان گذرچکا۔ اور جہاں تک عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حج کے بعد عمرہ کرنے کی بات ہے تو اس میں عمرہ کے تکرار کی،یا حج سے پہلے عمرہ کرنے والے شخص کے لیے بعد میں(دوبارہ) عمرہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے،اوریہ دوباتوں کی وجہ سے ہے:
اوّل:عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقامِ تنعیم سے عمرہ کرنا یا تو اس عمرہ کے قضا کے طور پر تھا جو اس کے قائلین کے نزدیک چھوٹا ہوا تھا،یا تو زیادتی محض اورعائشہ رضی اللہ عنہا کی تطییب خاطر کے طور پر تھا ان لوگوں کے نزدیک جو کہتے ہیں کہ: کہ وہ قارنہ تھیں۔
دوم:نبیﷺ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کا (مقامِ)ابطح میں انتظار کیا اورآپﷺکےہمرا ہ آپ کےصحابہ تھے،اور ان(عائشہؓ) کی وجہ سے وہ لوگ لیٹ ہوگئے،تو اگر عمرہ مشروع ہوتا تو وہ سارے لوگ ثواب کی حرص،اور وقت سے استفادہ کرتے ہوئے (تنعیم) جاتے، لیکن ایسا نہیں ہوا، اس لئے مسلمان کو چاہئے کہ اپنے نبی وپیشوا محمد بن عبد اللہ ﷺکی اقتدا کریں، اور کثرت سے بیت اللہ کا طواف کریں اور دعائیں مانگیں،یہی (اس کے حق میں) افضل ہے(نہ کہ تنعیم جاکر وہاں سے باربار عمرہ کرنا)،واللہ اعلم۔
([1])الحَقْوُ ازار باندھنے کی جگہ یعنی کمر کو کہتے ہیں
([2])شیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ نے(الشرح الممتع:7/147 میں ذکر کیا ہے کہ بیان کیا جاتا ہے کہ سب سے پہلے لفظ مخیط کی تعبیرابراہیم نخعیؒ نےکیا،حالانکہ میں نےاس کو تلاش کیا مگرنہیں پایا،البتہ سرخسیؒ کی(المبسوط:4/138) میں اس بات کو پایا کہ اس کی تعبیر سب سے پہلے زُفربن ہذیل ؒنے کی،یہ ابوحنیفہؒ کے اصحاب میں سے تھے، اورسن۱۵۸ھ میں وفات کئے۔
([3])دیکھیں:( الشرح الممتع:7؍418)
[4]) (الضَنُّ کے معنی بخل کے ہیں، کہا جاتا ہے: ضَنَّ بالشئ یَضَنُّ کسی کے ساتھ بخل کرنا، اور یہ تعب بخل کے باب سے ہے۔